Islam Times:
2025-07-26@07:16:13 GMT

ٹرمپ، عالمی لبرل نظام کیلئے خطرہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

ٹرمپ، عالمی لبرل نظام کیلئے خطرہ

اسلام ٹائمز: اگرچہ یورپ، امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک جیسے کینیڈا وغیرہ لبرل حکومتیں جانی جاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ اقتصاد کی حامل ہیں لیکن ان کے تجارتی ڈھانچے قدرے ایکدوسرے سے مختلف ہیں جس کے باعث امریکہ کی جانب سے ان ممالک کی درآمدات پر ٹیکس عائد کیا جانا ممکن ہے۔ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں کہ امریکہ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کیونکہ اس کے مدنظر مختلف اہداف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پروٹیکشن ازم کا حامی ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ملکی مصنوعات کی حمایت ضروری ہے اور گلوبلائزیشن کے عمل نے امریکہ کے مزدور طبقے اور ملکی مصنوعات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ لبرل ازم کے اصولوں کے تحت فری ٹریڈ کا زیادہ فائدہ چین، جرمنی، کینیڈا اور حتی میکسیکو جیسے ممالک کو ہوا ہے۔ لہذا اب ٹرمپ کا جھکاو لبرل ازم سے ہٹ کر نیو مرچنٹلزم اور پروٹیکشن ازم کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر رکسانا نیکنامی
 
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں قدم رکھتے ہی لبرل اقدار اور روایات کی دھجیاں اڑانا شروع کر دی ہیں۔ ان کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک اور حتی اپنے اتحادی مغربی ممالک کی جانب سے درآمدات پر ٹیکس عائد کرنا ایسا اقدام ہے جسے عالمی حلقے ایک قسم کی تجارتی جنگ قرار دے رہے ہیں اور اس بارے میں پابندیوں کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا۔ البتہ ہم اس بات کی بھی وضاحت کریں گے کہ ٹرمپ نے پابندیوں کو بھی مدنظر قرار دے رکھا ہے۔ لیکن اگر ہم گذشتہ مدت صدارت نیز حالیہ مدت صدارت کے دوران سیاسی اقتصاد کے شعبے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کا درست تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نیو مرچنٹلزم کی اصطلاح بروئے کار لانی پڑے گی۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں حکومت کی جانب سے تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کا بنیادی مقصد ملکی معیشت اور صنعت کی حمایت کرنا ہے۔
 
کسی بھی حکومت کی جانب سے تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کے اہم ترین ہتھکنڈوں میں سے ایک درآمدات پر ٹیکس عائد کرنا ہے جبکہ دیگر ہتھکنڈے بھی پائے جاتے ہیں۔ درحقیقت مرچنٹلزم کے حامی اور پیروکار تجارت کی بنیاد ایسا کھیل تصور کرتے ہیں جس کا نتیجہ صفر نکلتا ہو۔ اس نقطہ نظر کے حامی افراد بین الاقوامی اقتصادی کیک کو ایک مستقل مقدار سمجھتے ہیں لہذا ان کی نظر میں اقتصاد کے کھیل میں آپ کا حصہ جس قدر زیادہ ہو گا اسی نسبت سے دیگر ممالک کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھاری ٹیکس عائد کرنا ایک ایسے ہتھکنڈے میں تبدیل ہو جاتا ہے جو مطلوبہ تجارتی سطح اور اقتصادی فائدے کے حصول کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہیں گے کہ اس طرز فکر کے حامی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ درآمدات پر ٹیکس عائد کرنے سے دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔
 
البتہ زیادہ گہرائی میں سمجھنے کی خاطر یا دوسرے الفاظ میں بہتر نظریہ پیش کرنے کے لیے ہمیں نیو مرچنٹلزم مکتب فکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا ہو گا کہ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں اسٹریٹجک تجارت کے نظریات کی روشنی میں بھی جانچی جا سکتی ہیں جو مرچنٹلزم کے نظریے سے زیادہ جدید ہیں۔ اس نظریے کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ خاص اہداف مدنظر قرار دے کر تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کرے اور درآمدات پر ٹیکس عائد کرے یا ملکی صنعت کو سبسیڈ فراہم کرے اور یوں ملکی صنعت کے فائدے میں عمل کرنے کی کوشش کرے اور اس طرح بین الاقوامی حریفوں کے مقابلے میں ملکی پیداوار کی حفاظت کرے۔ اس قسم کی پالیسیاں عام طور پر ایسی مصنوعات کے بارے میں اپنائی جاتی ہیں جن پر بین الاقوامی کھلاڑیوں کے درمیان مقابلہ بازی زیادہ ہوتی ہے۔
 
اسی طرح مختلف مصنوعات کا خام مال جیسے فولاد اور ایلومینیم بھی انہی پالیسیوں کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ یہ ایسی مصنوعات ہیں جن میں دوسری مصنوعات کی نسبت غیر یقینی صورتحال زیادہ پائی جاتی ہے۔ لہذا سیاسی اقتصاد کے شعبے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نقطہ نظر نیو مرچنٹلزم اور اسٹریٹجک تجارے کے نظریے کا مرکب قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران فولاد اور ایلومینیم جیسی اسٹریٹجک مصنوعات جن پر مقابلہ بازی بہت زیادہ ہے، 25 فیصد ٹیکس عائد کیا تھا۔ لہذا ایسا نہیں تھا کہ ٹرمپ درآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوتے ہوئے اس بات کو مدنظر قرار دے کہ کون سے ممالک امریکہ یا مغرب کے ہمنوا ہیں اور کون سے ہمنوا نہیں ہیں۔ ٹرمپ نیو مرچنٹلزم اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کو تاجروں کے انداز میں دیکھنے کا عادی ہے۔
 
یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے ممالک کے مقابلے میں امریکی تجارت کی سطح کم دیکھتا ہے اور اس عدم توازن کا احساس کرتا ہے لہذا حریف ممالک کے مقابلے میں امریکی تجارت کی سطح بڑھانے کے درپے ہے۔ اس کی نظر میں امریکہ کی تجارتی سطح جس قدر اوپر جائے گی اسی قدر زیادہ زرمبادلہ امریکہ میں منتقل ہو گا اور اس کے نتیجے میں امریکی معیشت ترقی کرے گی اور ملکی صنعت کی حمایت ہو گی اور بے روزگاری کی شرح بھی کم ہوتی جائے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی کچھ مصنوعات خود کو بین الاقوامی حریفوں کی جانب سے شدید دباو میں محسوس کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ملکی صنعت کی رضامندی حاصل کرنے کے درپے ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کی نظر میں درآمدات پر ٹیکس لگانا ایک مذاکراتی ہتھکنڈہ بھی ہے۔ ٹرمپ کو امید ہے کہ وہ اس اقدام کے ذریعے یورپی حکمرانوں سے مراعات لے سکتا ہے۔
 
اگرچہ یورپ، امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک جیسے کینیڈا وغیرہ لبرل حکومتیں جانی جاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ اقتصاد کی حامل ہیں لیکن ان کے تجارتی ڈھانچے قدرے ایکدوسرے سے مختلف ہیں جس کے باعث امریکہ کی جانب سے ان ممالک کی درآمدات پر ٹیکس عائد کیا جانا ممکن ہے۔ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں کہ امریکہ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کیونکہ اس کے مدنظر مختلف اہداف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پروٹیکشن ازم کا حامی ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ملکی مصنوعات کی حمایت ضروری ہے اور گلوبلائزیشن کے عمل نے امریکہ کے مزدور طبقے اور ملکی مصنوعات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ لبرل ازم کے اصولوں کے تحت فری ٹریڈ کا زیادہ فائدہ چین، جرمنی، کینیڈا اور حتی میکسیکو جیسے ممالک کو ہوا ہے۔ لہذا اب ٹرمپ کا جھکاو لبرل ازم سے ہٹ کر نیو مرچنٹلزم اور پروٹیکشن ازم کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: درآمدات پر ٹیکس عائد کے مقابلے میں پروٹیکشن ازم ملکی مصنوعات بین الاقوامی کی مصنوعات ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں کی جانب سے ملکی صنعت امریکہ کی کی حمایت ہیں اور کے حامی ٹرمپ کی ہے اور اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

عمران خان کے بیٹوں کی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل سے ملاقات

واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جولائی ۔2025 )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بیٹوں نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل سے ملاقات کی، جس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے والد کی رہائی کے لیے مہم کا آغاز کیا عمران خان کے بیٹے سلیمان خان اور قاسم خان نے مئی میں پہلی بار عوامی سطح پر اپنے والد کی قید پر توجہ دلائی تھی، عمران خان اگست 2023 سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں، جہاں وہ 190 ملین پاﺅنڈ کرپشن کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں، جب کہ ان پر 9 مئی 2023 کے احتجاج سے متعلق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دیگر مقدمات بھی زیر سماعت ہیں.

(جاری ہے)

رچرڈ گرینل امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے خصوصی مشن ہیں انہوں نے ”ایکس“ پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سلیمان اور قاسم سے ریاست کیلیفورنیا میں ملاقات کی اور انہیں حوصلہ بلند رکھنے کا مشورہ دیا انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات سے تنگ آ چکے ہیں آپ اکیلے نہیں ہیں عمران خان کے بیٹوں نے پاکستانی نژاد امریکی معالج ڈاکٹر آصف محمود سے بھی ملاقات کی، جو امریکا میں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کی مہم میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں.

ڈاکٹر آصف محمود امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کے نائب چیئرمین ہیں، انہوں نے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ عمران خان کے بیٹوں اور رچرڈ گرینل کے ساتھ موجود ہیں انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان خان پر بے حد فخر ہے، جو اپنے والد، سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں انہوں نے گرینل کو انصاف اور اصولوں کا ساتھ دینے پر سراہا اور عمران خان کی رہائی کے لیے اتحاد پر زور دیا.

اس ماہ کے آغاز میں عمران خان کی بہن علیمہ خان نے کہا تھا کہ عمران خان کے دونوں بیٹے پہلے امریکا جائیں گے تاکہ اپنے والد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو اجاگر کر سکیں اس کے بعد وہ پاکستان آ کر اس تحریک کا حصہ بنیں گے جو سابق وزیراعظم کی رہائی کے لیے چلائی جا رہی ہے. اگرچہ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا لیکن وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت اجتماع کا حق صرف پاکستانی شہریوں کو حاصل ہے اور غیر ملکیوں کو پاکستان میں جلسہ یا اجتماع کرنے کی اجازت نہیں انہوں نے کہا کہ دونوں بھائی چوں کہ برطانوی شہری ہیں، اس لیے وہ مقامی سیاسی سرگرمیوں میں قانونی طور پر حصہ نہیں لے سکتے اور اگر وہ ویزا شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کا ویزا منسوخ کیا جا سکتا ہے.

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے راہنماﺅں کی جانب سے بھی اس معاملے پر متضاد بیانات سامنے آئے ہیں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ دونوں بھائیوں کو قانون کی حدود کے اندر رہ کر پاکستان آنے اور اپنی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہونی چاہیے. 

متعلقہ مضامین

  • بڑے سیاسی گھرانے کی شخصیت کے کرپٹو میں 10 کروڑ ڈالر ڈوب گئے
  • امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • ہمارے بغیردنیا کی معیشت بیٹھ جائے گی، امریکی صدرکا دعوی
  • ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
  • امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھارت میں نوکریاں دینا بند کریں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • عمران خان کے بیٹوں کی امریکا میں اہم شخصیت سے ملاقات، ڈونلڈ ٹرمپ کی مودی کو پھر چپیڑ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا باراک اوباما پر غداری کا الزام، سابق صدر نے ردعمل میں کیا کہا؟
  • عمران خان کے بیٹوں کی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل سے ملاقات
  • ایف بی آر کی اصلاحات سے ٹیکس نظام کی بہتری خوش آئند ہے، وزیراعظم
  • ایف بی آر کی اصلاحات سے ٹیکس نظام کی بہتری خوش آئند ہے: وزیراعظم