اقتصادی بحالی، معیشت کا استحکام
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
پاکستان اور سعودی ڈیولپمنٹ فنڈ کے درمیان 1.61 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط ہوگئے، وزارت خزانہ حکام کے مطابق مختلف شعبوں میں مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کیے، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سعودی سفیر موجود تھے۔ پاکستان کی معیشت دو سال بعد آخرکار مستحکم ہوگئی ہے۔
اعداد و شمار خود بولتے ہیں۔ پاکستان نے 15 برس میں چھ ماہ کا سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا ہے، جب کہ مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور ترسیلات زر کی مد میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے بحالی ہوئی ہے جو اب تقریباً 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
پاکستان، ملکی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز اور دوست ملکوں پر انحصار کرتا ہے۔ جن میں خصوصی طور پر چین اور سعودی عرب شامل ہیں جو تجارتی اور مالیاتی حوالے سے پاکستان کے مستقل شراکت دار ہیں۔ بلاشبہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) نے اہم خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے خصوصی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ برس سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے 15 سے 16 اپریل کے درمیان، پاکستانی دورے سے گرمجوشی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس دورے میںان کے ساتھ اعلیٰ ماہرین کا وفد شامل تھا، جس نے ان امور کا جائزہ لیا جس میں سعودی عرب، پاکستان میں ایک سے دو سال کے درمیان 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، جسے اگلے پانچ سالوں میں 25 بلین ڈالر تک بڑھا دیا جائے گا۔
سعودی عرب میں سب سے زیادہ پاکستانی افرادی قوت، وہاں کے مختلف شعبوں میں اپنی قابل قدر خدمات فراہم کررہی ہے۔ جس میں کارپوریٹ ماہرین، جن کا تعلق چاہے انجینئرنگ، طبی، معاشی شعبوں سے ہو سبھی شامل ہیں۔ یعنی پاکستانی پیشہ ور افراد کے ہمراہ غیر ہنر مند افرادی قوت بھی سعودی ممالک کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہے۔
اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے دو اہم رکن ہونے کے ناتے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسلم دنیا کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ماضی قریب میں دونوں ممالک کے درمیان ان تعلقات نے ایک نیا موڑ لیا ہے اور باہمی فائدے اور حمایت کی راہ پر گامزن ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا وژن 2030چند اہم عناصر کے گرد گھومتا ہے جن میں انتظامی نظام کی بحالی، سیاسی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانا اور ایک ایسا کلچر تیار کرنا شامل ہے، جہاں قانون کی پاسداری کو بنیادی ذمے داری سمجھا جاتا ہے۔
ان مقاصد میں تیل اور زیارات کے علاوہ دیگر ترجیحات کی تلاش کے ساتھ ساتھ آبادی کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے معاشی ذرایع بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ایک وجہ مشرقی وسطیٰ اور عرب دنیا میں تیزی سے بدلتی جیو پولیٹکل صورتِحال اور کشیدگی ہے۔
سعودی عرب کو پاکستان کی دفاعی مدد اور سفارتی حمایت کی ہر سطح پر ضرورت ہے۔ دوسری جانب جہاں صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی عالمی معیشت کے لیے بری خبر ہو گی، وہ خاص طور پر پاکستان کی برآمدات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات پر امریکی ٹیرف کرنٹ اکاؤنٹ کو منفی طور پر متاثر کریں گے اور یہ امریکی ڈالر کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ USD-PKR ایکسچینج ریٹ کو شدید دباؤ میں لے آئے گا۔ اس کے بعد ’سٹیگ فلیشن‘ (stagflation) کا ایک اور دور شروع ہو گا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو پالیسی ریٹ بڑھانے پر مجبور کرے گا، جس سے اقتصادی سرگرمیاں رکنے کا امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
بلاشبہ سیاسی عدم استحکام اور سیکیورٹی کی چیلنجوں کے باوجود پاکستانی معیشت میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ ملک کی معاشی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے کہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں اور ماحول کو کاروبار دوست اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار بنایا جائے۔ اس وقت ملکی معیشت مجموعی طور پر ایک امید افزا صورتحال پیش کر رہی ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں فچ اور موڈیز کی جانب سے ملکِ عزیز کی ریٹنگ اَپ گریڈ کی گئی ہے جو مثبت معاشی اشاریوں کا ایک اعتراف ہے۔
پاکستانی پالیسی سازوں کو معاشی اصلاحات کو اس طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے جس سے لاکھوں گھرانوں میں معاشی استحکام آئے۔ اس کے لیے پالیسی سازو ں کو اپنی توجہ اقتصادی ترقی کے سادہ تصورات سے ہٹا کر ملک میں مجموعی انسانی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سخت پالیسیوں کی طرف موڑنا چاہیے۔
پبلک سیکٹر میں اس موقع کو حاصل کرنے کا شدید فقدان ہے۔ ریاست کے وسائل کو جمع کرنے اور خرچ کرنے کے طریقے میں پالیسی کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے قابل عمل منصوبے درکار ہیں۔ ایسی منصوبہ بندی حکومت میں بیٹھے ہمارے پالیسی ساز ہی کر سکتے ہیں۔ غیر مستحکم معاشی حالات میں جو سرکاری افسران یا حکومتی عہدیداران سبسڈی یا مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اُن کا خاتمہ اب وقت کی ضرورت ہے۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول کا بہتر، خوشگوار اور پُرامن ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔
روپے کی شرح مبادلہ یا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کے حوالے سے گزشتہ سال حکومت اور اسٹیٹ بینک نے اقدامات کا آغاز کیا تھا اور دو طرفہ مشترکہ کاوشوں سے روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے۔ ایک ڈالر 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا اور مارکیٹ میں 350 تک قیمت جانے کی باتیں ہورہی تھیں۔
مارکیٹ میں ڈالر کے تین ریٹ چل رہے تھے، ایک سرکاری دوسرا اوپن مارکیٹ اور تیسرا ریٹ بلیک مارکیٹ کا تھا۔ ڈالر کی تیزی سے بیرون اسمگلنگ سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا ہوا تھا۔ اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایف آئی اے، پولیس، رینجرز اور مسلح افواج نے مل کر ڈالر کی اسمگلنگ اور سٹے بازی کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سال 2024کے آغاز پر روپے کی قدر میں استحکام دیکھا جانے لگا اور آئی ایم ایف سے قرض معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آئی۔
انتظامی اور پالیسی سطح کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ایک ڈالر جوکہ جنوری میں 280 روپے کا تھا، اب یہ 277 روپے کا ہوچکا ہے۔ اس عمل سے پاکستان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے، لیکن کیا جس سطح پر اب ڈالر موجود ہے کیا یہ اس کی درست قیمت ہے اور کیا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید بہتری نہیں آنی چاہیے؟ ملک میں معاشی استحکام دیکھا جارہا ہے اور مہنگائی میں بتدریج کمی دیکھی جانے لگی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا عمل رکا ہے ۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں تسلسل کے ساتھ کمی کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنی جیسی معیشت کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر اصلاحات کا عمل جاری رہا تو آنے والے دنوں میں پاکستانی معیشت میں مزید استحکام آسکتا ہے۔
عالمی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، انھیں مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان کی معیشت نے مشکل حالات میں یگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس وقت امریکا ، کینیڈا، یورپی یونین تک جیسے ترقی یافتہ ممالک معاشی مسائل کا شکار ہیں اور مختلف قسم کے اقدامات کررہے ہیں۔ چین اور انڈیا بھی معاشی حکمت عملیاں تبدیل کررہے ہیں اور انھیں بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،ایسے حالات میں پاکستان کی معیشت کا استحکام حاصل کرنا، خاصی حوصلہ افزاء بات ہے۔حالانکہ پاکستان کو علاقائی سطح پر کئی مسائل درپیش ہیں۔
افغانستان پاکستان کے لیے مسلسل درد سر ہے جب کہ داخلی طور پر دہشت گردی بھی ایک مسلہ ہے۔ پاکستان کے دو صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں معاشی سرگرمیاں بہت کم ہیں۔ان صوبوں کی سماجی حالت اور سوچ معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ قبائلی نظام معاشرت کے ساتھ ترقی کا عمل تیز نہیں ہوسکتا ، ترقی کے عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے عناصر قبائلی سماج میں طاقتور ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان صوبوں میں جدید رجحانات پنپ پائیں۔ان رکاوٹوں کے باوجود پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کے سفر پر گامزن ہے ، جس کے مستقبل میں اچھے نتائج نکلیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روپے کی قدر میں سرمایہ کاری پاکستان میں پاکستان کے سے پاکستان پاکستان کی استحکام ا کے درمیان کی معیشت کے ساتھ ترقی کے ڈالر کے ڈالر کی ہے اور کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
پاکستان کے مسلسل بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں صدر آصف علی زرداری ایک ایسی بلند قامت شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے جمہوری استحکام، صوبائی خودمختاری اور قومی مفاہمت میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی 2024 میں ایوان صدر میں واپسی صرف ایک سیاسی تقرری نہیں، بلکہ اس عزم کی تجدید ہے جو وہ ہمیشہ جمہوریت، آئین اور وفاقی نظام کے لیے رکھتے آئے ہیں۔
صدر زرداری کا سیاسی سفر سہولت پر مبنی نہیں بلکہ قربانی اور استقامت سے بھرا ہوا ہے، انہوں نے گیارہ سال سے زائد سیاسی انتقام پر مبنی بغیر کسی سزا کے قید کاٹی لیکن کبھی تلخی کو اپنی پہچان نہیں بننے دیا، وہ ہمیشہ بردباری، مفاہمت اور آئینی اداروں کے احترام کے حامی رہے۔
2007 میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی المناک شہادت کے بعد جب پورا ملک سوگوار تھا تو آصف زرداری نے نہ صرف پارٹی بلکہ پورے پاکستان کو متحد رکھا، ان کے تاریخی الفاظ ’’پاکستان کھپے‘‘ نے جذبات کے بجائے وطن کی سالمیت کو ترجیح دی۔
یہ وہی وژن تھا جسے بینظیر بھٹو نے مفاہمت کی سیاست کے ذریعے فروغ دیا، جس کا عملی مظاہرہ چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاقِ جمہوریت) کی صورت میں 2006 میں نواز شریف کے ساتھ کیا گیا۔
جب صدر زرداری 2008 میں صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے اسی وژن کو عملی جامہ پہنایا، ان کی قیادت میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم محض ایک قانونی اصلاح نہیں تھی بلکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کی بحالی تھی۔
اس ترمیم کے ذریعے انہوں نے صدارت کے اختیارات رضاکارانہ طور پر پارلیمان کو واپس دیے اور آمریت کے دور کی آئینی بگاڑ کو درست کیا۔
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختار کیا، نہ صرف قانون سازی کے حوالے سے بلکہ ترقیاتی اور مالیاتی منصوبہ بندی کے لحاظ سے بھی پہلی بار، صوبے اپنے وسائل اور ضروریات کے مطابق فیصلہ سازی کے قابل ہوئے، یہ صرف آئینی تقاضا نہیں تھا بلکہ حقیقی وفاقیت کی طرف عملی قدم تھا۔
صدر زرداری کا وژن صرف سیاسی نہیں معاشی میدان میں بھی انقلابی ثابت ہوا، ان کی قیادت میں زرعی شعبے کو خصوصی ترجیح دی گئی۔
کسان دوست پالیسیوں، بروقت بیجوں اور کھاد کی فراہمی، منصفانہ نرخوں، اور زرعی قرضوں کی فراہمی نے ملک بھر میں زرعی پیداوار میں تاریخی اضافہ کیا۔
ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں صرف ایک سال کے اندر پاکستان گندم درآمد کرنے والے ملک سے گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا، یہ صرف ایک معیشتی کامیابی نہیں بلکہ کاشتکاروں کے اعتماد کی بحالی اور قومی غذائی سلامتی کی ضمانت تھی۔
2010 اور 2011 کے تباہ کن سیلابوں کے دوران صدر زرداری کی قیادت، نگرانی اور قومی رابطے کی صلاحیت نے ثابت کیا کہ وہ آزمائش میں بھی قوم کے ساتھ کھڑے رہنے والے لیڈر ہیں۔
ان سیلابوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، فصلیں اور بنیادی ڈھانچے تباہ ہوئے لیکن زرداری صاحب نے ریلیف کیمپوں، طبی امداد اور بحالی کے عمل کو ذاتی طور پر مانیٹر کیا۔
انہوں نے قومی اداروں، صوبائی حکومتوں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر ریلیف کے کاموں کو مؤثر اور منظم رکھا۔
اسی دوران انہوں نے معاشرے کے محروم طبقے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا منصوبہ تھا۔
یہ پروگرام خاص طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے تھا، جن میں سے لاکھوں کو پہلی بار شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹ اور مالی خودمختاری حاصل ہوئی، اس پروگرام نے صرف غربت کم نہیں کی بلکہ خواتین کی حیثیت کو بدلا اور پاکستان میں معاشرتی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔
صدر زرداری کا طرزِ سیاست ہمیشہ بردباری، مکالمے اور جمہوری تسلسل پر مبنی رہا ہے، ان کی قیادت ٹکراؤ پر نہیں بلکہ مشترکہ قومی مفاد پر استوار ہے۔
انہوں نے شہید بینظیر بھٹو کی مفاہمتی سیاست کو جاری رکھا اور مخالفین کو دشمن کے بجائے مکالمہ کرنے والا فریق سمجھا۔
ان کے پہلے دورِ صدارت میں ہی پاکستان نے اپنی تاریخ کا پہلا پُرامن جمہوری انتقالِ اقتدار دیکھا، جب ایک منتخب حکومت نے اپنی مدت مکمل کر کے اگلی منتخب حکومت کو اقتدار سونپا جو صرف جمہوریت پر یقین اور آئینی عملداری کی بدولت ممکن ہوا۔
آج 2025 میں جب وہ دوبارہ ایوانِ صدر میں موجود ہیں تو ان کا وژن وہی ہے۔ وفاق کو مضبوط کرنا، صوبوں کو بااختیار بنانا، غریب اور محروم طبقات کی فلاح اور آئینی نظام کا استحکام۔
انہوں نے حالیہ دنوں میں بھی سیاسی قوتوں کو مکالمے کی دعوت دی ہے، تاکہ ملک کو محاذ آرائی سے بچا کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
ان کی مسکراہٹ جو ہر کٹھن وقت میں برقرار رہتی ہے! صرف ذاتی مزاج کی عکاس نہیں بلکہ سیاسی بصیرت، برداشت اور یقین کی علامت ہے۔
وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو اقتدار کو ذاتی اختیار کے لیے نہیں، بلکہ آئینی اداروں، پارلیمان اور عوام کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آج جب ہم 26 جولائی کو صدر آصف علی زرداری کی سالگرہ مناتے ہیں تو ہم صرف ایک سیاستدان کو نہیں بلکہ ایک دوراندیش رہنما کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو وفاقی ہم آہنگی، جمہوری اقدار اور عوامی خدمت کے استعارے بن چکے ہیں۔
سالگرہ مبارک ہو، جنابِ صدر! آپ کا وژن پاکستان کو آئینی، بااختیار اور خوشحال بنانے کی راہ پر قائم رکھے۔
تحریر: شازیہ مری، مرکزی اطلاعات سیکریٹری پی پی پی-پی، ممبر قومی اسمبلی