یومِ یکجہتیِ کشمیر کے پوسٹر وہاں لگ گئے جہاں توقع نہ تھی
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
سٹی42: پاکستان میں سرکاری اداروں اور چند سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کو چھوڑ کر 5 فروری کے یومِ یکجہتیِ کشمیر میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ عام شہری اس روز عام تعطیل کو صرف ایک ہالیڈے ہی حیثیت سے گزارتے ہیں۔ تاہم مقبوضہ کشمیر میں اب عوام نے پاکستانیوں کے یومِ یکجہتیِ کشمیر کو اپنا لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سڑکوں پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم آزاد کشمیر کے پوسٹرز لگ گئے۔
کشمیر میڈیا سروس (کے ایم ایس) کنے مقبوضہ کشمیر میں اپنے رپورٹنگ نیٹ ورک کی اطلاعات شئیر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی سڑکوں پر اور اس کے ساتھ مقبوضہ وادی کے کئی دوسرے علاقوں میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی اور یوم یکجہتیِ کشمیر منانے پر پاکستانی عوام سے اظہار تشکرکے لئے خصوصی پوسٹرزلگائے گئے ہیں۔
لاہور؛268 ٹریفک حادثات میں 309 افراد زخمی
مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا نام لینا ممنوع ہے۔ پاکستان کے جھنڈے کی نمائش اور پاکستان کے حق میں کوئی نعرہ کشمیر پر قابض فوج کو مشتعل کر دیتا ہے اور وہ اس کام میں ملوث افراد کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ سخت جبر اور خوف کے ماحول میں بھی کشمیر کے آزادی پسندوں نے عین سری نگر شہر کی شاہراہوں پر پاکستانی وزیراعظم ، آرمی چیف اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے پوسٹر آویزاں کر کے عملی اظہار کیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک زندہ ہے۔
سری نگر سمیت مقبوضہ وادی کے مختلف علاقوں میں پاکستان سے اظہار تشکرکے پوسٹرزلگائے گئے، کے ایم ایس— فوٹو: کے ایم ایس
مغربی کنارے میں اسرائیلی چوکی پر حماس کا حملہ، دو فوجی ہلاک، آٹھ زخمی
کے ایم ایس نے بتایاکہ بھارت کےغیرقانونی قبضےکےخلاف پاکستان میں 1990 سے 5 فروری کویوم یکجہتی کشمیر منایا جارہا ہے۔ پاکستان کی وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو نے یوم یکجہتیِ کشمیر کا آغاز کیا تھا اور اس دن کو پاکستان میں قومی تعطیل قرار دیا تھا۔ تب سے ہر سال پاکستان میں یومِ یکجہتیِ کشمیر پر عام تعطیل ہوتی ہے، سیاسی سماجی تنظیمیں اس روز سڑکوں پر کشمیری عوام کی آزادی کی تحڑیک کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے جلوس نکالتے ہیں۔ چھوٹے برے شہروں میں اس روز سیمینار اور کانفرنسیں اور دیگر تقریبات منعقد کئے جاتے ہیں۔
محسن نقوی نے اسلام آباد میں پنجاب سپیڈ کو محسن سپیڈ میں بدل دیا ہے؛ وزیر اعظم شہباز شریف
رانی پور ؛ پیر کی کمسن ملازمہ سے زیادتی و قتل کیس؛مقتولہ کی والدہ نے صلح کرلی
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پاکستان میں کے ایم ایس کشمیر کے
پڑھیں:
مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی
ریاض احمدچودھری
بھارتی وزارت داخلہ اور اس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے نے آر ایس ایسـبی جے پی کے رہنما آر آر سوائن کی سربراہی میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر سمیت آزادی پسند جماعتوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کے بعدایس آئی اے نے زمینوں، اسکولوں، مکانات اور دفاترسمیت اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے ہی اسلام آباد، شوپیاں، پلوامہ اور جنوبی کشمیر کے کئی دیگر اضلاع میں سو کروڑروپے سے زائد مالیت کے جماعت اسلامی کے اثاثے ضبط کرلئے ہیں۔جموں و کشمیر میں جماعت کی مزید 100جائیدادیں ضبط کرنے کی بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے لئے نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جائیدادوں کو سیل کردیا جائے گا۔عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ایسی تمام جائیدادوں کو مرحلہ وار سیل کر دیا جائے گا۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت حق خود ارادیت کے مطالبے کی حمایت کرنے پرجماعت اسلامی کو نشانہ بنارہی ہے۔
2019 میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی حمایت کرنے پر بھارت نے جماعت اسلامی کشمیر پر پابندی لگا دی تھی۔بھارت کے مرکزی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کے عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں اور وہ ان کی مکمل حمایت بھی کرتے ہیں۔جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے اقدام کی وادی کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں نے مذمت کی تھی۔ جماعت نے پانچ سالہ پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کارروائیوں میں جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے7 سرکردہ علمائے کرام کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری، عبدالرشید داودی، جماعت اسلامی کے رہنما عبدالمجید دار المدنی، فہیم رمضان اور غازی معین الدین بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی فنڈنگ سے متعلق بھارتی ایجنسیوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا، ‘نہ تو کبھی کسی عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ تحریکی سیاست پر یقین رکھتی ہے’۔بھارتی ایجنسیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی وادی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور بھارت مخالف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے این آئی اے نے جموں و کشمیر میں واقع جماعت اسلامی سے وابستہ بہت سے کارکنان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تھے۔تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بس ہراساں کرنے اور دھونس جتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ تنظیم اس وقت سرگرم تو ہے نہیں۔ انہیں کوئی ثبوت دینا چاہیے کہ آخر جماعت نے کس کو فنڈنگ کی ہے اور کہاں دیا ہے؟ جماعت 1997 سے یہ مسلسل کہتی رہی ہے کہ ہمارا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر میں سماجی خدمات کا کام کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ مذہبی تبلیغ کے لیے جلسے جلوس کرتی تھی جو پابندی کے سبب سب بند پڑے ہیں۔کشمیر میں اس وقت زبردست خوف اور دہشت ہے۔ ہر ایک کو کم سے کم بنیادی آزادی کے حقوق ملنے چاہیں۔ ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔ ہم کسی غیر قانونی کام کی بات نہیں کرتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ تو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے۔ اب کشمیریوں کے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق کو دبانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مودی سرکار بین الاقوامی قوانین اور عالمی اداروں کی طرف سے طے کردہ حدود و قیود کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی۔ حال ہی میں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے دو تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی حکام کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو پانچ سال کے لیے غیر قانونی قرار دینے کی مذمت کی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق کررہے ہیں جبکہ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کی بنیاد ایک اور قابل ذکر سیاسی اور مذہبی رہنما مولانا محمد عباس انصاری نے رکھی تھی۔حالیہ فیصلے سے کالعدم کشمیری سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی کل تعداد 16 ہو گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگانا کشمیر میں بھارتی حکام کے ظالم ہاتھوں سے چلنے والے رویے کا ایک اور مظہر ہے۔ یہ سیاسی سرگرمیوں اور اختلاف رائے کو دبانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جمہوری اصولوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سراسر بے توجہی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بیان میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیری سیاسی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عمل درآمد کروائے۔
مودی سرکار ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو کشمیر اور مسلمانوں کے حق میں بلند ہوتی ہو۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی ہر قسم کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔ انھیں نہ مذہبی آزادی حاصل ہے نہ سیاسی۔ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارت کے یہ مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟
مقبوضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت سیاسی اور سماجی کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے علاقے میںجماعت اسلامی اور دیگر فلاحی تنظیموں سے وابستہ تقریبا 100مزید تعلیمی اداروں اور جائیدادوں کو سیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
٭٭٭