کشمیر بنے گا پاکستان، کشمیر کی خاطر 3 جنگیں لڑی ہیں، 10 اور لڑنی پڑیں تو انشاء اللّٰہ لڑیں گے: آرمی چیف کا کشمیری عمائدین اور ویٹرنز سے اہم خطاب
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
مظفر آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے مظفرآباد, آزاد کشمیر دورے پر کشمیری عمائدین اور ویٹرنز سے اہم خطاب کیا ہے ۔ آرمی چیف نے خطاب میں کہا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان، کشمیر اور پاکستان کا رشتہ لازم و ملزوم ہے، کشمیر کل بھی اور آج بھی پاکستان کا حصہ تھا اور رہے گا۔آزادی کی شمع، کشمیریوں کی ایک پیڑھی دوسری پیڑھی کے حوالے کرتی چلی آ رہی ہے۔اگر ہم متحد اور مضبوط رہیں تو ہم ہر مشکل کا سامنا کر سکتے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کشمیر کی سر زمین کو قدرتی حسن اور وسائل سے نوازا ہے۔آج، کل یا پرسوں یا تھوڑے عرصے تک مقبوضہ کشمیر میں زیادتی کر سکتے ہو مگر ہمیشہ کے لئے نہیں۔کشمیر کا فیصلہ کشمیر کی عوام نے کرنا ہے، نہ کہ مقبوضہ کشمیر میں کِسی غاصب فوج نے۔کشمیر کی خاطر 3 جنگیں لڑی ہیں، 10 اور لڑنی پڑیں تو انشاء اللّٰہ لڑیں گے۔
5 اگست 2019 جیسے اقدامات سے کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا : شہباز شریف
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے قائداعظم محمد علی جناح کے اس فرمان کو دہرایا کہ "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے" اور کہا کہ شہ رگ کو جسم سے کاٹنے کا مطلب زندگی کا خاتمہ ہے.
دنیا کے 10 طاقتور ترین ممالک کی فہرست جاری، کونسا اسلامی ملک شامل؟
کشمیری معززین نے اپنے تاثرات میں کہا کہ پاک فوج نہ ہوتی، تو ہمارا حال فلسطین سے بھی بدتر ہوتا - پاک فوج اور کشمیری عوام کا اٹوٹ رشتہ ہے ۔آپ کے کشمیر آنے سے آر پار کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ہمارے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔جموں کشمیر کی عوام پاکستان کے ساتھ جڑی ہے اور جڑی رہے گی۔پاکستان سے بڑھ کر کشمیر کا کوئی ترجمان نہیں ہو سکتا۔
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟
انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن
سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن