بھارتی فلمساز اکاش دیپ صابر نے اداکارہ کرینہ کپور اور اداکار سیف علی خان کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اکاش دیپ صابر نے حال ہی میں سیف علی خان اور کرینہ کپور کے گھر پر ہونے والی چوری اور حملے پر طنزیہ ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

سیف علی خان پر حملے کے واقعے کے بعد ہدایتکار اکاش دیپ صابر اور ان کی اہلیہ شیبا نے کرینہ کپور اور سیف علی خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اکاش دیپ صابر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کرینہ کپور پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ اداکارہ کو دیگر اداکاراؤں کے مقابلے میں کم معاوضہ ملتا ہے، اسی لیے وہ گھر کے باہر ایک محافظ تک نہیں رکھ سکتیں۔

ہدایتکار نے مزید کہا کہ کرینہ کپور 21 کروڑ روپے کا معاوضہ لیتی ہیں، اگر انہیں 100 کروڑ روپے دیے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ رات کے اوقات میں سیکیورٹی گارڈ اور ڈرائیور کا بندوبست کر لیں۔

اکاش دیپ نے کہا کہ فنکار اور کاروباری شخصیات ہونے کے ناطے اس جوڑی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ حملے کے روز گھر کے باہر کوئی سیکیورٹی گارڈ موجود کیوں نہیں تھا؟

انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ وہ عمارت محفوظ تھی اور اس میں 30 سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے مگر سی سی ٹی وی کمیرے کیسے کسی چور کو روک سکتے ہیں؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرینہ کپور اور سیف علی خان کے پاس رات کو ڈرائیور بھی موجود نہیں تھا۔

اس دوران فلمساز کی اہلیہ شیبا نے کہا کہ زیادہ تر ممبئی کے گھروں میں رات کے وقت اسٹاف کے لیے جگہ نہیں ہوتی، اس لیے انتظامات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اکاش دیپ نے جوڑے پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ میڈیا اس معاملے کو بہت اہمیت دے رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ معاملہ کچھ نہیں ہے۔

دوسری جانب صارفین کا بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ کرینہ کپور اور سیف علی خان اتنے امیر ہوتے ہوئے بھی اپنی سیکیورٹی کا مناسب بندوبست کیوں نہیں کر سکے؟

یاد رہے کہ سیف علی خان پر 16 جنوری کی رات تقریباً 3 بجے حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے تھے۔

حملے کے فوری بعد انہیں ایک رکشہ کے ذریعے لیلاوتی اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کی ایمرجنسی میں سرجری کرنی پڑی تھی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کرینہ کپور اور سیف علی خان کرتے ہوئے کہا کہ

پڑھیں:

مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں منوج سنہا کی زیرقیادت ہندوتوا حکومت کی طرف سے اسلامی لٹریچر کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی۔ منوج سنہا کی زیر قیادت قابض انتظامیہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد سکولوں میں ہندوتوا نظریہ مسلط کرکے مقبوضہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنا ہے۔بھارتی پولیس نے سرینگر میں کتب فروشوں کیخلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 6 سوسے زائد دینی کتب ضبط کر لیں۔ ضبط شدہ تصانیف میں جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی اور تحریک آزاد ی کشمیر کے معروف قائد سید علی گیلانی شہید کی تصانیف شامل ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن روح اللہ مہدی نے بھی کتابوں کی ضبطی کو کھلا ریاستی جبر قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما التجا مفتی نے کہا کہ اب مقبوضہ جموں وکشمیرمیں معلومات تک رسائی کے بنیادی حق کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے بھارتی پولیس کی طرف سے اسلامی لٹریچر کے خلاف جاری کریک ڈائون کی مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے کہا کہ یہ اقدام ہندوتوا کی ذہنیت کا عکاس ہے جو مسلمانوں کی شناخت، تاریخ اور ثقافت کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے سکول بچوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کے لئے مجبور کرنے پر مودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حکم نامے کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعلیمی اداروں کے خلاف بی جے پی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔بی جے پی کی حکومت نے مقبوضہ علاقے کے تمام اسکولوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کا حکم دیا ہے تاکہ کشمیری مسلمان طلبا کو اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو ترک کرنے پر مجبورکیا جائے۔حریت ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد علاقے کی مسلم شناخت کو مٹانا اور مسلم اکثریت والے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہندوتوا نظریہ مسلط کرنا ہے۔
1937ء میں ہونیوالے انتخابات کے بعد کانگریس نے کئی صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کیں تو انہیں اپنے انتہاپسندانہ نظریات مسلمانوں پر مسلط کرنے کا موقع میسر آگیا، اسی تناظر میں ایک حکمنامہ کے تحت تمام سکولوں میں بندے ماترم گانا لازمی قرار دے دیا جس کی قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے شدید مزاحمت کی تھی۔ مسلمان اس فیصلہ کیخلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ بندے ماترم بت پرستی کا شاہکار اور مجموعی طور پر مسلمانوں کیخلاف اعلان جنگ ہے۔ ”بندے ماترم” ایک نفرت انگیز گیت ہے۔ اس کا پس منظر ایک ایسے ڈرامے سے جڑا ہوا ہے جس میں مرکزی نظریہ مسلمانوں کی مسجدوں کو برباد کرنا اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ یہ ان انتہا پسند ہندو تنظیموں کا نعرہ بھی رہاجو خانہ کعبہ پر قبضہ کر کے وہاں ”اوم” لکھنا چاہتے تھے۔ اس میں درگا دیوی کو ماں کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سرکاری سکولوں میں آٹھویں جماعت تک کشمیری زبان کی نصابی کتابوں کی جان بوجھ کر عدم دستیابی نے ماہرین تعلیم میں بڑے پیمانے پر تشویش کو جنم دیا ہے۔ معاملے کو کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کے مذموم بھارتی منصوبے کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔جاری تعلیمی سیشن میں طلباء کا کشمیری مضمون کا امتحان بھی لیا گیا لیکن اسکی کتابیں دستیاب نہیں ہیں جس کی وجہ سے ساتذہ اور طلبائ پرانے نوٹوں اور خود تیار کردہ اسباق پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔انسانی حقوق کے کارکن راسخ رسول بٹ نے اس صورتحال کو "انتہائی پریشان کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے محکمہ سکول ایجوکیشن اور بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی بے حسی کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری زبان ہماری شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔ماہرین تعلیم، والدین اور سول سوسائٹی کے اراکین نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندی اور سنسکرت کو فروغ دینا اور کشمیری زبان کی نصابی کتب سے طلباکو محروم کرنا علاقے کو اپنی تہذیب و ثقافت سے محروم کرنے کے نوآبادیاتی بھارتی ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے تعلیمی نظام میں کشمیری زبان اور شناخت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں 25 کتابوں پر حالیہ پابندی علاقے کی انتظامیہ کے اندر بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کو ظاہر کرتی ہے اور یہ پابندی مودی حکومت کے ترقی کے دعووں سے متصادم ہے۔بھارتی انگریزی روزنامے ” انڈین ایکسپریس ”نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ یہ پابندی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے حکم پر عائد کی گئی ہے اور پولیس نے کتب کی ضبطگی کے لیے بڑا کریک ڈاؤن کیا۔ اخبار نے لکھا کہ حکومت کشمیر میں امن کے دعوے کررہی تھی لیکن یہ اچانک کیا ہوا ہے کہ اسے کتابوں پر پابندی عائد کرنا پڑی، سینسر شپ اور جبر سے صرف اور صرف مایوسی اور عدم اعتماد بڑھتا ہے، کتابوں پر پابندی پریشان کن ہے۔ دفعہ 370کے خاتمے کے بعد تو علاقے میں امن و ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیںمگر پابندی ان دعوؤں کو جھٹلاتی ہے۔ دیرپا امن کے لیے تاریخ کے ساتھ جڑے رہنا ضروری ہے ، استحکام لانے اور مایوسی کو دور کرنے کا موثر ذریعہ جمہوریت کو مضبوط کرنا اور فیصلہ سازی میں لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ اگرچہ ادبی ذوق مختلف ہوتے ہیں لیکن لکھنے اور پڑھنے کا حق محفوظ رہنا چاہیے۔ کشمیر میں حقیقی پیش رفت جامع بات چیت اور انفرادی آزادیوں کے احترام کا تقاضا کرتی ہے، سینسر شب سے ہرگز کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس نے اسلامی اور تاریخی کتابوں کے خلاف کریک ڈائون پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کا مقصد کشمیریوں کو ان کی اسلامی شناخت سے دور کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • غلط بیانی قابل قبول نہیں، پاکستان نے استنبول مذاکرات سے متعلق افغان طالبان کا بیان مسترد کردیا
  • بالی ووڈ کے کپور خاندان پر ڈاکیومنٹری جلد نیٹ فلیکس پر ریلیز کی جائے گی
  • ایپل واچ کیلئے واٹس ایپ ورژن کی آزمائش
  • سابق بھارتی کرکٹر اظہر الدین تلنگانہ کے پہلے مسلم وزیر بن گئے
  • ملکی حالات اور عوام کی بہتری کیلئے دعاگو ہوں، ڈاکٹر طاہرالقادری
  • بھارت کے زیر قبضہ ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ گئیں
  • آزادکشمیر کی 78سالہ سیاسی تاریخ میں ایسے حالات کبھی بھی نہیں تھے ،جو پچھلے  ڈیڑھ سال میں خراب ہوئے ،سردارتنویر الیاس
  • سیاسی جماعتیں انتخابات کیلئے تیار نہیں تو الیکشن ملتوی کرا سکتا ہوں، چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان
  • پشاور: بی آر ٹی کے سیکورٹی گارڈ کو قتل کردیا گیا