زرعی ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے جمع ہونے کی توقع،آمدن پر ٹیکس کا پلان آئی ایم ایف سے شیئر کردیا گیا، ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
زرعی ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے جمع ہونے کی توقع،آمدن پر ٹیکس کا پلان آئی ایم ایف سے شیئر کردیا گیا، ذرائع WhatsAppFacebookTwitter 0 7 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )زرعی ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے جمع ہونے کی توقع ہے۔ذرائع کے مطابق زرعی آمدن پر ٹیکس کا پلان آئی ایم ایف سے شیئر کردیا گیا ہے۔ زرعی انکم ٹیکس کا گوشوارہ 30 ستمبر 2025 میں شامل ہوگا۔ صوبائی محکمہ محصولات نے زرعی ٹیکس پر اہم سنگ میل عبور کیا ہے۔چاروں صوبوں میں زرعی آمدن پر ٹیکس کی قانون سازی مکمل ہوگئی ہے۔ آئندہ مالی سال کے آغاز سے زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ ہوگا۔ زرعی ٹیکس سے صوبے مالی طور پر خودمختار ہو سکیں گے۔ آئی ایم ایف کا وفد رواں ماہ کے آخر میں اقتصادی جائزے کے لیے پاکستان آئے گا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: آمدن پر ٹیکس آئی ایم ایف زرعی ٹیکس ٹیکس کی ٹیکس کا
پڑھیں:
سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا امکان
اسلام آباد/لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء)سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا امکان ہے،مجوزہ منی بجٹ لگژری گاڑیوں، سگریٹس اور الیکٹرانک سامان پر اضافی ٹیکس کی تجویز ہے، درآمدی اشیا ء پر جون میں کم کی گئی ریگولیٹری ڈیوٹی کے برابر لیوی لگائی جاسکتی ہے۔(جاری ہے)
نجی ٹی وی کے مطابق حکام ایف بی آر کے مطابق الیکٹرانکس اشیا ء پر 5 فیصد لیوی زیرغور ہے،قیمت کی حد طے ہونا باقی ہے، منی بجٹ میں 1800 سی سی اور اس سے زائد انجن والی لگژری گاڑیوں پر لیوی کی تجویز تاہم اضافی ٹیکس لگانے کیلئے آئی ایم ایف سے اجازت درکار ہوگی۔
مجوزہ منی بجٹ سے کم از کم 50 ارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف ہے۔سگریٹ کے ہر پیکٹ پر 50 روپے لیوی عائد کرنے کی بھی تجویز ہے۔ لیوی صوبوں کے ساتھ شیئر نہیں ہوگی، آمدن براہ راست مرکز کو ملے گی۔ایف بی آر کے مطابق اگست میں ٹیکس وصولی میں 50 ارب روپے شارٹ فال ہوا، اگست میں 951 ارب ہدف کے مقابلے 901 ارب روپے ٹیکس جمع ہوا، جولائی تا اگست ٹیکس ریونیو میں قریبا 40 ارب روپے کمی آئی۔رواں سال ٹیکس وصولی کا مجموعی ہدف 14 ہزار 131 ارب روپے مقرر ہے تاہم سیلاب، بجلی و گیس کا کم استعمال اور کاروباری سرگرمیوں میں سستی کی وجہ سے ایف بی آر کو ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔