پرنس کریم آغا خان کی بصیرت اور سخاوت لازوال رہے گی،وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
پرنس کریم آغا خان کی بصیرت اور سخاوت لازوال رہے گی،وزیراعظم WhatsAppFacebookTwitter 0 5 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی بصیرت اور سخاوت لازوال رہے گی۔
اپنے پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر اسماعیلی برادری کے غم میں شریک ہیں۔ پرنس کریم آغا خان کی بصیرت اور سخاوت کی لازوال میراث نسلوں تک جاری رہے گی۔
شہباز شریف نے کہا کہ پرنس کریم آغا خان کی انسانیت کے لیے خدمات بے شمار ہیں۔ وہ ایسے رہنما تھے جن کی زندگی دنیا بھر میں کمیونٹی کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کے لیے وقف تھی۔ انہوں نے غربت کے خاتمے اور صحت و تعلیم سمیت کئی شعبوں میں اپنی انتھک کوششوں سے ناقابل فراموش اقدام کیے ہیں۔
قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کا اظہارِ افسوس
قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات کا سن کر دل بہت افسردہ ہے۔ پرنس کریم آغا خان انسانیت سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کی تعلیم اور صحت کے شعبے میں خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ پرنس کریم آغا خان نے پسماندہ اور متوسط درجے کے طبقات کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے امن اور برداشت کا درس دیا۔ انسانیت کی خدمت کے لیے ان کی کاوشیں لائق تحسین ہیں ۔ پاکستانی قوم پرنس کریم آغا خان کی وفات پر غمزدہ ہے ۔ اللہ تعالی سوگواران کو یہ غم برداشت کرنے کا حوصلہ اورعطا فرمائے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا اظہار افسوس
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اسماعیلی کمیونٹی کے 49ویں امام پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرنس کریم آغا خان نے اپنی جماعت اور کمیونٹی کی تعلیم و تربیت میں بھرپور کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ پرنس کریم آغا خان نے اپنی جماعت اور کمیونٹی کے ذریعے صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں بھرپور خدمات سرانجام دیں۔ سندھ حکومت اور صوبے کے عوام پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر جماعت کے غم میں برابر کی شریک ہے۔
پرنس کریم آغا خان کی سماجی شعبوں کیلیے خدمات ناقابل فراموش ہیں، محسن نقوی
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے اسماعیل کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندان اور اسماعیل کمیونٹی سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیا ہے۔
محسن نقوی نے کہا کہ پرنس کریم آغا خان کی سماجی شعبوں کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے پاکستان میں تعلیم و صحت کے شعبوں میں نمایاں کام کیا۔ پرنس کریم آغا خان کے انتقال سے دنیا انسانیت کی ہمدرد شخصیت سے محروم ہوگئی ہے۔
پرنس کریم آغا خان عظیم مدبر اور انسانیت کے خدمتگار تھے، شرجیل میمن
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک عظیم مدبر اور انسانیت کے خدمت گار تھے،جنہوں نے دنیا بھر میں فلاح و بہبود کی بے شمار خدمات انجام دیں۔
شرجیل میمن نے اپنے بیان مین کہا کہ پرنس کریم آغا خان کی سماجی خدمات، انسانیت سے محبت اور تعلیم و فلاح و بہبود کے لیے کی گئی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں پیپلز پارٹی اور حکومت سندھ اسماعیلی کمیونٹی اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ برابر کی شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم پرنس کریم آغا خان کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل دے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پرنس کریم ا غا خان کی کی بصیرت اور سخاوت رہے گی
پڑھیں:
نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات
خاتم النبیین، رحمت اللعالمین، جناب رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت پر ایسا دور بھی آئے گا کہ انھیں پانچ چیزوں سے بڑی محبت ہوگی، لیکن پانچ چیزیں بھول جائیں گے۔ انھیں دنیا سے محبّت ہوگی اور آخرت کو بھول جائیں گے۔
اپنی عارضی اقامت گاہوں اور گھروں سے محبت کریں گے اور قبروں کو بھول جائیں گے، حالاں کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ مال و دولت پر فریفتہ ہوں گے مگر یہ بھول جائیں کہ انھیں اس کا حساب بھی دینا ہے، کہ مال کہا ں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا۔ اہل و عیال سے انھیں بڑا پیار ہوگا مگر جنت کے حور و غلمان کو بھول جائیں گے۔ اپنی ذات کی اُنھیں بہت چاہ ہوگی مگر اپنے اﷲ کو بھلا دیں گے۔ وہ مجھ سے بَری ہیں اور میں اُن سے بے زار۔
نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ( مفہوم) کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی بندے کو پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے تو ان کے ضمن میں پانچ نعمتیں مزید مرحمت فرماتا ہے۔ جیسے شکر گزاری بخشتا ہے تو اسے نعمتوں میں اور ترقی بھی بخشتا ہے۔ جسے اپنی بارگاہ میں دعا و عرضی حاجت کی توفیق دیتا ہے تو اس کی قبولیت کا سامان بھی مہیا فرما دیتا ہے۔ جسے استغفار اور طلب مغفرت کا شوق عنایت فرماتا ہے اور اس کی بخشش کا بھی انتظام فرما دیتا ہے، جسے توبہ و انابت الہی کا شوق دیتا ہے اسے قبولیت سے بھی مشرف فرما دیتا ہے اور جسے راہ خدا میں (خلوص قلب، صدق نیّت سے) صدقہ و خیرات کا جذبہ مرحمت فرماتا ہے تو اسے قبولیت سے بھی بہر مند فرما تا ہے۔
ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص پانچ لوگوں (میں کسی ایک) کی اہانت و تحقیر کرے گا وہ پانچ چیزوں میں نقصان اُٹھائے گا۔ جو شخص علمائے حق کو ذلیل و حقیر جانے گا وہ اپنے دین کا نقصان کرے گا۔ جو شخص امراء و حکام کی اہانت کرے گا وہ اپنی دنیا میں نقصان اُٹھائے گا۔ جو شخص اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں کو ذلت کی نگاہ سے دیکھے گا وہ (اُن) فائدوں سے نقصان میں رہے گا (جو پڑوسیوں سے حاصل ہوتے ہیں) اور جو شخص اپنے رشتہ داروں کی تحقیر کرے گا وہ اُلفت و محبت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا اور جو شخص اپنے اہل و عیال کو ذلیل و رسوا کرے گا وہ اپنی خاندانی زندگی سے فیض نہیں پاسکے گا۔
سیدنا صدیق اکبرؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ظلمتیں پانچ قسم کی ہیں اور ان ظلمتوں کو مٹا دینے والے چراغ بھی پانچ طرح کے ہیں۔ دنیا کی محبت میں ڈوب جانا ایک تاریکی ہے اور اس کا چراغ خدا ترسی اور پرہیز گاری ہے۔ نافرمانی و گناہ ایک تاریکی ہے اور اس کا چراغ خدا سے لو لگانا اور توبہ کرنا ہے۔ قبر بھی ایک ظلمت کدہ ہے، جہاں اندھیرا ہے اور اس میں روشنی کا سامان کلمہ طیبہ کا ورد ہے۔ آخرت کا گھر بھی تاریکیوں سے گھرا ہُوا ہے اور اس کا چراغ نیک اعمال ہیں۔ اور پل صراط بھی ایک مقام تاریک ہے جس کا چراغ حقانیت اسلام پر یقین کامل ہے۔
حضرت عبداﷲ بن العاصؓ کا قول ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ان کا عادی ہو جائے تو دنیا و آخرت دونوں میں نیک بخت بن جائے۔ وقتاً فوقتاً کلمہ طیبہ کا ورد کرتا رہے۔ کسی ناگہانی آفت میں مبتلا ہو جائے تو یہ کلمہ پڑھتا رہے: اِنا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ ’’ہم اور ہما را سب کچھ اﷲ کی ملک ہے اور ہمیں اسی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ اور، ولاحول ولاقوہ الا باﷲ العلی العظیم ۔ مفہوم: ’’اور نہیں ہے گناہ سے بچنے کی طاقت اور نہ نیکی کرنے کی قوت مگر اﷲ کی طرف سے ہے۔‘‘ جب کسی نعمت سے بہر ور ہوتو شکر بجا لائے اور الحمدﷲ پڑھے۔ جب کسی کام کا آغاز کرے تو بسم اﷲ پڑھا کر ے، اور جب برائی سرزد ہوجائے تو توبہ کرے اور زبان سے یہ کلمے ادا کرے: میں اﷲ سے بخشش چاہتا ہوں اور اس کی بار گاہ میں رجوع کرتا ہو ں۔
مسکینوں سے محبت کرنے والا جنّت میں نبی اکرم ﷺ کا ساتھی ہوگا۔اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خاندانوں میں پیدا کیا۔ اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے فرق رکھا۔ کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم۔ لیکن ربانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنا لیا، مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ منصب کے نشے میں مست لوگوں نے غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو ناصرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے چاروں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھی وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب و مفلس، مسکین و بے کس لوگ ناصرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور ان کا پرسان حال نہ تھا۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، خندقیں کھودیں، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، دو ماہ تک کاشانہ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا ہوتا ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکوکار کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔ (بخاری)
حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو نصیحت فرمائی کہ اے عائشہ! کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو۔ مزید یہ کے غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کیا کرو۔ بے شک! (اس کے صلے میں) اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت تمھیں اپنے قُرب سے نوازیں گے۔
مذکورہ بالا روایت ہمیں متوجہ کررہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طالبو! اس کے بندوں سے محبت کرو۔ اس کی مخلوق کی مدد کرو۔ اس کے دکھ اور پریشان حال لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرو۔ یہی مقصود عبادت ہے اور یہی منشاء دین ہے ۔ ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے باری تعالیٰ کو اس سے کئی گناہ زیادہ اپنی مخلوق سے محبت و شفقت ہوتی ہے۔ وہ ذات اسی سے زیادہ پیار کرے گی جو اس کے بندوں کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی اور غم خواری کرے گا۔ اس لیے تاج دار کائنات ﷺ نے انسانوں میں اُس شخص کو افضل و بہتر قرار دیا جو خالق کائنات کے بندوں کا زیادہ خیر خواہ اور نفع بخش ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
غریبوں کے والی، فقیروں کے غم گسار آقا کریم ﷺ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ مساکین کی عیادت فرماتے، فقراء کے پاس مجلس کرتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرماتے۔ تاج دار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اُس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا پڑا ہو۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ معلم انسانیت ﷺ ہمسایوں کا اس قدر خیال رکھنے کی تعلیم دی کہ کوئی بھوکا نہ سوئے لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے بے نیا ز اور لاپروا ہیں کہ ہمسائے کی بھو ک دور کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں سال ہا سال تک اتنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہمارے دائیں بائیں یا فلیٹس کی صورت میں اوپر نیچے کون رہتا ہے ؟ آج کے دور فتن اور مشینی دور نے دنیا کو تو ’’گلوبل ولیج‘‘ بنا دیا ہے لیکن پاس رہنے والوں سے غافل کردیا ہے۔ یہی تباہی و بربادی کا راستہ ہے جسے ہم نے ہر حال میں ترک کرنا ہوگا۔
اﷲ تعالی ہمیں اچھا مومن بنائے اور رسالت مآب ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اصول زندگی بنانے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین