اسلام ٹائمز: صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کے حالیہ دورہ امریکہ میں غزہ کے فلسطینیوں کو جبری طور پر خطے کے دیگر ممالک نقل مکانی پر مجبور کر دینے کا عجیب موقف پیش کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے انسانی ہمدردی کے بیہودہ اظہار کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں یہ موقف پیش کیا۔ درحقیقت امریکی صدر فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے جبری طور پر جلاوطن کر کے صیہونی ریاست کی تشکیل کو قانونی حیثیت عطا کرنے کے درپے ہے جو 1948ء میں صیہونیوں کی فلسطین کی جانب مہاجرت کے نتیجے میں تشکیل پائی تھی۔ اسی طرح وہ فلسطین نامی مفہوم کو بھی صفحہ روزگار سے محو کر دینا چاہتا ہے۔ امریکی صدر نے دعوی کیا ہے کہ غزہ کے عوام وہاں رہنا پسند نہیں کرتے لہذا امریکہ عرب ممالک میں ان کے لیے ایک اچھی جگہ فراہم کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے یہ دعوی بھی کیا کہ وہ اس بارے میں اردن کے بادشاہ ملک عبداللہ اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے بات چیت بھی کر چکا ہے۔ تحریر: علی احمدی
بدھ 5 فروری 2025ء کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے واشنگٹن میں ملاقات کی۔ یہ 2024ء کے صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد امریکہ کے 47 ویں صدر کی صیہونی وزیراعظم سے پہلی ملاقات تھی۔ امریکہ میں نیتن یاہو کے حلقہ احباب اور ٹرمپ کے حامیوں میں چار سال بعد ایک بار پھر خصوصی تعلقات برقرار ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ کا داماد جرڈ کشنر، صیہونی رژیم کے سیاسی، اقتصادی اور فوجی اداروں سے گہرے تعلقات کا حامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خیانت آمیز ابراہیم معاہدے کا بانی جرد کشنر ہی ہے۔ ابراہیم معاہدہ، مشرق وسطی خطے میں امریکہ کے مطلوبہ سفارتی تجارتی بلاک کا سیاسی ونگ ہے۔ جرج بش کے دور میں نیو مڈل ایسٹ نامی منصوبے کی ناکامی کے بعد جب عراق اور افغانستان کے ساتھ ساتھ لبنان میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے تو مغربی پالیسی سازوں نے خطے کے رام کھلاڑیوں سے وہی اہداف حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔
مہم جوئی کا بھاری تاوان
براون یونیورسٹی کی جانب سے انجام پانے والی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2003ء سے 2020ء تک عراق جنگ پر امریکہ کے براہ راست اور بالواسطہ اخراجات تقریباً 2 کھرب ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ اسی طرح اس ملک میں امریکی فوج کے 4500 فوجی ہلاک جبکہ 32 ہزار زخمی بھی ہوئے۔ دوسری طرف 2001ء سے 2020ء تک افغانستان میں جنگ کے دوران بھی امریکی فوج کے تقریباً 2400 فوجی ہلاک اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے جبکہ افغانستان میں امریکہ کی لاحاصل فوجی موجودگی پر 2.
اس پالیسی کے تحت امریکہ نے ہر خطے میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے بالواسطہ مداخلت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مشرق وسطی خطے میں اس مقصد کے لیے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کا انتخاب کیا گیا ہے جو علاقے میں امریکی تھانیدار کا کردار ادا کرے گا۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ خلیجی عرب ریاستوں سے سیاسی اور اقتصادی تعلقات بڑھا کر ان سے مشترکہ مفادات پیدا کرے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے روز فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی جانب سے بے مثال طوفان الاقصی آپریشن نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے اس منصوبے کی بنیادیں متزلزل کر دی تھیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مشرق وسطی خطے میں امریکہ کے مطلوبہ بلاک نے "فلسطینی تشخص" نامی اہم عنصر کی اہمیت صحیح طور پر درک نہیں کی تھی۔ حماس کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے قیام نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کے پہلے مسئلے میں تبدیل کر دیا۔
فلسطین کے تشخص کے خلاف سازش
صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کے حالیہ دورہ امریکہ میں غزہ کے فلسطینیوں کو جبری طور پر خطے کے دیگر ممالک نقل مکانی پر مجبور کر دینے کا عجیب موقف پیش کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے انسانی ہمدردی کے بیہودہ اظہار کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں یہ موقف پیش کیا۔ درحقیقت امریکی صدر فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے جبری طور پر جلاوطن کر کے صیہونی ریاست کی تشکیل کو قانونی حیثیت عطا کرنے کے درپے ہے جو 1948ء میں صیہونیوں کی فلسطین کی جانب مہاجرت کے نتیجے میں تشکیل پائی تھی۔ اسی طرح وہ فلسطین نامی مفہوم کو بھی صفحہ روزگار سے محو کر دینا چاہتا ہے۔ امریکی صدر نے دعوی کیا ہے کہ غزہ کے عوام وہاں رہنا پسند نہیں کرتے لہذا امریکہ عرب ممالک میں ان کے لیے ایک اچھی جگہ فراہم کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے یہ دعوی بھی کیا کہ وہ اس بارے میں اردن کے بادشاہ ملک عبداللہ اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے بات چیت بھی کر چکا ہے۔
عالمی سطح پر ٹرمپ کی مخالفت
حماس کے ترجمان نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے اس منصوبے کو نسل پرستانہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ موقف تل ابیب کے انتہاپسند دھڑوں کی رائے کا عکاس ہے۔ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماوں نے بھی اسے نرم انداز میں فلسطینی قوم کا صفایا قرار دیا ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین، پی ایل او نے بھی، جس نے فلسطین اتھارٹی کا انتظام سنبھال رکھا ہے، ٹرمپ کے موہوم اظہار خیال کے بارے میں کہا: "غزہ، مغربی کنارے یا قدس شریف سے فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کرنے کا ہر منصوبہ شکست سے روبرو ہو گا اور فلسطینی قوم کی استقامت کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔" فتح آرگنائزیشن، جو صیہونی جاسوسی اداروں شاباک اور موساد سے تعاون کی وجہ سے منفور ہو چکا ہے نے اپنے بیانیے میں کہا: "فلسطینی قوم گذشتہ سو سال سے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور ہر گز اپنے جائز قومی حقوق سے چشم پوشی نہیں کرے گی۔"
صیہونی آبادکار فلسطینیوں کا قومی صفایا کرنے کے حامی
"یہودی عوام کا ادراہ سیاست" نامی تھنک ٹینک کی جانب سے انجام پانے والے سروے کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 80 فیصد صیہونی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کے حامی ہیں کہ غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کر کے ہمسایہ ممالک یعنی مصر اور اردن بھیج دیا جائے۔ جبکہ مقبوضہ فلسطین میں عرب صیہونی شہریوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ تمام صیہونی شہریوں میں سے 43 فیصد نے اس منصوبے کا "قابل عمل" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس پر جلد از جلد عملدرآمد کیا جائے جبکہ 30 فیصد صیہونی شہریوں نے اسے قومی صفایا قرار دیتے ہوئے "قابل قبول" سمجھا ہے۔ اس سروے میں شرکت کرنے والے صرف 13 فیصد صیہونی شہریوں نے جن میں 54 فیصد عرب نژاد اور 3 فیصد آبادکار تھے، نے اس منصوبے کو "شرمناک" قرار دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی وزیراعظم صیہونی شہریوں فلسطینیوں کو موقف پیش کیا نیتن یاہو کے امریکہ میں امریکی صدر امریکہ کے چاہتا ہے کی جانب نہیں کر دیا ہے غزہ کے کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔
دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔
حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔
جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔
ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔
لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔
امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟
کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔
ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔
امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔
سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔