عطا تارڑ بطور وزیر اطلاعات
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
پاکستان کی سیاست کا ایک المیہ یہ بھی بن گیا ہے کہ اب یہاں کارکردگی کے بجائے بیانیوں کی لڑائی رہ گئی ہے۔ حقائق کے بجائے پراپیگنڈے کی لڑائی بن گئی ہے۔ سچ کے بجائے جھوٹ کی طاقت کی لڑائی بن گئی ہے۔ خبر کے بجائے ٹرول کی لڑائی بن گئی ہے۔ پاکستان کی میڈیا وار پاکستان سے باہر چلی گئی ہے۔ باہر بیٹھے لوگ پاکستان کا میڈیا کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں حکومتی ترجمان اور وزارت اطلاعات ایک نہایت مشکل کام بن گئی ہے۔ یہ ماننا ہوگا کہ تحریک انصاف کے ٹرول اور بیانیوں کی جنگ نے میڈیا وار ہی بدل دی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کریں ۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے جب وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھالا تو یقیناً کوئی آئیڈیل صورتحال نہیں تھی۔ انھیں مختلف محاذوں پر میڈیا وار کا سامنا تھا۔ تحریک انصاف کے ان کے پیش رو ایسی روایات طے کر گئے تھے کہ کام بہت مشکل ہو گیا تھا۔ عطا تارڑ کے پاس کوئی ٹرول بریگیڈ نہیں تھی۔ ان کا وزیر اعظم جھوٹے بیانیوں کے ساتھ کام چلانے کے حق میں نہیں تھا۔ وہ جھوٹ بیچ نہیں سکتے تھے۔ ان کے ہاتھ کافی محاذوں پر بندھے ہوئے تھے۔
وہ نہ تو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کر سکتے تھے اور نہ ہی ان کو اپوزیشن کے خلاف وہ زبان استعمال کرنی تھی جو ان سے پہلے تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات استعمال کرتے رہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بانی تحریک انصاف کو وہی وزیر اطلاعات پسند تھا جو زیادہ بدتمیز ہو ۔ جو جتنی زیادہ گالی نکال سکتا تھا اتنا ہی اچھا وزیر اطلاعات تھا۔ لیکن عطا تارڑ کو تو گالی نکالنے کی بھی اجازت نہیں۔ اس لیے میری رائے میں ان کے لیے گالی نکالنا کافی مشکل تھا۔
شاید کسی کو یاد نہ ہو لیکن جب 2018میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تھی تو سب سے زیادہ برا وقت میڈیا پر ہی آیا تھا۔ ایک بیانیہ بنایا گیا کہ میڈیا کو اشتہارات جاری نہیں کیے جانے چاہیے۔ جس کی وجہ سے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز ڈاؤن سائزنگ کرنے پر مجبور کر دیے گئے‘ روزانہ کی بنیاد پر صحافی بے روز گار ہونے لگے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی جو بچ گئے ان کی تنخواہیں کم کرنا پڑ گئیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کئی بے روز گار صحافیوں نے بریانی کے اسٹال بھی لگائے تھے کہ ہم کیاکریں۔ ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اینکرز اور سنئیر صحافیوں کی تنخواہوں کے خلاف ایسے بیانیہ بنایا گیا جیسے یہ کوئی ڈکیتی کر رہے ہیں۔ ایسی پالیسی اور ایسے حربے اختیار کیے گئے کہ سب کی تنخواہیں کم ہو جائیں۔
اس کے جواب میں ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو مجھے کہیں کسی بھی جگہ ڈاؤن سائزنگ نظر نہیں آئی ہے۔ کسی ادارے نے بھی بڑی تعداد میں بیک جنبش قلم صحافیوں کو نوکریوں سے نہیں نکالا ہے۔ کئی اداروں کی مالی حالت بہتر ہوئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عطا تارڑ کے دور میں عام صحافی کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ میں مانتا ہوں صورتحال آئیڈیل نہیں ہے۔ لیکن اگر تحریک انصاف کے دور سے موازنہ کیا جائے تو صورتحال کافی بہتر ہے۔ مشکلات ہیں لیکن کم بھی ہوئی ہیں۔
عطا تارڑ نے کافی حد پاکستان کی سیاست سے گالم گلوچ کے کلچر کو بھی کم کیا ہے۔ انھوں نے گالم گلوچ کے بجائے دلیل سے بات کرنے کے ماحول کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب ٹاک شوز میں ویسے گالم گلوچ نظر نہیں آتی جیسے پہلے تھی۔ اب حکومتی وزرا اپوزیشن کو اپنی طاقت سے چپ کرواتے نظر نہیں آتے۔ لیکن پھر بھی حکومتی بیانیہ چل رہا ہے۔ عطا تارڑ نے ثابت کیا ہے بدتمیزی کے بغیر بھی بات منوائی جا سکتی ہے۔
لوگوں کو آج بھی دلیل سے قائل کیاجا سکتا ہے۔ہمیں اس تبدیلی کو سمجھنا اور اس کا احساس کرنا ہوگا۔ اگر ہم پاکستان میں مہذب سیاست چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی پذیرائی بھی کرنا ہوگا۔شاید آپ کو یاد ہو جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ایک حکومتی وزیر نے ایک ٹاک شو میں مسلم لیگ ن کی خاتون رہنما پر ایک بھارتی اداکارہ سے تشبیح دی تھی‘ ساتھی خاتون سیاستدان کو ایسا کہنا کوئی اچھی روایت نہیں تھی۔ لیکن حکومتی پالیسی یہی تھی کہ بس حملہ کر دو۔ عطا تارڑ نے آج تک کسی اپوزیشن کی خاتون رہنما کو ایسے ناموں سے نہیں پکارا۔ یہی فر ق ہے۔ عطا تارڑ نے اپنے ساتھ کوئی شہباز گل بھی نہیں رکھا ہوا۔ ورنہ حکومت کو تو ایک نہیں کئی شہباز گل مل سکتے ہیں۔
عطا تارڑ کا راستہ مشکل ضرور ہے۔ لیکن ایک سال میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ ان پر کس قدر دباؤ تھا کہ بس اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔ ایک گالی کے جواب میں دس گالیاں دی جائیں۔ ان پر بھی دباؤ تھا کہ ایک گالم گلوچ بریگیڈ بھرتی کر لیں۔ لوگوں کو گالم گلوچ پر لگا دیں۔ حکومتی وسائل سے یہ کوئی مشکل نہیں۔ آج بھی کے پی حکومت میں سیکڑوں لوگوں کو اسی کام کے لیے بھرتی کیاگیا ہوا ہے۔عطا تارڑ کے پاس یقیناً کے پی حکومت سے زیادہ وسائل ہیں لیکن انھوں نے یہ کام نہیں کیا ہے۔
عطا تارڑ حکومتی کارکردگی اور کام پر حکومتی بیانیہ بنا رہے ہیں۔ مشکل کام ہے، لمبا راستہ ہے لیکن صحیح راستہ ہے۔ وہ حکومت کے ترجمان کے طور پر حکومتی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر میڈیا ٹاک حکومتی کارکردگی پر ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کی بھی زیادہ تر گفتگو حکومتی کارکردگی پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے کام عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یقیناً اس راستے میں راتوں رات نتائج نہیں آتے۔ لیکن یہ دیرپا اور مثبت نتائج دیتا ہے۔ اس لیے ایک سال بعد یقیناً حکومتی کارکردگی کے بارے عام آدمی کی مثبت رائے سامنے ہے۔ عام آدمی کہہ رہا ہے کہ حکومت نے ایک سال میں کافی کام کیا ہے۔ مہنگائی کم ہوئی ہے۔ گالم گلوچ کے مقابلے میں کارکردگی کو بیچنا مشکل ہے۔ لیکن اصل کام یہی ہے۔
آپ کہیں گے کہ وہ تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہیں۔ تنقید سیاست کا بنیادی جزو ہے۔لیکن تنقید اخلاق کے دائرے میں ہونی چاہیے ۔ انھوں نے پاکستان میں اخلاق سے بات کرنے کا کلچر دوبارہ شروع کیا ہے۔اب اپوزیشن کو ویسے گالیاں نہیں دی جاتیں جیسے پہلے دی جاتی تھیں۔ یہ تبدیلی محسوس کرنی چاہیے۔ میری رائے میں عطا طارڑ کے لیے گالم گلوچ کا راستہ آسان راستہ تھا۔ لیکن انھوں نے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن ایک سال بعد اس کے کافی حد تک نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکومتی کارکردگی تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے استعمال کر کر رہے ہیں بن گئی ہے کی لڑائی انھوں نے کے بجائے ایک سال نہیں ا کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)