اسلام آباد:ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے رہا کرانے اور انہیں وطن واپس لانے کے حوالے سے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو تفصیلی طریقہ کار سے آگاہ کر دیا۔ عدالت نے اس معاملے پر وفاقی حکومت سے 21 فروری تک جواب طلب کر لیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ نے عدالت میں ایک نیا ڈیکلیریشن پیش کیا، جس میں بتایا گیا کہ اگر پاکستان شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرے تو اس کے بدلے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

عدالت نے وفاقی حکومت سے سوال کیا کہ شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے اور ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے کے بارے میں حکومت کا کیا موقف ہے؟ عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ وزیراعظم پاکستان کے سابق امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط کا کیا جواب ملا ہے اور وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں۔

عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ کلائیو اسمتھ کے ڈیکلیریشن میں اٹھائے گئے تمام سوالات کا جواب دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے وفاقی حکومت سے 21 فروری تک جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جاری کوششوں کا ایک اہم موڑ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ، جو کئی برس سے امریکی قید میں ہیں، کی وطن واپسی کے لیے ان کے خاندان اور وکلا مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔ عدالت کے سامنے پیش کیے گئے نئے طریقہ کار کے بعد اب حکومت پاکستان کے اقدامات پر سب کی نظر ہوگی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے عدالت نے

پڑھیں:

کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟

جب سےڈونلڈ ٹرمپ امریکا کےصدر بنے ہیں، انہوں نے غالباً یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ کوئی دن چین وسکون سےخود گزارنا ہے نہ کسی اور کو گزارنے دینا ہے۔ پہلے کینیڈا کو کہا کہ امریکا کا صوبہ بن جاو، گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دے کر ڈنمارک اور پورے یورپ کو پریشان کردیا۔

یوکرائن کے معاملے پر اچھا خاصا بڑا یوٹرن لے کر یورپی ممالک کو ہکابکا کردیا۔ چین کے ساتھ تو ٹیرف کے معاملے پر آمنے سامنے کی جنگ والی کیفیت پیدا کردی گئی۔ ایپل اور دیگر بڑی کمپنیوں کو باقاعدہ دھمکیاں دے کر امریکا میں انویسٹمنٹ کے لیے کہنا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

ابتدا ہی میں صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو ڈوج نامی محکمے کا سربراہ بنایا تاکہ اخراجات کم ہوں۔ مسک نے ہزاروں لوگ فارغ کرائے، کئی محمکے بیک جنبش قلم بند کرا دیے۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی حکومتی اخراجات میں برائے نام ہی کمی ہوئی۔ پھر اسی ایلون مسک کے ساتھ ٹرمپ نے جنگ چھیڑدی۔

اب اچانک صدر ٹرمپ نے امریکا کی سب سے خوشحال ریاست کیلی فورنیا میں ایسی زبردست مداخلت کی باقاعدہ خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے لاس اینجلس اور کیلی فورنیا کے دیگر شہروں میں ہنگامے ہو رہے ہیں، گاڑیاں جلائی گئی ہیں اور معاملہ کرفیو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ امریکی نیشنل گارڈز(ریزرو آرمی)سڑکوں پر تعینات ہوچکی ہے وہ بھی منتخب ریاستی گورنر کی مرضی کے خلاف۔

یوں ایک ایسی ہنگامی صورتحال بن چکی ہے جو اگر بدترین شکل اختیار کرگئی تو امریکی تاریخ میں شاید پہلی بار مارشل لا یا مِنی مارشل لا کی سی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس پوری صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، مگر پہلے تھوڑا کیلی فورنیا ریاست کے بارے میں جان لیتے ہیں۔

کیلی فورنیا اور اس کی اہمیت

کیلی فورنیا امریکا کی آبادی اور اکانومی کےاعتبار سے سب سے بڑی ریاست ہے۔ 2020 کی مردم شماری کے مطابق، کیلیفورنیا کی آبادی تقریباً 39.5 ملین (4کروڑ کے لگ بھگ) ہے۔

اکانومی کے اعتبار سے بھی کیلیفورنیا امریکا کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کی اکانومی دنیا کی چند سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے اور اگر کیلیفورنیا کو ایک الگ ملک تصور کیا جائے تو یہ دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ کیلیفورنیا کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکنالوجی، تفریح، زراعت، اور سیاحت سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا مجموعی جی ڈی پی (GDP) دنیا کے بڑے اور خوشحال طاقتور ممالک کے مساوی ہے، جیسے فرانس یا برطانیہ۔

کیلی فورنیا کے بڑے اور نمایاں شہروں میں لاس اینجلس، سان ڈیاگو اور سان فرانسسکو وغیرہ شامل ہیں۔ لاس اینجلس میں ہالی وڈ ہے، دنیا کی سب سےبڑی فلم انڈسٹری اور ٹی وی ڈرامے کا مرکز، سان فرانسسکو کے قریب سیلیکون ویلی دنیا کا سب سے بڑا ٹیکنالوجی ہب ہے، جہاں گوگل، ایپل، فیس بک جیسی عالمی کمپنیاں قائم ہیں۔ سان فرانسسکو کی مالی مارکیٹس اور وال اسٹریٹ کا مضبوط تعلق ہے۔

کیلیفورنیا امریکا کی سب سے بڑی زرعی پیداوار فراہم کرنے والی ریاست ہے۔ یہاں کی زرعی صنعت دنیا بھر میں مشہور ہے، خاص طور پر سبزیوں، میٹھے پھلوں، بادام وغیرہ کی پیداوار۔ یہاں بے تہاشا اورنج فارمز ہیں اور اورنج جوس بنانے کی عالمی شہرت یافتہ کمپنیاں۔

کیلی فورنیا کی ایک اور سیاسی اہمیت یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے لوئر ہاوس میں سب سے زیادہ نشستیں یہاں سے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کیلی فورنیا ہمیشہ سے ڈیموکریٹ پارٹی کا مضبوط علاقہ رہا ۔ یہاں سے اکثر ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جیتتے اور ریپلکن ہار جاتے ہیں۔

صدر ٹرمپ دو ہزار سولہ اور دو ہزار بیس میں بھی یہاں سے ہار گئے تھے اور پچھلے سال نومبر کے صدارتی انتخابات میں بھی انہیں شکست فاش ہوئی ۔ ٹرمپ کے مقابلے میں کاملا ہیرس نے بڑی واضح اکثریت سےجیت حاصل کی اور اٹھاون فیصد کے قریب ووٹ لیے، ٹرمپ کا ووٹ اڑتیس فیصد کے قریب رہا۔

جبکہ جو بائیڈن نے توکیلی فورنیا سے ٹرمپ کے مقابلے میں 63فیصد کے لگ بھگ ووٹ لیے تھے۔اس سے پہلے ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن سے کیلی فورنیا میں شکست کھائی تھی۔ یعنی یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کو پسند نہیں کرتی۔

کیلی فورنیا کی سیاست، معیشت اور ثقافت پر ڈیموکریٹک پارٹی کا غلبہ اور گہرا اثر ہے۔ لاس اینجلس کی خاتون میئر بھی ڈیموکریٹک پارٹی کی ہے اور کیلی فورنیا کے منتخب گورنر گیون نیوسم (Gavin Newsom)کا تعلق بھی صدر ٹرمپ کی حریف ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔

کیلی فورنیا میں احتجاج اور ہنگامے کیوں شروع ہوئے؟

حالیہ ہنگاموں کی سب سے بڑی وجہ آئس (ٰice) ہے۔ یہ امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ کا مخفف ہے۔ یہ فیڈرل لاانفورسمنٹ ایجنسی ہے جو یوایس ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے انڈر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ فیڈرل حکومت یعنی صدر امریکا کے ماتحت آتا ہے۔ آئی سی ای (ICE) کا ڈائریکٹر صدر امریکا کا نامزد کردہ ہے جسے سینیٹ سےمنظوری لینا پڑتی ہے، تاہم اس وقت سینیٹ اور صدر دونوں ایک ہی جماعت ری پبلکن کے ہیں تو یہ منظوری اب فارمیلیٹی بن کر رہ گئی ہے۔

صدر ٹرمپ نے کچھ عرصے سے امریکا میں موجود تارکین وطن کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ آئی سی ای کے اہلکار مختلف شہروں میں ریڈ کرکے دھڑا دھڑ تارکین وطن ایشیائی، لاطینی امریکی اور ہسپانوی نژاد لوگوں کو پکڑ پکڑ کر ڈی پورٹ کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیےاب وہ مختلف تجارتی مراکز، دفاتر، فیکٹریوں وغیرہ پر بھی چھاپے مار رہے ہیں۔

جہاں عام طور سے تارکین وطن چھوٹی موٹی جاب کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت اہلکار ضرورت سے زیادہ سختی سے کام لے رہے ہیں، جن کے کاغذات ہیں مگر چھوٹا موٹا قانونی سقم ہے، انہیں بھی پکڑ دھکڑ میں لایا گیا، رویہ بڑا درشت ہے اور اس حوالے سے معمولی سا احتجاج بھی نہیں برداشت کیا جارہا۔ کئی جگہوں پر لیبر یونین کے رہنمائوں نے اس جارحانہ اور سخت رویہ کے خلاف پرامن احتجاج کی کوشش کی تو انہیں بھی زمین پر گرا کر ہتھکڑیاں لگا کر حراستی مراکز میں قید کر دیا گیا۔

امریکا میں یہ سب پہلی بار ہو رہا ہے۔ کئی عشروں سے امریکا میں ایسا نہیں ہوا۔ ایسے رویے کے عام امریکی بھی عادی نہیں۔ وہاں تارکین وطن اکثر تب ہی گرفت میں آتے جب وہ مقامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے تھے، ورنہ راہ چلتے کسی فرد سے کبھی کسی حکومتی اہلکار نے کاغذات دکھانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ اس قدر جارحانہ رویہ کی وجہ سے لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ تارکین وطن بھی پروٹیسٹ کر رہے ہیں جبکہ عام امریکی، سول سوسائٹی تنظیمیں بھی ان کے ساتھ احتجاج میں شامل ہیں۔

اس احتجاج کےدوران اکا دکا پرتشدد واقعہ بھی ہوا، مگر مقامی پولیس اور کیلی فورنیا کی ریاستی انتظامیہ ان چیزوں کو ڈیل کر رہی تھی، وہ سلیقے سے ان معاملات سے نمٹنا چاہتے تھے۔

کیلی فورنیا میں نیشنل گارڈز کی آمد

اچانک ہی کیلی فورنیا پر ایک بڑا بم شیل گرا جب صدر ٹرمپ نے بغیر سوچے سمجھے دو ہزار امریکی نیشنل گارڈز (ریزرو آرمی) کو کیلی فورنیا میں تعینات کردیا کہ مظاہرین بغاوت پر اتر آئے ہیں، ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ امریکی پس منظر میں کسی ریاست یعنی صوبے میں فوج کا تعینات ہونا بہت بڑی اور حیران کن بات ہے۔

ایسا امریکی ماڈرن تاریخ میں بہت کم ہوا۔ پچاس باون سال قبل صدر نکسن نے نیشنل گارڈز کو ڈاک تقسیم کرنے کی ڈیوٹی دی تھی کہ شہروں میں ڈاک تقسیم کی جائے کیونکہ تب پوسٹل سروس والے ایک بڑی ہڑتال پر چلے گئے تھے اور کئی دن گزر جانے سے لوگوں کی اہم ذاتی اور دفتری خط کتابت رک گئی تھی۔ تاہم تب بھی مختلف ریاستوں کے منتخب گورنروں کی منظوری اور مشاورت سے ایسا کیا گیا۔

صدر ٹرمپ نے کیا غلطی کی؟

صدر ٹرمپ نے دو غلط کام کیے، ایک تو نیشنل گارڈز کو کیلی فورنیا جیسی ریاست میں تعینات کردیا۔ اوپر سے وہ اشارہ دے رہے ہیں کہ امریکی میرین فوجی بھی بھیج دیں گے۔ دوسرا وہ کیلی فورنیا کے منتخب گورنر گیون نیوسیم کو گرفتار کرنے کی بھی دھمکی دے چکے ہیں۔ یہ بذات خود ایک بہت بڑی اور ماورائے قانون دھمکی ہے۔ کسی منتخب گورنر کو کبھی کسی امریکی صدر نے گرفتار کرنے کی بات نہیں کہی۔ لاس اینجلس کی سیاہ فام میئر کیرن بیس کو بھی گرفتار کرنے کی دھمکی دی جا چکی ہے۔

اس سب کی شدید مذمت ہو رہی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ کانگریس میں مختلف ڈیمو کریٹک ارکان اسمبلی نے کھل کر صدر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کیلی فورنیا کےگورنر نے صدر کے خلاف عدالت میں جانےکا اعلان کیا ہے۔ کیلی فورنیا کےاٹارنی جنرل نے صدر ٹرمپ اور فیڈرل حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئےکہا ہے کہ انہیں کوئی اختیار نہیں کہ وہ منتخب ریاستی گورنر کو گرفتار کرسکیں۔ گورنر نیوسیم کا کہنا ہے کہ یہ میری ذات کا معاملہ نہیں، اصل مسئلہ ہے کہ صدر ٹرمپ مطلق العنانیت کی راہ پر چل نکلے ہیں، انہیں جمہوری روایات، قانون کا کوئی احترام نہیں۔

ریٹائر فوجیوں کی طرف سے ردعمل

امریکا میں ایک بڑا حلقہ نیشنل گارڈز کی تعیناتی کی اس لیے مخالفت کر رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایک انتہائی متنازع سیاسی ایشو میں ریزرو فوجیوں کو انوالو کر دیا ہے جس میں ریاستی گورنر اور انتظامیہ بھی مخالف ہے۔ لوگ اسےفوج کوسیاست میں آلودہ کرنے کے مترادف قرار دےرہے ہیں۔ معروف برطانوی اخبار گارڈین نے چند ریٹائرڈ امریکی جرنیلوں سے بات کرکے ان کے تحفظات ایک رپورٹ میں بیان کیے ہیں، ان سینئر ریٹائرڈ امریکی جنرلز کو لگتا ہے کہ اس سے امریکی آرمی پولیٹیسائز ہوگی ۔ ان کا کہنا ہے کہ نیشنل گارڈز یا میرین فوجیوں کو سیاسی مظاہروں کےخلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کام مقامی پولیس، انتظامیہ اور ریاستی گورنر کے مشاورت سےہونا چاہیے۔

دوسری طرف ری پبلکن پارٹی صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ کئی ری پبلکن ارکان نے کھل کر ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کےاقدامات کی حمایت کی ہے۔ تاہم امریکا میں بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر ٹکرائو مزید بڑھا اور صدرٹرمپ نے میرین فوجی تعینات کر دیے، کیلی فورنیا کےگورنرکو گرفتار کرنا پڑا اور مظاہرین کےخلاف زیادہ سخت ایکشن ہوا تو معاملہ اتنا بگڑ نہ جائے کہ بعض امریکی ریاستوں اور شہروں میں مارشل لا یا مِنی مارشل لا لگانا پڑے۔

اگر ایسا ہوا تو یہ امریکی جمہوری ، قانونی روایات کےلیے نہایت تباہ کن ہوگا۔ تاہم صدر ٹرمپ ان سب چیزوں سے بے نیاز ہیں۔ ان کا طرز گورننس سب سے مختلف اور جدا ہے۔ وہ اپنے احکامات پر ہر حال میں عمل درآمد چاہتے ہیں بےشک اس سے کچھ روایات اور قوانین مسمار ہوتے ہیں تو ہوجائیں۔ دیکھیں ٹرمپ کے امریکا میں ہمیں اور کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

امریکا ایلون مسک ڈونلڈ ٹرمپ کیلی فورنیا مارشل لا

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ پنجاب سے امریکی ناظم الامور اور قونصل جنرل کی ملاقات
  • لوڈشیڈنگ ‘عدالت کی کے الیکٹرک کو جواب جمع کرانے کی مہلت
  • کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟
  • ڈاکٹر فوزیہ نے ڈاکٹر عافیہ کی طرف سے قربانی کا فریضہ ادا کیا
  • مستقل طور پر بھارت منتقل ہونے والا سکھر کا جوڑا قتل، بھارتی حکومت سے لاشیں حوالے کرنے کا مطالبہ
  • ’مناسب طریقے سے گوشت کو ذخیرہ کرکے صحت مند اور غذائیت سے بھرپور رکھا جا سکتا ہے‘
  • امریکا میں پاکستانی تاجر کو منشیات اسمگلنگ پر 16 سال قید کی سزا
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • شیخ محمد العیسی کی پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی