Islam Times:
2025-09-18@23:30:17 GMT

فلسطین و کشمیر۔۔۔ لیلیٰ خالد سے مقبول بٹ تک

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

فلسطین و کشمیر۔۔۔ لیلیٰ خالد سے مقبول بٹ تک

اسلام ٹائمز: فلسطین و کشمیر کی جدید تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب لیلیٰ خالد اور مقبول بٹ جیسے مزاحمت کاروں نے اپنی جدوجہد سے رقم کیا ہے۔ انکی جدوجہد کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ظالموں کے مقابلے میں مقاومت اور مزاحمت صرف زمینوں کو آزاد کرانے کیلئے ہی نہیں بلکہ دماغوں اور سینوں میں افکار و نظریات کو زندہ رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے۔ زمینوں کی آزادی کی مانند افکار و نظریات بھی آزادی چاہتے ہیں۔ افکار و نظریات کی آزادی کی جدوجہد کے راستے میں گزرنے والا ہر لمحہ وہ بیج ہے، جس سے ظلم کی تیز آندھی کا مقابلہ کرنے کیلئے مقاومت اور مزاحمت کے دیوقامت درخت اُگتے ہیں۔ آزادی کی جو بھی قسم اور شکل ہو، اس کیلئے جدوجہد عام لوگوں کا کام نہیں بلکہ یہ صرف وہی کرسکتے ہیں، جنکے دماغ آفاق کی طرح وسیع اور دل پہاڑوں کی طرح مضبوط ہوں۔ تحریر: نذر حافی

کسے خبر تھی کہ 1944ء میں حیفہ میں متولد ہونے والی لیلی خالد  1948ء میں "نکبہ" کے دوران مہاجر ہو جائے گی۔ مہاجرین کے کیمپوں میں پلنے والی لیلی خالد اپنی زندگی میں صرف ایک مرتبہ دوبارہ سے حیفہ کو دیکھ سکیں، وہ بھی تب کہ جب 1969ء میں انہوں نے اپنے ہائی جیک کیے گئے طیارے کے پائلٹ کو حیفہ کے اوپر سے گزرنے کا حکم دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں مہاجرین کے کیمپ میں ہمیشہ یہ سوچتی تھی کہ ہم کیوں ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ فلسطین لبریشن فرنٹ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے والی لیلی خالد نے لبنان کے ایک پناہ گزین کیمپ میں اپنا بچپن گزارا۔ راقم الحروف نے لیلی خالد کے افکار و نظریات کا مطالعہ کیا تو یہ سمجھا کہ ہر انسان کی زندگی یہ طے کرتی ہے کہ وہ کون ہے؟ زندگی میں مثبت اور منفی دونوں طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ہر واقعے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے آپ سے پوچھئے کہ میں اس واقعے سے کیا سیکھ سکتا ہوں؟ اسی طرح مختلف سیاسی، مذہبی، سماجی اور معاشی تحریکیں بھی ہمارے بارے میں یہ طے کرتی ہیں کہ ہم کون ہیں؟ ہمارے شعور کی سطح کیا ہے؟ ہمارا وژن کیا ہے۔؟

آج بھی دنیا بھر میں ساٹھ لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ گزین اس دن کا انتظار کر رہے ہیں، جب وہ اپنے ملک واپس جا سکیں اور اپنی ہی چھت کے نیچے ایک رات گزار سکیں۔ ذرا تصوّر کیجئے کہ جب مغوی طیارہ مقبوضہ فلسطین کے اوپر سے گزر رہا ہوگا تو لیلیٰ خالد اور دیگر فلسطینیوں کے دل پر کیا گزری ہوگی۔؟ طیارہ اُن علاقوں کے اوپر سے پرواز کر رہا تھا، جو ان فلسطینیوں کی جائے پیدائش اور ان کے آباؤ اجداد کی ملکیت تھے، لیکن اب وہ انہیں دیکھنے کو ترس رہے تھے۔ انہیں ان علاقوں پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بعد لیلیٰ گرفتار ہوئی اور پھر ایک ایسے ہی معرکے کے نتیجے میں اُسے رہائی ملی اور رہائی کے بعد اُس نے پھر سے ایک اور طیارہ اغوا کیا۔ اگلے سال، لیلیٰ خالد نے نکاراگون کے جنگجو پیٹرک ارگولو کے ساتھ ایک اور ہائی جیکنگ آپریشن میں حصہ لیا۔

اس آپریشن میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ساتھ چار طیاروں کو ہائی جیک کیا جانا تھا۔ دوسری مرتبہ لیلیٰ خالد  زخمی ہوگئی اور اس کا ساتھی گولی لگنے سے دم توڑ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جب دو ہائی جیک طیارے اردن کے ایک صحرا میں اترے تو ایک پھٹ گیا اور دوسرا جس میں لیلیٰ موجود تھی، کو پولیس نے پکڑ لیا۔ اچانک اردن کے دارالحکومت عمان کے ہوائی اڈے کے کنٹرول ٹاور نے اعلان کیا کہ بحرین سے بیروت جانے والے ایک برطانوی طیارے کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے اور وہ دو دیگر طیاروں کے ساتھ لینڈ کرنے کی درخواست کر رہا ہے۔ کیا کسی کو معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔؟ ہائی جیکر بھی حیران رہ گئے۔

منصوبے کے مطابق چار طیارے ہائی جیک کر لیے گئے تھے اور کوئی پانچواں طیارہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ پھر یہ پانچواں طیارہ کہاں سے آگیا؟بحرین میں کام کرنے والا ایک فلسطینی کارکن۔ لیلیٰ کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی وہ ایکشن میں آیا اور اکیلے ہی اس نے ایک طیارہ ہائی جیک کر لیا، اُس نے اغوا کیے گئے طیارے کے مسافروں کی رہائی کے بدلے لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ لیلیٰ خالد نے 28 دن برطانوی پولیس کی حراست میں گزارے۔ بعد ازاں برطانیہ کے وزیراعظم نے اسے پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے مغربی یرغمالیوں کے بدلے رہا کر دیا۔ دو سال بعد، پیپلز لبریشن فرنٹ آف فلسطین (PFLP) نے ہائی جیکنگ کو اپنے ایجنڈے سے نکال دیا اور اس پر پابندی لگا دی۔ لیلیٰ نے بھی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو نئی ہمت اور حوصلے سے جاری رکھا۔

لیلیٰ خالد نے پہلی مرتبہ 29 اگست 1969ء کو ایک اسرائیلی طیارہ اغوا کرکے دمشق ائیرپورٹ پر اُتارا۔ وہ پندرہ سال کی عمر سے ہی فلسطین کی آزادی کیلئے مرنے یا مارنے کا ارادہ کرچکی تھیں۔ کسی نوجوان لڑکی کا ایسا سوچنا عام حالات میں ممکن نہیں۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب قبضہ ہوتا ہے تو پھر مزاحمت بھی ہوتی ہے۔ یہ مزاحمت ایک دور سے دوسرے دور اور ایک شکل سے دوسری شکل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ 5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر کے عنوان سے مجھے مقبول بٹ شہید کی یاد آئی۔ مانا کہ اب ۵5 فروری میں اب پہلے سا رنگ نہیں رہا۔ یاد رکھیں کہ  جب تحریکیں اپنا اصلی رنگ کھونے لگتی ہیں تو مقبول بٹ اور لیلیٰ خالد جیسے کردار ابھرنے لگتے ہیں۔

1969ء میں لیلیٰ خالد نے فلسطین کاز کیلئے اسرائیلی طیارہ اغوا کیا اور 1971ء میں مقبول بٹ کے ساتھیوں نے کشمیر کاز کیلئے ہندوستانی ائیرلائن کا "گنگا طیارہ" اغوا کرکے لاہور پاکستان لایا۔ اس وقت ساری دنیا کی نظریں مشرقی پاکستان کے خلفشار پر مرکوز تھیں۔ انڈین طیارہ اغوا کرنے والے دونوں کشمیری نوجوانوں کی عمریں انتہائی کم تھیں، ہاشم قریشی کی صرف ساڑھے سترہ سال اور اشرف قریشی 19 سال کے تھے۔ اس اغوا کا پسِ منظر یہ ہے کہ 1928ء میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور تحریکِ آزادی کشمیر کے روح رواں مقبول بٹ کو انڈیا نے سزائے موت سنائی تو وہ جیل توڑ کر آزاد کشمیر پہنچ گئے۔ اس کے تھوڑے دنوں کے بعد ایک سولہ سال کا نوجوان ہاشم قریشی اپنے عزیزوں سے ملنے پاکستان آیا اور اس دوران اس کی ملاقات مقبول بٹ سے ہوئی۔ وہ مقبول بٹ کے افکار سے متاثر ہوا اور وہ واپس مقبوضہ کشمیر چلا تو گیا، لیکن وہ پھر غیر قانونی (آف دی ریکارڈ) طریقے سے پاکستان مقبول بٹ سے ملنے لوٹا۔

18 جون 1969ء کو ہاشم قریشی، امان ﷲ خان، ڈاکٹر فاروق حیدر اور مقبول بٹ کی ملاقات راولپنڈی میں ہوئی۔ یہ ڈاکٹر فاروق حیدر کا گھر تھا، جہاں اچانک اریٹریا کی آزادی کیلئے لڑنے والے تین نوجوانوں کی ایک خبر نشر ہوئی۔ انہوں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ کر یہ خبر سُننا شروع کر دی کہ ایتھوپیا کے مسافر طیارے پر تین نوجوانوں نے ہینڈ گرنیڈ اور ٹائم بموں سے حملہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ان دنوں ایتھوپیا کا اریٹریا پر قبضہ تھا اور وہاں آزادی کی تحریک جاری تھی۔ مقبول بٹ نے اُسی وقت یہ کہا کہ ہمیں بھی اپنی آزادی کی صدا اقوامِ عالم تک پہنچانے کیلئے کچھ ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ یہیں سے اس منصوبے پر کام شروع ہوا اور ایک کھلونا پستول اور لکڑی سے گرنیڈ کی طرح کا ایک کھلونا بنا کر 30 جنوری 1971ء کو ہفتے کے دن سرینگر سے جموں جانے والے انڈین طیارے کو اغوا کر لیا گیا۔

کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان دونوں نوجوانوں کے پاس پستول اور گرنیڈ کے بجائے کھلونے ہیں۔ بالاخر جہاز کو پاکستان میں لاہور ائیرپورٹ پر اتارا گیا۔ لاہور میں جب ہائی جیکروں سے ان کے مطالبات پوچھے گئے تو انہوں نے کہا کہ ہماری یہ کارروائی فقط کشمیر کی آزادی کیلئے ہے۔ انہوں نے یہ کہا اور دو گھنٹے کے اندر ہی تمام عورتوں اور بچوں کو رہا کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں انہوں نے دیگر مسافروں کو بھی جانے دیا۔ اشرف قریشی کے مطابق اس کے بعد ان کی مقبول بٹ سے مختصر ملاقات کرائی گئی، جس میں مقبول بٹ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ جہاز کے شیشے توڑ کر نیچے آجائیں، چونکہ جہاز کی مرمت کو چار سے پانچ روز لگیں گے اور اس دوران روزانہ کشمیر کاز کی خبر دنیا تک پہنچتی رہے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی ملاقات کے بعد وہ باہر نکلے تو سکیورٹی اہلکار آگے بڑھے، خاص طور پر ایس ایس پی لاہور عبد الوکیل نے ہاشم قریشی سے کہا کہ مقبول بٹ نے طیارے کو آگ لگانے کیلئے پیٹرول بھیجا ہے۔ ہاشم قریشی یہ نہیں سوچ سکتے تھے کہ یہ لوگ ان سے جھوٹ بولیں گے۔ یوں انہوں نے اسّی گھنٹے تک جہاز پر قبضہ رکھنے کے بعد اُسے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کے کہنے پر جلا دیا۔ یوں اس طیارے کو جلانے کے پیچھے کئی اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن ایک اہم سبب ہمارے سکیورٹی اداروں کا اپنے فرائضِ منصبی سے جان چھڑانے کا رویّہ بھی ہے۔ جیسا کہ لیاقت علی خان کے قاتل کو خود ہی قتل کر دینا اور پاکستان میں اکثر "خودکش حملہ آوروں" کے دھماکے میں ہی اُڑ جانے کی رپورٹ بنا دینا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔۔۔

قابض فورسز لیلیٰ خالد اور مقبول بٹ کو دہشت گرد کہتی ہیں۔ یہی سوال جب لیلیٰ خالد سے کہا گیا کہ قابض طاقتیں آپ کو دہشت گرد کہتی ہیں، اس بارے آپ کیا کہیں گی۔؟ لیلی خالد نے جواب میں کہا کہ دہشت گردی کا مطلب ناجائز قبضہ کرنا ہے۔ ہر روز آپ فلسطین میں لوگوں کے قتل کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ روزانہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو گولیاں مار رہی ہے۔ صحافیوں کو سچی رپورٹنگ کرنے پر قتل کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی یہ ہے کہ ہماری زمین، پانی اور گھروں کو لوٹ لیا گیا اور قبضہ کرنے والوں نے زبردستی ہمیں ہجرت پر مجبور کیا۔ صیہونی غنڈوں نے اپنی بستیوں کی تعمیر کے لیے ہمارا  قتل عام کیا اور اناً فاناً جنت نظیر 465 فلسطینی بستیوں کو کھنڈر بنا دیا۔ دہشت گرد تو وہ لوگ ہیں، جو یہ سب کر رہے ہیں جبکہ ہم تو اپنی مقبوضہ سرزمین کو آزاد کرانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیلیٰ خالد کی اسی گفتگو میں اُن لوگوں کیلئے بھی جواب موجود ہے، جو مقبول بٹ شہید کو دہشت گرد کہتے ہیں۔

فلسطین و کشمیر کی جدید تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب لیلیٰ خالد اور مقبول بٹ جیسے مزاحمت کاروں نے اپنی جدوجہد سے رقم کیا ہے۔ ان کی جدوجہد کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ظالموں کے مقابلے میں مقاومت اور مزاحمت صرف زمینوں کو آزاد کرانے کیلئے ہی نہیں بلکہ دماغوں اور سینوں میں افکار و نظریات کو زندہ رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے۔ زمینوں کی آزادی کی مانند افکار و نظریات بھی آزادی چاہتے ہیں۔ افکار و نظریات کی آزادی کی جدوجہد کے راستے میں گزرنے والا ہر لمحہ وہ بیج ہے، جس سے ظلم کی تیز آندھی کا مقابلہ کرنے کیلئے مقاومت اور مزاحمت کے دیوقامت درخت اُگتے ہیں۔ آزادی کی جو بھی قسم اور شکل ہو، اس کیلئے جدوجہد عام لوگوں کا کام نہیں بلکہ یہ صرف وہی کرسکتے ہیں، جن کے دماغ آفاق کی طرح وسیع اور دل پہاڑوں کی طرح مضبوط ہوں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مقاومت اور مزاحمت اور مقبول بٹ کی آزادی کی طیارہ اغوا ہاشم قریشی کر رہے ہیں نہیں بلکہ کی جدوجہد طیارے کو ہائی جیک انہوں نے خالد اور کے بعد ا اغوا کر طیارہ ا خالد نے اور اس کر دیا کہا کہ کی طرح کیا ہے

پڑھیں:

فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-5

 

میر بابر مشتاق

فلسطین کی زمین انسانی تہذیب، ثقافت اور مذہبی ورثے کی ایک زندہ علامت رہی ہے۔ ہزاروں سال سے یہاں انسانی تاریخ رقم ہوتی رہی، مقدس مقامات قائم ہوئے اور معاشرتی اصول پروان چڑھے۔ مگر بیسویں صدی میں یہ خطہ ایک غاصب منصوبے کا شکار ہوا، جس نے فلسطینی عوام کی زمین چھین لی اور انہیں بے گھر کر دیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینی بے دخلی کا سلسلہ شروع ہوا، اور آج تک حقیقی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو سکی۔ اسرائیل نے نہ صرف فلسطینی زمین پر اپنی بستیوں کی تعداد بڑھائی بلکہ قدس شریف میں آبادیاتی تبدیلیاں کیں، غزہ میں بمباری کر کے بنیادی سہولتیں تباہ کیں اور انسانی زندگی اُجاڑ دی۔ ہر موقع پر فلسطینی حق ِ ملکیت، حق ِ واپسی اور بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی اقدامات اکثر علامتی رہ گئے، جبکہ اسرائیل عالمی طاقتوں کے تحفظ اور تعاون سے فلسطینی حق کو دباتا رہا۔

دو ریاستی حل، جسے اکثر امن کا حل کہا جاتا ہے، فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔ یہ حل 1967 کی سرحدوں تک محدود ہے اور اسرائیل کو قبضے کو جاری رکھنے کا قانونی جواز دیتا ہے، جبکہ فلسطینی حق ِ واپسی اور تاریخی حقوق پس ِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ اگر دو ریاستی حل واقعی قابل قبول ہوتا تو آج فلسطینی ریاست قائم ہو چکی ہوتی، مگر اسرائیل اور عالمی طاقتوں نے اسے ہمیشہ روکا۔ فلسطینی مزاحمت، خاص طور پر حماس، صرف عسکری نہیں بلکہ عوامی شعور اور سیاسی بقا کی نمائندگی کرتی ہے۔ 2006 کے انتخابات میں عوام نے حماس کو مینڈیٹ دیا، جو آج تک اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے قائم ہے۔ مزاحمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے، جو انسانی، قانونی، اخلاقی اور شرعی اعتبار سے محفوظ ہے۔

اسرائیل نے گزشتہ دہائیوں میں فلسطینی علاقوں میں آبادکاری، قدس میں آبادیاتی تبدیلیاں، غزہ میں بمباری اور بنیادی سہولتوں کی تباہی کا سلسلہ جاری رکھا۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت میں 64,803 فلسطینی شہید اور 164,264 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ 80 فی صد سے زائد مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ یہ مظالم اسرائیل کی غاصب ریاست ہونے کی واضح مثال ہیں۔ یہ سلسلہ 1948 سے نہیں بلکہ 1917 کے بالفور ڈیکلیریشن سے شروع ہوا، جب برطانیہ نے فلسطینی زمین پر یہودیوں کے لیے ’’قومی گھر‘‘ قائم کرنے کا وعدہ کیا، بغیر کسی مالک کی اجازت کے۔ برطانوی انتداب نے فلسطینیوں کے خلاف ظلم کیا: ہتھیاروں پر پابندی، مظاہروں پر گولیاں، اور یہودی آبادکاروں کو زمین کا تحفہ۔ 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا، حالانکہ فلسطینی آبادی 67 فی صد تھی مگر انہیں صرف 45 فی صد زمین دی گئی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے موقع پر لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نکالے گئے، جسے ’’نکبت‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1967 کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا اور غیرقانونی بستیاں قائم کیں۔ ہائی ویز صرف یہودیوں کے لیے بنائے گئے اور ’’جدار علٰیحدگی‘‘ نے فلسطینیوں کو اپنی زمین سے کاٹ دیا۔ آج سات لاکھ سے زائد یہودی بستی نشین مغربی کنارے میں مقیم ہیں۔ غزہ، جو دنیا کا سب سے بڑا ’’اوپن ائر جیل‘‘ ہے، وہاں 2007 سے محاصرہ ہے۔ بچوں کو دودھ نہیں ملتا، اسپتال بجلی سے محروم ہیں اور گولہ بارود کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں۔ 2014، 2021 اور 2023 کی جنگیں نسل کشی کی کوششیں تھیں، جن کی تصدیق اقوام متحدہ کے ماہرین حقوقِ انسان کر چکے ہیں۔

دنیا ’’انسانیت‘‘ کے نعرے لگاتی ہے، مگر امریکا ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر دیتا ہے، جو فلسطینی بچوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ یورپی یونین حقوقِ انسان کی بات کرتی ہے، مگر اسرائیلی مصنوعات پر پابندی نہیں لگاتی۔ عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرتے ہیں، جبکہ عوام سڑکوں پر فلسطین کے لیے رو رہے ہوتے ہیں۔ ’’ابراہیمی معاہدے‘‘ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عالمی انصاف کے اصولوں کو پامال کیا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں مفادات کی پیروی کرتی ہیں، نہ کہ فلسطینی انصاف کی۔ فلسطینی مزاحمت صرف حماس کی راکٹ باری تک محدود نہیں۔ یہ وہ بچہ ہے جو پتھر لے کر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، وہ ماں جو اپنے شہید بیٹے کی قبر پر فلسطینی جھنڈا لہراتی ہے، وہ نوجوان جو سوشل میڈیا پر اسرائیلی ظلم کی ویڈیوز شیئر کرتا ہے، اور وہ وکیل جو بین الاقوامی عدالت میں فلسطینی حق کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ فلسطینی ثقافت؛ گرافٹی، نغمے، کہانیاں، ڈائریاں۔ یہ سب مزاحمت کی شکلیں ہیں۔ بچوں کی ڈائریاں، جیسے شذا العجلہ یا محمد الدرہ، دنیا کو جھنجھوڑتی ہیں۔ مزاحمت کا سب سے بڑا ہتھیار ’’حقیقت‘‘ ہے، جو ہر دفعہ اسرائیلی جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے۔

دو ریاستی حل 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست قائم کرنے کا خیال تھا، لیکن اسرائیل نے ہر سال نئی بستیاں بنائیں، ہر معاہدے کے بعد نئی شرائط لگائیں، اور ہر امن مذاکرے کے بعد نئی بمباری کی۔ اوسلو معاہدے کے بعد بھی دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد یہودی بستی نشین مغربی کنارے میں منتقل ہوئے۔ اسرائیل نے کبھی فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 242 اور 338 بھی نافذ نہ ہو سکیں۔ دو ریاستی حل اب صرف ایک ’’تسلی دینے والا خواب‘‘ ہے، جسے اسرائیل اور امریکا نے کبھی پورا ہونے نہیں دیا۔

فلسطین صرف ایک خطہ نہیں بلکہ اسلامی تاریخ، ثقافت اور روحانیت کا مرکز ہے۔ بیت المقدس کی اہمیت قرآن و حدیث میں واضح ہے۔ امت ِ مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ فلسطین کے لیے جہاد، دعائیں، مالی امداد، سیاسی حمایت اور ثقافتی مزاحمت کرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا: ’’اگر کفار کسی مسلمان علاقے پر قبضہ کر لیں تو اسے چھڑانا فرضِ عین ہے‘‘۔ آج فلسطینی عوام تنہا نہیں، وہ پوری امت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مساجد، مدارس، یونیورسٹیاں اور میڈیا کا فرض ہے کہ فلسطین کی آواز بلند رکھیں۔ خاموشی گناہ ہے، بے حسی ناقابل ِ معافی۔ دو ریاستی حل کی ناکامی کے بعد نوجوان فلسطینی ایک ریاستی حل کی طرف رجوع کر رہے ہیں، جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں، چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی۔ اسرائیل کو بائیکاٹ کرنا (BDS Movement) ایک مؤثر ہتھیار ہے، جس سے اسرائیلی معیشت اور عالمی تصویر متاثر ہوتی ہے۔

عالمی عوامی رائے، سوشل میڈیا اور نوجوان نسل کی بغاوت وہ طاقتیں ہیں جو مستقبل میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسرائیل کی طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عالمی خاموشی میں ہے۔

قدس اور فلسطین صرف ایک ملک نہیں بلکہ امت مسلمہ کا وقف ہیں۔ جہاد اور مزاحمت، تاریخی، قانونی اور اخلاقی طور پر فلسطینی حق کے لیے جائز اور ضروری ہیں۔ فلسطینی مزاحمت صرف عسکری محاذ نہیں بلکہ عوامی شعور، ثقافت اور سیاسی بقا کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلسطینی عوام کی آواز آج بھی زندہ ہے:

نہ منہ چھپا کے جیے ہم، نہ سر جھکا کے جیے

ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے

اب ایک رات اگر کم جیے تو کم ہی سہی

یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیے

یہ عزم اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نیویارک اعلامیہ اور دو ریاستی حل صرف کاغذ پر ہیں، مگر فلسطین زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ فلسطینی مزاحمت، شہداء کی قربانیاں اور عوامی عزم ہی حقیقی آزادی کی ضمانت ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
  • برطانوی اداکار نے جذباتی انداز میں فلسطین کیلئے نظم پڑھی، تقریب کے شرکا رو پڑے
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
  • ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • آزاد کشمیر آل پارٹیز کا مسلح افواج سے یکجہتی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ
  • برطانیہ میں فلسطین کے لیے اب تک کا سب سے بڑا فنڈ ریزنگ ایونٹ
  •  آئی ٹی وقت کی ضرورت،دور درازعلاقوں تک پہنچانے کیلئے کوشاں: خالد مقبول
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ریاض پہنچ گئے، کنگ خالد ایئرپورٹ پر پرتپاک استقبال
  • ْپاکستان اورفلسطین کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون بڑھانے کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
  • آزاد کشمیر آل پارٹیز کا مسلح افواج سے یکجہتی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ