امریکی صدر ٹرمپ نے عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کردیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ان لوگوں پر اقتصادی اور سفری پابندیوں کی اجازت دی ہے جو امریکی شہریوں یا اسرائیل جیسے اتحادیوں کے خلاف عالمی عدالت انصاف کی تحقیقات پر مامور ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس نوعیت کی کارروائی صدر ٹرمپ اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کرچکے ہیں، تاہم ان کا یہ حالیہ اقدام اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے واشنگٹن کے دورے کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے سابق وزیر دفاع اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے رہنما کے ساتھ غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف یعنی آئی سی سی کو مطلوب ہیں۔
یہ واضح نہیں تھا کہ امریکا کتنی جلدی ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کرے گا جن پر سفری پابندی عائد کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:
واضح رہے کہ 2020 میں صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے کے دوران، واشنگٹن نے اس وقت کی پروسیکیوٹر فاتو بینسودا اور ان کے ایک اعلیٰ معاون پر افغانستان میں امریکی فوجیوں کے مبینہ جنگی جرائم کی عالمی عدالت انصاف کی تحقیقات پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
امریکی صدر کے اس اقدام پر عالمی عدالت انصاف کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے، اعلان کردہ ان پابندیوں میں نامزد افراد کے کسی بھی امریکی اثاثے کو منجمد کرنا اور انہیں اور ان کے اہل خانہ کو امریکا آنے سے روکنا بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں:
125 رکنی عالمی عدالت انصاف ایک دائمی عدالت ہے، جو انفرادی اشخاص کے خلاف جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسل کشی اور رکن ممالک کی سرزمین یا ان کے شہریوں کے خلاف جارحیت کے جرم کا مقدمہ چلا سکتی ہے۔ امریکا، چین، روس اور اسرائیل اس کے رکن نہیں ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اس ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جو گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کے ڈیموکریٹس نے جنگی جرائم کی عدالت کو نشانہ بنانے والی پابندیوں کی حکومت قائم کرنے کے لیے قانون سازی کی ریپبلکن قیادت کی کوشش کو روک دیاتھا۔
مزید پڑھیں:
میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے عملے کو ممکنہ امریکی پابندیوں سے بچانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جس میں 3 ماہ قبل تنخواہوں کی ادائیگی بھی شامل ہے، کیونکہ امریکی مالی پابندیاں جنگی جرائم کے ٹریبونل کو معذور کر سکتی ہیں۔
گزشتہ برس دسمبر میں، عالمی عدالت اںصاف کے صدر جج ٹوموکو اکانے نے خبردار کیا تھا کہ پابندیاں تمام حالات اور مقدمات میں عدالتی کارروائیوں کو تیزی سے کمزور کرتے ہوئے اس کے وجود کو خطرے سے دوچار کردیں گی۔
مزید پڑھیں:
روس نے بھی عالمی فوجداری عدالت کو نشانہ بنایا ہے، جس نے 2023 میں صدر ولادیمیر پیوٹن کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا، جس میں ان کیخلاف یوکرین سے سینکڑوں بچوں کو غیر قانونی طور پر ملک بدر کرنے کے جنگی جرم کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
روس نے آئی سی سی کے چیف پروسیکیوٹر کریم خان کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں اور آئی سی سی کے 2 ججوں کو مطلوبہ فہرست میں شامل کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی وزیر اعظم امریکی اثاثے امریکی صدر جج ٹوموکو اکانے جنگی جرائم حماس سفری پابندی صدر ٹرمپ عالمی عدالت انصاف نسل کشی نیتن یاہو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیر اعظم امریکی اثاثے امریکی صدر جنگی جرائم سفری پابندی عالمی عدالت انصاف نیتن یاہو عالمی عدالت انصاف امریکی صدر جنگی جرائم مزید پڑھیں کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) ایک اہم پیش رفت میں امریکی قانون سازوں نے "پاکستان فریڈم اینڈ احتساب ایکٹ" کے نام سے ایک بل کو ایوان میں متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے ذمہ دار پاکستانی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔
اس بل کی حمایت ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے قانون ساز مشترکہ طور پر کر رہے ہیں، جس کا اعلان ایوان کی ذیلی کمیٹی برائے جنوبی اور وسطی ایشیا کے چیئرمین اور مشی گن سے ریپبلکن پارٹی کے قانون ساز بل ہیزینگا اور کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹ رہنما سڈنی کاملاگر-ڈوو نے مشترکہ پر کیا ہے۔
ایوان کے کئی دیگر نمائندوں نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔(جاری ہے)
فریڈم اینڈ اکاؤنٹیبلٹی بل گلوبل میگنیٹسکی ہیومن رائٹس احتساب ایکٹ کے تحت امریکی صدر کو پابندیاں لگانے کا اختیار دیتا ہے۔ اس کے تحت واشنگٹن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں یا بدعنوانی کے ذمہ دار افراد کو نشانہ بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس بل کا اطلاق پاکستان کی حکومت، فوج یا سکیورٹی فورسز کے موجودہ اور سابق اعلیٰ عہدیداروں پر ہو گا۔
یہ قانون پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے امریکی حمایت کی بھی تصدیق کرتا ہے اور جمہوری اداروں اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔
اس سے قبل جون 2024 میں انہیں امور کے حوالے سے ایوان نے ایک قرارداد 901 بھی منظور کی تھی، جس میں اس وقت کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اور اب اس سلسلے میں یہ بل متعارف کروایا گیا ہے۔اس قرارداد میں پاکستان میں جمہوریت کی مضبوط حمایت کا اظہار کیا گیا تھا اور امریکی انتظامیہ پر زور دیا گیا کہ وہ انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔
بل میں کیا ہے؟نئی قانون سازی پر بات کرتے ہوئے کانگریس کے نمائندے ہوزینگا نے کہا، "امریکہ خاموش نہیں بیٹھے گا، کیونکہ ایسے افراد جو اس وقت پاکستان کی حکومت، فوج، یا سکیورٹی فورسز میں خدمات انجام دے رہے ہیں یا پہلے خدمات انجام دے چکے ہیں، وہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں یا اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "پاکستان فریڈم اینڈ احتساب ایکٹ پاکستان کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ برے عناصر کو جوابدہ ٹھہرایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان میں نہ تو جمہوری عمل اور نہ ہی آزادی اظہار کو ختم کیا جائے گا۔"
کملاگر ڈوو نے زور دیا کہ "جمہوریت کو فروغ دینا اور انسانی حقوق کا تحفظ امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول ہیں اور امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت میں اس پہلو کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "جمہوری پسماندگی اور عالمی بدامنی کے وقت، امریکہ کو اندرون اور بیرون ملک ان اقدار کا دفاع کرنا چاہیے، اور ان کو نقصان پہنچانے والوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ مجھے پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو خطرے میں ڈالنے والوں کو سزا دینے کے لیے قانون سازی متعارف کرانے میں چیئر ہوزینگا کے ساتھ شامل ہونے پر فخر ہے۔
"ٹیکساس سے ڈیموکریٹ رہنما جولی جانسن نے مزید کہا، "آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو نقصان پہنچانے یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرا کر، ہم ایک مضبوط پیغام دیتے ہیں: جمہوریت پر حملہ کرنے والوں کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ عالمی سطح پر معافی نہیں پائیں گے۔"
پاکستانی امریکن کا اس بل میں اہم کردارامریکہ میں مقیم پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی کے سابق صدر اسد ملک کا کہنا ہے کہ "یہ قانون سازی پاکستانی عوام کو بااختیار بناتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوریت کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے گا اور انہیں مناسب نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
"فرسٹ پاکستان گلوبل کے ڈاکٹر ملک عثمان نے تارکین وطن کی کاوشوں کے وسیع تر اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، "یہ پاکستانی تارکین وطن کی کانگریس میں انتھک وکالت اور ہماری کمیونٹیز میں نچلی سطح پر متحرک ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ تاریخی بل حقیقی آزادی اور پاکستانی جمہوریت کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے ساتھ، حقوق کی آزادی کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔"
بل کو ایوان کی خارجہ امور اور عدلیہ کی دونوں کمیٹیوں کو نظرثانی کے لیے بھیجا گیا ہے۔