ملک بھر میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد 16 ویں قومی اسمبلی کی تشکیل ہوئی، جس کے بعد مارچ 2024 میں سینیٹ کے انتخابات کا بھی انعقاد ہو گیا تھا، عام انتخابات میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی تھی، پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل نے سب سے زیادہ 82، مسلم لیگ ن نے 75، پیپلز پارٹی نے 54 جبکہ ایم کیو ایم نے 17 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن 2024: فافن کی تہلکہ خیز رپورٹ منظر عام پر آگئی

کسی بڑی جماعت کو اکثریت میں نشستیں نہ ملنے کی وجہ سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور بلوچستان کی کچھ پارٹیوں نے مل کر حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا، قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 29 فروری 2024 کو منعقد ہوا، پہلے اسپیکر، پھر ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا عمل ہوا اور پھر قومی اسمبلی نے اپنا قائد ایوان یعنی وزیراعظم پاکستان کا انتخاب کیا اور 3 مارچ 2024 کو شہباز شریف پاکستان کے 24ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

عام انتخابات کے بعد پہلے سال میں قومی اسمبلی کے مجموعی طور پر 12 اجلاس طلب کیے گئے، قومی اسمبلی نے سب سے اہم 26 ویں آئینی ترمیم منظور کی جبکہ اس کے علاوہ 60 سے زائد بل اور 38 ایکٹ بھی منظور کیے گئے، اس سال سینیٹ کے 10 اجلاس طلب کیے گئے جن میں 26ویں آئینی ترمیم کے علاوہ 55 بل منظور کیے گئے۔

مخصوص نشستوں کی تقسیم نہ ہوسکی

عام انتخابات کے بعد سب سے اہم مرحلہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا تھا، سنی اتحاد کونسل یعنی کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ بھی گئی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا، معاملہ سپریم کورٹ گیا،فیصلہ بھی آیا لیکن ایک سال گزرنے کے بعد اب تک بھی قومی اسمبلی کی 23 مخصوص نشستیں کسی بھی جماعت کو دینے کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔

پی ٹی آئی کے احتجاج اور فائنل کال

بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں، جن کی رہائی کے لیے پی ٹی ائی نے گزشتہ سال میں مختلف اوقات میں اسلام اباد کا رخ کیا اور  احتجاج اور دھرنوں کا اعلان کیا تاہم یہ عمل عمران خان کو رہائی نہ دلا سکا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، فیصل واوڈا کا دعویٰ

 24 نومبر کو عمران خان کی رہائی کے لیے ایک فائنل کال دی گئی، پہلی مرتبہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ہمراہ اسلام آباد آنے والے قافلے میں شریک تھیں، قافلہ 2 دن تک مختلف مقامات پر رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے اسلام آباد داخل ہوا اور 26 نومبر کو پی ٹی آئی کارکنان نے ڈی چوک کا قبضہ بھی حاصل کر لیا۔ تاہم بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور ڈی چوک سے صرف چند میٹرز کے فاصلے پر کھڑے رہے بعد ازاں پولیس اور رینجرز کی جانب سے شیلنگ اور اپریشن کے بعد ڈی چوک کو خالی کرا دیا گیا اور علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی دھرنے کے مقام سے خیبرپختونخوا فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس سے پہلے بھی علی امین گنڈاپور اسلام آباد پہنچ کر خیبرپختونخوا ہائوس میں چھپ گئے تھے اور بعد ازاں وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات

پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات کے فوری بعد سے اس حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور کسی بھی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا، حکومت بھی ملاقات میں سنجیدہ نہ تھی، وزیراعظم شہباز شریف نے 22 دسمبر کو پی ٹی ائی سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے خود اپنی سربراہی میں کمیٹی کے اجلاس طلب کیے اور مذاکرات کے دور کو اگے بڑھایا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دے دی

 پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی کے طلب کرنے کے باوجود اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش نہ کیے، کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 8 فروری کے معاملات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا جس پر حکومتی کمیٹی نے 7 روز کا وقت مانگا، تاہم چند دن گزرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی نے مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا اور کہا کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں ہوجاتی ہم مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔

 اس طرح مذاکراتی کمیٹی کا بھی اجلاس ہوا اور پی ٹی آئی کی عدم شرکت کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ اب مذاکرات کو بڑھانے کے کوئی مقصد نہیں ہے، البتہ یہ کمیٹی اور میرا آفس اپوزیشن کے لیے ہر وقت دستیاب ہے۔

قومی اسمبلی کے پہلے سال میں بہت سی اہم قانون سازی کی گئی۔

ٹیکس قوانین ترمیمی بل

قومی اسمبلی نے 29 اپریل کو ٹیکس قوانین ترمیمی بل منظور کیا تھا جس کا ہدف ملک بھر میں ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہے، اس بل میں نان فائلرز پر بہت سی پابندیاں لگی تھیں جبکہ سیلز ٹیکس جمع نہ کروانے والے دکانداروں، صنعتکاروں اور تاجروں کے لیے بھی سختیاں بڑھائی گئیں۔

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل

قومی اسمبلی اور سینیٹ نے 6 اگست کو اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے دوران کثرت رائے سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کیا تھا، یہ بل انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس کے ذریعے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ ہونا تھا۔ اس بل میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا اور کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت آصف زرداری نے الیکشن ترمیمی بل 2024 کی منظوری دیدی

بل میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی فہرست مقررہ وقت یعنی 3 روز میں جمع نہیں کراتی تو وہ پارٹی بعد میں مخصوص نشستوں کے کوٹے کی اہل نہیں ہوگی، اس کے علاوہ اگر ایک آزاد رکن ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو وہ کسی اور جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا۔

26ویں آئینی ترمیم

حکومت اور اتحادیوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے کئی ماہ کوششیں کیں تاہم وہ منظور نہیں ہو پا رہی تھی جس کے بعد 20 اکتوبر کو اتحادیوں اور مولانا فضل الرحمان سمیت اپوزیشن کے کچھ اراکین کی حمایت سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کر لی گئی اور آئینی بینچ کا قیام بھی عمل میں آیا۔

 اس ترمیم میں جے یو آئی کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم میں کہا گیا تھا کہ سود کو جنوری 2028 تک ملک سے مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا۔

آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی گئی اور قرار دیا گیا کہ سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے 4 سینیئر ججز اور اتنے ہی اراکین پارلیمنٹ بھی ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی سے بھی 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور

اس کے علاوہ چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے 3 نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور کمیٹی ایک کو چیف جسٹس لگانے کی سفارش کرے گی۔

آئینی ترمیم میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی مدت کو 3 سال کر دیا گیا، ترمیم میں از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق قانون میں ترمیم کی گئی ہے اور قرار دیا گیا کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی ازخود نوٹس لے سکتی ہے اور نہ کسی ادارے کو کوئی ہدایت دے سکتی ہے۔

فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال

قومی اسمبلی نے 5 نومبر کو فوجی سربراہان کی مدت ملازمت بڑھانے کا بل منظور کیا جس کے بعد اب آرمی چیف سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت کو 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردیا گیا ہے۔ اسی روز سپریم کورٹ کے ججوں کے تعداد کو 17 سے بڑھا کر 34 اور ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد کو 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کا بل بھی منظور کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

26 نومبر 8 فروری we news آئینی ترمیم انتخابات پاکستان پی ٹی آئی پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات عمران خان قومی اسمبلی مخصوص نشستیں مذاکرات مسلم لیگ ن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انتخابات پاکستان پی ٹی ا ئی پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات قومی اسمبلی مخصوص نشستیں مذاکرات مسلم لیگ ن پاکستان تحریک انصاف عام انتخابات کے ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی نے مخصوص نشستیں مخصوص نشستوں سیاسی جماعت سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی منظور کیا جس کے بعد علی امین منظور کی کے علاوہ چیف جسٹس مسلم لیگ کیے گئے دیا گیا کورٹ کے کسی بھی نہیں ہو نے والے کی مدت کی گئی گیا کہ کے لیے

پڑھیں:

عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں

اسلام ٹائمز: عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔ تحریر: سید انجم رضا

عراق مشرقِ وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو اپنے تاریخی ورثے، مذہبی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لے کر جدید دور تک، یہ خطہ تہذیبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اہلِ تشیع کے لیے عراق ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں نجفِ اشرف، کربلا، کاظمین اور سامرہ جیسے روحانی مراکز واقع ہیں۔

داعش کے خلاف عراقی عوام کی جدوجہد
گذشتہ دہائی میں عراق کو "داعش" جیسے دہشت گرد گروہ کے فتنے کا سامنا رہا۔ اس دوران عراقی عوام نے بے مثال قربانیاں دے کر اپنی زمین کو دہشت گردی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس جنگ نے نہ صرف عراق کی داخلی مزاحمت کو مستحکم کیا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی۔ "الحشد الشعبی" (عوامی مزاحمتی فورسز) کی شمولیت اور پارلیمان کی طرف سے انہیں باضابطہ طور پر ریاستی ڈھانچے میں شامل کرنا عراقی خودمختاری کی ایک اہم پیش رفت قرار دی جاتی ہے۔

مقاومت کا نظریہ اور خطے کی سیاست
عراق میں مزاحمت کا نظریہ محض عسکری نہیں بلکہ فکری و سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ یہ تصور خطے میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور پر امریکی اثر و نفوذ کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا۔ صدام ملعون کے سقوط کے بعد اگرچہ امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، مگر عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے ہمیشہ بیرونی تسلط کو چیلنج کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر کی بغداد کے ہوائی اڈے پر شہادت نے عراقی خود مختاری کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا اور عوامی مزاحمت کو نیا جوش بخشا۔

غزہ و فلسطین کے مسئلے پر عراقی موقف
"طوفان الاقصیٰ" کے بعد جب خطے میں کشیدگی بڑھی تو عراق نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عراقی حکومت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور غزہ کے عوام کی حمایت کو انسانی و اسلامی فریضہ  قرار دیا۔ یہ موقف اس امر کا غماز ہے کہ عراقی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی آزادی ایک مستقل اصولی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکی اثر و رسوخ اور نیا ایلچی
عراق کی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ کوئی نیا موضوع نہیں۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمتِ عملی نے عراق کے داخلی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مارک ساوایا" کو عراق کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ مارک ساوایا ایک کاروباری شخصیت ہے، جو بھنگ اور جائیداد کے کاروبار سے منسلک ہے اور یہ شخص سفارتی تجربے سے محروم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس تقرری کا مقصد عراق کی سیاست میں امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ اقدام عراق میں امریکی اثر کے نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں اور ٹام باراک نے لبنان میں کیا تھا۔

نومبر کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ علاقائی مفادات کا محور
عراق میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ ہے، انتخابات کی تارہخ 11 نومبر مقرر کی گئی ہے، انتخابات کے ذریعے ملک کی پارلیمنٹ یعنی مجلس النواب العراقي کے 239  ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ عراق میں سیاسی جماعتوں، مکتبۂ فکر، فرقوں اور علاقائی تقسیم کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے اور اس کا اثر حکومت سازی، طاقت کے توازن اور داخلی استحکام پر پڑے گا۔ عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات داخلی سیاست سے بڑھ کر ایک علاقائی اور بین الاقوامی معاملہ بن چکے ہیں۔ مختلف طاقتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتخابی اتحادوں کی کثرت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عراق کا سیاسی منظر نامہ متحرک مگر غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ مقتدیٰ صدر نے انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، تاہم مرجعِ عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے عوام کو بھرپور شرکت کی تلقین کی ہے، جو عوامی شعور اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

عراقی سماج کا بیانیہ۔۔۔۔ رواداری اور وحدت
عراقی سماج کی بنیاد قبائلی ڈھانچے پر ضرور ہے، مگر وہاں کے قبائل اور عام عوام مسلکی اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کے قائل ہیں۔ اکثریت کے شیعہ ہونے کے باوجود عراقی معاشرہ بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہی وحدت عراق کے استحکام اور مزاحمت دونوں کی بنیاد ہے۔

عراق کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ استحکام کی امید یا ایک اور آزمائش؟
عراق ایک بار پھر جمہوری امتحان سے گزرنے جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ملک سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور عوامی بے زاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اکیس سال گزرنے کے باوجود عراق کا جمہوری سفر اب بھی عدم استحکام اور طاقت کے کھیل سے آزاد نہیں ہوسکا۔

عوامی توقعات اور سیاسی حقیقت
عراقی عوام کے لیے یہ انتخابات محض ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں بلکہ ایک اور امید کی کرن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں اب وہ چہرے آئیں، جو بدعنوانی، فرقہ واریت اور بیرونی اثرات سے بلند ہو کر عراق کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی بساط اب بھی پرانی جماعتوں اور طاقتور گروہوں کے زیرِ اثر ہے، جو انتخابات کے نتائج کے باوجود اقتدار کی تقسیم کے لیے ایک دوسرے سے سودے بازی کرتے ہیں۔

فرقہ واریت اور اتحاد کی سیاست
2003ء میں صدام کے زوال کے بعد سے عراقی سیاست شیعہ، سنی اور کرد جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ پر استوار ہے۔ کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی، اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی ہیں، جو جلد ہی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے طویل مذاکرات، الزامات اور مفاہمتوں کا وہی پرانا سلسلہ دہرایا جائے گا۔

احتجاجی تحریکوں کی بازگشت
2019ء کی عوامی تحریک نے عراقی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی کلچر کا مطالبہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جذبہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لا پاتا ہے یا نہیں۔ عوام میں سیاسی اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی موجود ہے، مگر نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انتخابی ٹرن آؤٹ اسی اعتماد کی حقیقی پیمائش ہوگی۔

علاقائی اثرات اور بین الاقوامی توازن
عراق مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ایران اور امریکا دونوں کے مفادات ٹکراتے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ اس بات کا عندیہ دے گا کہ نئی حکومت کس حد تک بیرونی دباؤ سے آزاد پالیسی اپناتی ہے۔ بغداد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے واشنگٹن سے بھی متوازن روابط برقرار رکھ سکے۔۔۔ یعنی ایک خود مختار مگر حقیقت پسند خارجہ پالیسی۔

سلامتی اور تعمیرِ نو
داعش کے خاتمے کے باوجود عراق مکمل طور پر پرامن نہیں۔ سکیورٹی اداروں میں سیاسی اثراندازی، کرپشن اور ملیشیاؤں کا کردار ریاستی عملداری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نئی حکومت سلامتی، روزگار، بجلی، پانی اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔۔۔۔ وہ وعدے جو ہر انتخابی مہم میں کیے جاتے ہیں، مگر پورے کم ہی ہوتے ہیں۔

امید باقی ہے
عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ اجلاس کل منگل، قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کو طلب کرنے کا فیصلہ
  • قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ 5نومبر کو طلب کرنے کا فیصلہ،سمری وزیراعظم کو ارسال
  • عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • خان گڑھ: اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس شاہ ،رکن قومی اسمبلی سردار علی گوہر خان مہر سے والدہ کے انتقال پر تعزیت کررہے ہیں
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • رکن قومی اسمبلی علی گوہر مہر اور علی نواز مہر کی والدہ انتقال کر گئیں
  • بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
  • وفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: سپیکر پنجاب اسمبلی
  • بھارتی قومی اسمبلی (لوک سبھا) کے 93 فیصد ارکان کروڑ و ارب پتی بن گئے، عوام بدحال؛ رپورٹ
  • پنجاب اسمبلی :وفاق سے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلیے27ویں آئینی ترمیم کا مطالبہ