امیتابھ بچن نے ابھیشیک کی سالگرہ پر نایاب تصویر شیئر کردی
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
بالی ووڈ کے لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن نے اپنے بیٹے ابھیشیک بچن کی 49ویں سالگرہ کے موقع پر 1976 کی ایک نایاب تصویر شیئر کی، جو ابھیشیک کی پیدائش کا سال تھا۔
یہ بلیک اینڈ وائٹ تصویر امیتابھ کے ذاتی بلاگ پر پوسٹ کی گئی، جس میں وہ پیدائشی وارڈ میں اپنے نومولود بیٹے پر محبت بھری نظر ڈال رہے ہیں۔
تصویر میں جوان امیتابھ بچن کو ایک سیدھے سادے سویٹر اور پینٹ میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ننھے ابھیشیک کی جانب جھک کر محبت بھری نگاہ ڈال رہے ہیں، جو ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اردگرد نرسیں موجود ہیں، جو اس لمحے کی اہمیت میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔
یہ تصویر اس دور کی عکاسی کرتی ہے جب امیتابھ سپر اسٹارڈم کی بلندیوں کی جانب بڑھ رہے تھے، اور ساتھ ہی یہ باپ کی بے پناہ محبت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
اپنے بلاگ میں امیتابھ بچن نے وقت کی تیزی سے گزرتی رفتار پر بھی تبصرہ کیا۔ انہوں نے لکھا: "آج رات دیر تک جاگنا ہوگا… ابھیشیک 49 سال کا ہو گیا، اور اس کا نیا سال شروع ہو چکا ہے… 5 فروری 1976… وقت کتنی تیزی سے گزر گیا…"
یہ الفاظ ایک باپ کی محبت اور جذبات کو ظاہر کرتے ہیں، جو تقریباً پانچ دہائیوں کے سفر کو یاد کر رہے ہیں۔
امیتابھ بچن نے آج کے ڈیجیٹل دور میں خیالات کے آزادانہ اظہار کی مشکلات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے لکھا: "کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ کچھ خیالات شیئر کیے جائیں، لیکن آج کے دور میں، جب ہر معلومات فوراً ہر جگہ پھیل جاتی ہے، تو کئی بار بات کا مطلب بدل کر پیش کیا جاتا ہے…"یہ الفاظ اس چیلنج کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا سامنا مشہور شخصیات کو اپنے جذبات کا صحیح پیغام پہنچانے میں کرنا پڑتا ہے۔
امیتابھ بچن کی یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جہاں مداحوں نے ابھیشیک بچن کو سالگرہ کی مبارکبادیں دینا شروع کر دیں۔ اس پوسٹ نے بچن فیملی کے ساتھ جذباتی وابستگی کو اور بھی مضبوط کر دیا، اور یہ تصویر باپ بیٹے کے خوبصورت رشتے کی علامت بن گئی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امیتابھ بچن نے
پڑھیں:
اسرائیل نے بربریت کی انتہا کردی؛ غزہ امدادی کشتی ضبط کرکے رضاکاروں کو یرغمال بنالیا
اسرائیلی فوج نے عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضا کار گریٹا تھنبرگ کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی کشتی کو غزہ جانے سے روک کر جبری طور پر تحویل میں لے لیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ کشتی اسرائیلی بحری ناکہ بندی کے خطرے کے باوجود غزہ کے بھوک سے موت کے منہ میں جاتے فلسطینیوں کے لیے امدادی اشیا لے کر جا رہی تھی۔ جس میں چاول اور بچوں کا فارمولا دودھ بھی شامل تھا۔
کشتی پر عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضاکار خاتون گریٹا تھنبرگ سمیت برازیل، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، اسپین، سویڈن اور ترکیہ کے شہری سوار تھے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ گریٹا اور دیگر افراد نے ایک ٹرک سے بھی کم امدادی سامان لے کر سستی شہرت کے لیے میڈیا پر ڈراما رچانے کی کوشش کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ حالانکہ اسرائیل نے صرف 2 ہفتوں میں 1,200 سے زائد امدادی ٹرک غزہ میں داخل کیے اور غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن نے تقریباً 1 کروڑ 10 لاکھ کھانے کے پیکیجز شہریوں تک پہنچائے ہیں۔
اسرائیلی وزرت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کو امداد پہنچانے کے کئی طریقے موجود ہیں لیکن ان میں انسٹاگرام سیلفیاں شامل نہیں ہیں۔
قبل ازیں اسرائیلی فوج نے میڈلین نامی امدادی کشتی کو کھلے سمندر میں روک کر نہ صرف ضبط کرلیا بلکہ 12 رضاکاروں کو بھی غیر قانونی طور پر تحویل میں لے لیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق "میڈلین" نامی امدادی کشتی کو رضاکاروں سمیت اب اشدود بندرگاہ لے جایا جا رہا ہے، جو غزہ سے تقریباً 27 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امدادی کشتی محفوظ طریقے سے اسرائیل کے ساحل کی جانب گامزن ہے اور اس کے تمام مسافروں کو جلد ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔
اس واقعے کی فوٹیج بھی جاری کی گئی ہے جس میں اسرائیلی فوجیوں کو کشتی پر موجود کارکنوں کو سینڈوچ اور پانی فراہم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ادھر فریڈم فلوٹیلا کولیشن (FFC) نے ٹیلیگرام پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ "میڈلین" سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ انہوں نے ایک تصویر بھی پوسٹ کی ہے جس میں کارکنوں کو لائف جیکٹس پہنے اور ہاتھ بلند کیے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے مطابق یہ پُرامن سول جہاز بین الاقوامی پانیوں میں سفر کر رہا تھا جس میں کسی کے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں تھا۔
انھوں نے اسرائیل کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی حقوق کے محافظوں پر تشدد اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف ہے کہ غزہ پر بحری ناکہ بندی کا مقصد حماس کے جنگجوؤں کو اسلحہ کی فراہمی روکنا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو "انتہائی افسوسناک انتخاب" کا سامنا ہے یا تو بھوک سے مر جائیں یا خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بنیں۔
اسرائیل نے حال ہی میں تین ماہ کی زمینی ناکہ بندی کے بعد غزہ میں محدود امداد کی اجازت دینا شروع کی ہے، تاہم یہ امداد اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن" کے ذریعے تقسیم کی جا رہی ہے، جس پر کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعتراض کیا ہے۔
یاد رہے کہ 2010 میں اسرائیلی کمانڈوز نے ترک جہاز "ماوی مرمارا" پر دھاوا بولتے ہوئے 10 ترک کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا، جو غزہ کی جانب امدادی سامان لے جا رہے تھے۔