Islam Times:
2025-04-25@11:46:45 GMT

ٹرمپ، عالمی لبرل نظام کیلئے خطرہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

ٹرمپ، عالمی لبرل نظام کیلئے خطرہ

اسلام ٹائمز: اگرچہ یورپ، امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک جیسے کینیڈا وغیرہ لبرل حکومتیں جانی جاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ اقتصاد کی حامل ہیں لیکن ان کے تجارتی ڈھانچے قدرے ایکدوسرے سے مختلف ہیں جس کے باعث امریکہ کی جانب سے ان ممالک کی درآمدات پر ٹیکس عائد کیا جانا ممکن ہے۔ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں کہ امریکہ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کیونکہ اس کے مدنظر مختلف اہداف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پروٹیکشن ازم کا حامی ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ملکی مصنوعات کی حمایت ضروری ہے اور گلوبلائزیشن کے عمل نے امریکہ کے مزدور طبقے اور ملکی مصنوعات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ لبرل ازم کے اصولوں کے تحت فری ٹریڈ کا زیادہ فائدہ چین، جرمنی، کینیڈا اور حتی میکسیکو جیسے ممالک کو ہوا ہے۔ لہذا اب ٹرمپ کا جھکاو لبرل ازم سے ہٹ کر نیو مرچنٹلزم اور پروٹیکشن ازم کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر رکسانا نیکنامی
 
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں قدم رکھتے ہی لبرل اقدار اور روایات کی دھجیاں اڑانا شروع کر دی ہیں۔ ان کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک اور حتی اپنے اتحادی مغربی ممالک کی جانب سے درآمدات پر ٹیکس عائد کرنا ایسا اقدام ہے جسے عالمی حلقے ایک قسم کی تجارتی جنگ قرار دے رہے ہیں اور اس بارے میں پابندیوں کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا۔ البتہ ہم اس بات کی بھی وضاحت کریں گے کہ ٹرمپ نے پابندیوں کو بھی مدنظر قرار دے رکھا ہے۔ لیکن اگر ہم گذشتہ مدت صدارت نیز حالیہ مدت صدارت کے دوران سیاسی اقتصاد کے شعبے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کا درست تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نیو مرچنٹلزم کی اصطلاح بروئے کار لانی پڑے گی۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں حکومت کی جانب سے تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کا بنیادی مقصد ملکی معیشت اور صنعت کی حمایت کرنا ہے۔
 
کسی بھی حکومت کی جانب سے تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کے اہم ترین ہتھکنڈوں میں سے ایک درآمدات پر ٹیکس عائد کرنا ہے جبکہ دیگر ہتھکنڈے بھی پائے جاتے ہیں۔ درحقیقت مرچنٹلزم کے حامی اور پیروکار تجارت کی بنیاد ایسا کھیل تصور کرتے ہیں جس کا نتیجہ صفر نکلتا ہو۔ اس نقطہ نظر کے حامی افراد بین الاقوامی اقتصادی کیک کو ایک مستقل مقدار سمجھتے ہیں لہذا ان کی نظر میں اقتصاد کے کھیل میں آپ کا حصہ جس قدر زیادہ ہو گا اسی نسبت سے دیگر ممالک کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھاری ٹیکس عائد کرنا ایک ایسے ہتھکنڈے میں تبدیل ہو جاتا ہے جو مطلوبہ تجارتی سطح اور اقتصادی فائدے کے حصول کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہیں گے کہ اس طرز فکر کے حامی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ درآمدات پر ٹیکس عائد کرنے سے دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔
 
البتہ زیادہ گہرائی میں سمجھنے کی خاطر یا دوسرے الفاظ میں بہتر نظریہ پیش کرنے کے لیے ہمیں نیو مرچنٹلزم مکتب فکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا ہو گا کہ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں اسٹریٹجک تجارت کے نظریات کی روشنی میں بھی جانچی جا سکتی ہیں جو مرچنٹلزم کے نظریے سے زیادہ جدید ہیں۔ اس نظریے کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ خاص اہداف مدنظر قرار دے کر تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کرے اور درآمدات پر ٹیکس عائد کرے یا ملکی صنعت کو سبسیڈ فراہم کرے اور یوں ملکی صنعت کے فائدے میں عمل کرنے کی کوشش کرے اور اس طرح بین الاقوامی حریفوں کے مقابلے میں ملکی پیداوار کی حفاظت کرے۔ اس قسم کی پالیسیاں عام طور پر ایسی مصنوعات کے بارے میں اپنائی جاتی ہیں جن پر بین الاقوامی کھلاڑیوں کے درمیان مقابلہ بازی زیادہ ہوتی ہے۔
 
اسی طرح مختلف مصنوعات کا خام مال جیسے فولاد اور ایلومینیم بھی انہی پالیسیوں کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ یہ ایسی مصنوعات ہیں جن میں دوسری مصنوعات کی نسبت غیر یقینی صورتحال زیادہ پائی جاتی ہے۔ لہذا سیاسی اقتصاد کے شعبے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نقطہ نظر نیو مرچنٹلزم اور اسٹریٹجک تجارے کے نظریے کا مرکب قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران فولاد اور ایلومینیم جیسی اسٹریٹجک مصنوعات جن پر مقابلہ بازی بہت زیادہ ہے، 25 فیصد ٹیکس عائد کیا تھا۔ لہذا ایسا نہیں تھا کہ ٹرمپ درآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوتے ہوئے اس بات کو مدنظر قرار دے کہ کون سے ممالک امریکہ یا مغرب کے ہمنوا ہیں اور کون سے ہمنوا نہیں ہیں۔ ٹرمپ نیو مرچنٹلزم اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کو تاجروں کے انداز میں دیکھنے کا عادی ہے۔
 
یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے ممالک کے مقابلے میں امریکی تجارت کی سطح کم دیکھتا ہے اور اس عدم توازن کا احساس کرتا ہے لہذا حریف ممالک کے مقابلے میں امریکی تجارت کی سطح بڑھانے کے درپے ہے۔ اس کی نظر میں امریکہ کی تجارتی سطح جس قدر اوپر جائے گی اسی قدر زیادہ زرمبادلہ امریکہ میں منتقل ہو گا اور اس کے نتیجے میں امریکی معیشت ترقی کرے گی اور ملکی صنعت کی حمایت ہو گی اور بے روزگاری کی شرح بھی کم ہوتی جائے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی کچھ مصنوعات خود کو بین الاقوامی حریفوں کی جانب سے شدید دباو میں محسوس کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ملکی صنعت کی رضامندی حاصل کرنے کے درپے ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کی نظر میں درآمدات پر ٹیکس لگانا ایک مذاکراتی ہتھکنڈہ بھی ہے۔ ٹرمپ کو امید ہے کہ وہ اس اقدام کے ذریعے یورپی حکمرانوں سے مراعات لے سکتا ہے۔
 
اگرچہ یورپ، امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک جیسے کینیڈا وغیرہ لبرل حکومتیں جانی جاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ اقتصاد کی حامل ہیں لیکن ان کے تجارتی ڈھانچے قدرے ایکدوسرے سے مختلف ہیں جس کے باعث امریکہ کی جانب سے ان ممالک کی درآمدات پر ٹیکس عائد کیا جانا ممکن ہے۔ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں کہ امریکہ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کیونکہ اس کے مدنظر مختلف اہداف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پروٹیکشن ازم کا حامی ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ملکی مصنوعات کی حمایت ضروری ہے اور گلوبلائزیشن کے عمل نے امریکہ کے مزدور طبقے اور ملکی مصنوعات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ لبرل ازم کے اصولوں کے تحت فری ٹریڈ کا زیادہ فائدہ چین، جرمنی، کینیڈا اور حتی میکسیکو جیسے ممالک کو ہوا ہے۔ لہذا اب ٹرمپ کا جھکاو لبرل ازم سے ہٹ کر نیو مرچنٹلزم اور پروٹیکشن ازم کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: درآمدات پر ٹیکس عائد کے مقابلے میں پروٹیکشن ازم ملکی مصنوعات بین الاقوامی کی مصنوعات ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں کی جانب سے ملکی صنعت امریکہ کی کی حمایت ہیں اور کے حامی ٹرمپ کی ہے اور اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

ٹیرف میں کمی کا امکان، فی الحال ہم چین کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ درآمدی اشیا پر ٹیرف 145 فیصد سے کم ہوں گے، تاہم فی الحال ’ہم چین کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہیں‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ چین سے آنے والی اشیا پر لگایا جانے والا اضافی ٹیرف کافی حد تک کم ہو جائے گا، لیکن یہ صفر نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان

چینی برآمدات پر ٹرمپ کا یہ تبصرہ سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ کے بیان کے جواب میں تھا، جن کا کہنا تھا کہ ٹیرف میں غیر معمولی اضافہ ناپائیدار ہے۔

 اسکاٹ بیسنٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ دنیا کی 2 بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ میں ’ڈی اسیلیشن‘ کی توقع رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر 145 فیصد درآمدی ٹیکس عائد کیا ہے، جس کا جواب چین نے امریکی اشیا پر 125 فیصد ٹیرف عائد کرکے دیا ہے۔

امریکا اور چین کے درمیان اس ٹیرف وار کے چلتے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درجنوں ممالک پر محصولات عائد کرنے کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ ٹھوکر کھا گئی ہے اور امریکی قرضوں پر سود کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

سرمایہ کار سست اقتصادی ترقی اور افراط زر کے بلند دباؤ سے پریشان ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ٹیرف حملے: چین کا امریکا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان

ٹرمپ نے گزشتہ روز سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے سربراہ کے طور پر پال اٹکنز کی رسم حلف برداری کے بعد صحافیوں کو دیے گئے تبصروں میں اسٹاک مارکیٹ میں اضافے کا اعتراف کیا۔

چینی صدر کے ساتھ ہارڈ بال نہیں کھیلیں گے

تاہم، ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کرنے سے گریز کیا کہ آیا وہ بھی سوچتے ہیں کہ چین کے ساتھ صورتحال غیر پائیدار ہے، جیسا کہ بیسنٹ کا کہنا ہے۔

چینی مصنوعات پر غیر معمولی اضافے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ہارڈ بال نہیں کھیلیں گے۔

امریکی صدر نے کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ حتمی ٹیرف کی شرح موجودہ 145 فیصد سے کافی حد تک نیچے آئے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹاک مارکیٹ امریکا ٹیرف چین چینی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نئے دلدل میں
  • امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • ملکی بقا کیلئے ہم سب ایک پیج پر ہیں، حکومت اور اپوزیشن ملکر بھارت کو جواب دیں: حافظ نعیم الرحمان 
  • بھارتی اقدامات پاکستان کے آبی تحفظ کیلئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں، شازیہ مری
  • اوپیک پلس ممالک کا پیداوار بڑھانے کے پیش نظر تیل کی قیمتوں میں 2 فیصد کمی
  • امریکا کا ایشیائی ممالک کی سولر مصنوعات پر 3521 فیصد ٹیکس کا اعلان
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ٹرمپ
  • ٹرمپ ٹیرف کے اثرات پر رپورٹ جاری، پاکستان پسندیدہ ترین ملک قرار
  • ٹیرف میں کمی کا امکان، فی الحال ہم چین کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ