پاکستانی خواتین میں اسکوٹی کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) ماہرین کے مطابق معاشی آزادی، زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، مہنگائی اور دیگر وجوہات کے اثرات کے باعث خواتین اسکوٹیز کو نقل و حمل کا ایک قابل بھروسہ اور سستا ذریعہ سمجھ کر اسے استعمال کر رہی ہیں۔
’مجھے آزادی کا احساس دیتی ہے‘
ثانیہ سہیل ،جو روزانہ راولپنڈی صدر کے علاقے سے اسلام آباد میں اپنے دفتر تک کا سفر خوداعتماد ی کے ساتھ اپنی اسکوٹی پرکرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں،'' میری اسکوٹی کام پر جانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ بہت آسان ہے اور میرا بہت سا وقت اور پیسے کی بچت کا سبب ہے۔ یہ مجھے بااختیار اور مضبوط ہونے کا احساس دیتا ہے۔ مجھے آزادی کا احساس دیتا ہے۔‘‘ایک گھریلو خاتون، عنبر بابر، جو راولپنڈی کے صدر بازار میں خریداری کر رہی تھیں، نے کہا، ''میں اپنے بچوں کو اسکول لے جانے اور گھریلو اشیاء خریدنے کے لیے اپنی سکوٹی کا استعمال کرتی ہوں۔
(جاری ہے)
اپنےخاندان کے کمانے والے فرد کے طور پر میں گاڑی کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے میری سکوٹی میرے لیے زیادہ سستی اور قابل رسائی آپشن ہے۔‘‘وقت کی بچت اور آسان سواری
محمد جہانگیر، جو اپنی بیٹی کے ساتھ اسکوٹی خریدنے کے لیے مری روڈ پر ایک شو روم میں موجود تھے، نے نقل و حمل کے لیے سکوٹی کو ایک قابل بھروسہ سواری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی سارہ صبح کالج جاتے ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرنے کی وجہ سے دیر سے کالج پہنچتی تھی، جوکہ پریشانی کا باعث تھا۔
جہانگیر نے مزید کہا کہ سکوٹی ایک قابل اعتماد اور آسان سواری ہے،اس سے میری بیٹی کو وقت پر کالج پہنچنے میں مدد ملے گی۔ جہانگیر نے سکوٹی کے مالی فوائد پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ گاڑی کے مقابلے میں کم دیکھ بھال کی متقاضی ہے اور اس کا پٹرول کا خرچہ بھی کم ہے۔خواتین ٹیکسی سروس، پاکستانی خواتین میں مقبول
خواتین کی خود مختاری کا نیا راستہ
چیف ٹریفک آفیسر بینش فاطمہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی خاتون مالی طور پر خود مختار ہوتو آپ کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ آزادانہ طور پر چل پھر سکے۔
یہی کردار راولپنڈی ٹریفک پولیس ادا کر رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیاں اب آزادانہ طور پر سفر کر رہی ہیں اور یہ تبدیلی معاشرتی قبولیت کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔‘‘فرح ناز نے کہا پاکستان میں خواتین کے لیے سکوٹی چلانا بہت ضروری ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ یہ بہت فائدہ مند ہے۔ وہ کہتی ہیں،''مجھے کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔
لوگ نہ ہی کچھ برا کہتے ہیں، نہ ہی کوئی مزاحمت کرتے ہیں۔ بلکہ، اگر اسکوٹی کسی سڑک پر رکتی ہے تو لوگ خود راستہ دے دیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سکوٹی چلانے کے رحجان کو عام ہونا چاہیے۔سکوٹی متعارف کرانے والی صحافی فرح
صحافی فرح ناز پاکستان کی ان چند خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے اسکوٹی کلچر متعارف کرایا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے فرح نے بتایا کہ کچھ سال قبل وہ بھارت گئیں جہاں انہوں نے خواتین کو آزادی سے اسکوٹی چلاتے اور روزمرہ کے کام سرانجام دیتے دیکھا، جس سے وہ بے حد متاثر ہوئیں۔
واپس آکر انہوں نے خود بھی اسکوٹی خرید لی حالانکہ اس وقت پاکستان میں خواتین کا موٹرسائیکل چلانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔فرح نے بتایا،''جب میں بھارت گئی تو دیکھا کہ خواتین اسکوٹی پر سبزی خریدنے، بچوں کو یونیورسٹی یا کالج چھوڑنے اور گھریلو ذمہ داریاں نبھانے جا رہی ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ اگر ہماری خواتین بھی سکوٹی استعمال کریں تو ان کے لیے کئی کام آسان ہو سکتے ہیں۔
مثلاً خریداری یا کسی ضروری کام کے لیے انہیں دوسروں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف وقت بلکہ پیسے کی بھی بچت ہوتی ہے۔‘‘پاکستان: کریم ٹیکسی کی خواتین ڈرائیورز
’ہم بھی خریدیں گے‘
فرح ناز نے کا کہنا ہے، ’’اسکوٹی چلانے کا میرا بہت اچھا تجربہ رہا ہے۔ جس جس جگہ سے میری سکوٹی گزرتی تھی لوگ میری سکوٹی کو ہارن مار کر روکا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ یہ کہاں سے خریدی ہے اور کتنی کی ہے۔
اکثر لوگ کہتے تھے کہ ہم اپنی بہن یا بیٹی کے لیے خریدیں گے۔ ایک بار راولپنڈی کے سرکلر روڈ پر جب میں اسکوٹی پر جا رہی تھی تو ایک شخص نے میری سکوٹی کو دیکھ کر سوال کیا کہ یہ کہاں سے خریدی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو اسے خریدنا چاہتی تھی۔‘‘ڈرائیونگ سیکھنے کا نیا رجحان
چیف ٹریفک آفیسر بینش نے ''ویمن آن وہیلز‘‘ کے تحت خواتین کی ڈرائیونگ ٹریننگ میں بڑھتی ہوئی شرکت اور اس اقدام کی کامیابی پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتایا کہ اب مزید خواتین تربیت کے لیے رابطہ کر رہی ہیں جو گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ایک نمایاں تبدیلی ہے۔‘‘ بینش کے مطابق ''پہلے ضلع میں تربیتی ادارے محدود تھے اور زیادہ تر خواتین نجی ڈرائیونگ اسکولوں پر انحصار کرتی تھیں۔ تاہم اب ہم نے تعلیمی اداروں میں تربیت کا آغاز کیا ہے،جس سے طلبہ کی شرکت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ڈرائیونگ سیکھنے کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ٹریفک پولیس نے کیمپس میں تربیتی پروگرام کا آغاز کیا۔ اس اقدام کے تحت رجسٹرڈ طلبہ کو تربیت فراہم کرنے کے لیے انسٹرکٹرز جدید تربیتی آلات کے ساتھ منتخب تعلیمی اداروں کا دورہ کرتے ہیں۔ نجی ڈرائیونگ اسکولوں کے مقابلے میں کم لاگت ہونے کی وجہ سے اس پروگرام کو طالبات کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی ہے۔
ٹریفک پولیس پندرہ روزہ تربیتی پروگرام کے لیے صرف تین ہزار روپے فیس وصول کرتی ہے، جس طرح زیادہ یہ خواتین کے لیے بآسانی قابلِ رسائی ہے۔ تربیت میں روڈ سیفٹی اور ٹریفک قوانین پر خصوصی لیکچرز شامل ہیں تاکہ شرکاء میں شعور اجاگر کیا جا سکے۔ بینش فاطمہ نے مزید بتایا کہ حالیہ سیشن میں ایک سو ساٹھ خواتین کو تربیت دی گئی، جو کہ اس پروگرام کے آغاز کے بعد سب سے ابگ تک کی بڑی تعداد ہے۔
اس سے قبل ہر سیشن میں شرکاء کی اوسط تعداد دس سے بارہ کے درمیان ہوتی تھی۔بنگلہ دیش کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور
خطرے کو مدنظر رکھنا بھی ضروری
ڈاکٹر محمد زمان، سربراہ شعبہ سیاسیات، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد نے اس پیش رفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خواتین کو اپنی بیرونی سرگرمیوں میں خودمختاری ملی ہے اور ان کے خاندانوں کو بھی سہولت حاصل ہوئی ہے، جو ان کی نقل و حرکت کے حوالے سے محدود تھے۔
تاہم انہوں نے اسکوٹیز کے ڈیزائن پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موٹر سائیکل ایک خطرناک سواری ہے اور تقریباً 80 فیصد سڑک حادثات موٹر سائیکل سے متعلق ہوتے ہیں۔ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زمان نے تجویز دی کہ خواتین کے لیے تین پہیوں والی موٹر سائیکل زیادہ محفوظ اور موزوں سواری ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر زمان نے کہا کہ معاشرے میں یہ تبدیلی ٹرانسپورٹ کے نظام کی عدم دستیابی اور مختلف شعبوں میں خواتین کے لیے بڑھتے ہوئے مواقع کا نتیجہ ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کے لیے ہوئے کہا کہ کرتے ہوئے انہوں نے کے ساتھ رہی ہیں کر رہی ہے اور
پڑھیں:
گوشت، متوازن غذا کا اہم جزو
عیدالاضحی، جسے بڑی عید بھی کہا جاتا ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے ایک بڑا تہوار ہے۔ اس دن مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ مختلف مسلم معاشروں کی روایات کے لحاظ سے اس دن کی اپنی منفرد ثقافتی حیثیت بھی ہے۔
عید کے موقع پر تو خیر خاندان کے لوگ اکٹھے ہوتے ہی ہیں، دوست احباب کی محفلیں بھی سجتی ہیں، لیکن عیدالاضحی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس موقع پر گوشت کی مختلف ڈشز تیار کرکے لذت کام و دہن کا بھی بھر پور اہتمام کیا جاتا ہے۔ گوشت کو روسٹ کرایا جاتا ہے، یا بعض گھروں میں باربی کیو پارٹی کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ قیمہ بنایا جاتا ہے، شامی تیار کیئے جاتے ہیں، غرض یہ کہ گوشت کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چیزوں کو اعتدال میں رہتے ہوئے عام دنوں کی طرح کھایا جائے۔ اگر اس سلسلے میں بے احتیاطی کی گئی تو بہت سے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جو لوگ پہلے سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں، انہیں خاص طور پر اس موقع پر محتاط رہنا چاہیے اور ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق گوشت کھانا چاہیے۔ عید کے موقع پر گوشت کو زیادہ عرصہ تک سٹور کرنا بھی درست نہیں ہے۔
اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسان مختلف اقسام کی خوراک کھاتا ہے، جس میں پھل، سبزیاں، گوشت، مشروبات وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام چیزوں کی اپنی جگہ پر خاص اہمیت ہے۔ متوازن غذا کھانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عمر، صنف اور صحت کے مطابق ان سب چیزوں کا اعتدال میں استعمال کیا جائے۔
دوسرے غذائی اجزاء کے علاوہ گوشت بھی انسانی خوراک کا اہم جزو ہے، جس سے جسم کو پروٹین، لمحیات، آئرن، وٹامن B وغیرہ حاصل ہوتی ہیں، جوکہ ایک صحت مند جسم کیلئے ضروری ہیں۔ تاہم ہر قسم کی غذا کے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کو عام حالات میں ضرورت کے مطابق کھانا چاہیے، گوشت کھانے میں غیر معمولی زیادتی سنگین قسم کے صحت کے مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔ تاہم عام حالات میں کسی بیماری کے بغیر گوشت کو مکمل طور پر اپنی غذا سے خارج کر دینا بھی آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
دو تین سال قبل ذرائع ابلاغ پر خبر آئی کہ کئی برسوں سے صرف کچی سبزیاں اور پھل کھا کر زندہ رہنے والی روسی انفلونسر ژانا سمسونوا 40 سال کی عمر میں چل بسی۔ ان کی موت مبینہ طور پر غذائی قلت اور تھکن کے باعث ہوئی۔ وہ 10 سال سے صرف کچی سبزیاں، پھل اور ان کا جوس غذا کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ حتی کہ وہ پانی پینے کو بھی غیرضروری سمجھتی تھیں۔
اس کے متعلق انسٹاگرام پر انہوں نے لکھا تھا: ’’پانی نہ پینا کچی سبزیوں اور پھلوں پر انحصار کرنے والوں میں عام ہے۔ مجھے پیاس نہیں لگتی اور میں پانی نہیں پینا چاہتی، مجھے پھلوں اور ناریل سے پانی حاصل ہو جاتا ہے، جس سے مطمئن ہوں۔‘‘ ڈاکٹروں کے مطابق ژانا سمسونوا کی موت ہیضے کی طرح کے ایک انفیکشن کی وجہ سے ہوئی جو کہ صرف سبزی اور پھلوں پر مشتمل غذا پر انحصار کے باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ شدید قسم کے ڈائیٹ پلان سے گریز کرتے ہوئے اپنی تمام غذائی ضروریات پوری کرنے پر دھیان دینا چاہیے۔
کلیورلینڈ کلینک کے مطابق ، صرف پھلوں پر گزارا کرنے والے کا جسم غذائی قلت کا شکار ہو جاتا ہے، ایسے افراد اپنے جسم کو ضروری غذائی اجزاء جیسے وٹامن، لیپڈز اور پروٹین وغیرہ سے محروم کر دیتے ہیں۔ چنانچہ غذائی قلت کو محسوس کرتے ہوئے جسم ضروری افعال کے لیے توانائی بچانے پر توجہ مرکوز کر دیتا ہے اور میٹابولزم (خوراک کو توانائی میں بدلنا) کا عمل کمزور پڑ جاتا ہے۔ دراصل انسانی جسم کو ہر طرح کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔
کسی بھی متوازن غذا میں گوشت کی اپنی جگہ پر اہمیت ہے تاہم اس کی مناسب مقدار کا تعین کھانے والے شخص کی صحت، عمر، کام کی نوعیت اور روزمرہ روٹین کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔ مچھلی اور مرغی کے گوشت کو عام طور پر سفید گوشت (meat White ) کہا جاتا ہے۔ اس سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہیں۔ سفید گوشت میں کلوریز اور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اس طرح چوپائیوں اور دودھ پلانے والے جانوروں (Mamals) کا گوشت، سرخ گوشت (meat Red ) کہلاتا ہے۔
مٹن (چھوٹا گوشت) میں چکنائی کی مقدار، چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ بیف (بڑے گوشت) میں چکنائی کی زیادہ مقدار ہوتی ہے، تاہم اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلاً پروٹین، زنک، فاسفورس، آئرن اور وٹامن B وغیرہ پوری ہوتی ہیں۔ سفید اور سرخ گوشت، دونوں کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں، اس لیے انہیں ایک حد سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
طب اور غذائیات کے میدان میں ہونے والی تحقق سے پتا چلتا ہے کہ عام حالات میں سرخ گوشت کا زیادہ استعمال مختلف سنگین نوعیت کی بیماریوں مثلاً کینسر، دل کے امراض، ذیابیطس، معدہ، جگر کی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض سٹڈیز کے مطابق اس کے زیادہ استعمال سے وقت سے پہلے اموات بھی واقع ہوسکتی ہیں۔ بالخصوص وہ لوگ جو پہلے سے ہی مذکورہ بالا بیماریوں میں مبتلا ہیں، انہیں سرخ گوشت کے استعمال میں غیر معمولی احتیاط برتنی چاہیے۔
ہمارے ہاں شہروں میں ڈبوں میں بند گوشت (meat Processed ) کی خریدو فروخت کا رواج بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ ڈبوں میں بند سرخ گوشت سے بھی صحت کے مسائل لاحق ہوتے ہیں۔ ’’ہاورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ‘‘ کی ایک تحقیق کے مطابق اگر پروسیسڈ سرخ گوشت کو روزانہ ایک بار بھی کھانے میں استعمال کیا جائے تو دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات 42% تک، جبکہ ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات 19% تک بڑھ جاتے ہیں۔
ڈبوں میں بند گوشت کو محفوظ کرنے کیلئے نائٹریٹس (Nitrates) کا استعمال کیا جاتا ہے، جوکہ بعض سائنسدانوں کے نزدیک کینسر پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ اس لیے اس تحقیق میں لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ کینسر کے خطرے سے بچنے کیلئے پروسیسڈ سرخ گوشت سے اجتناب کریں۔
جو لوگ صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اگر وہ سرخ گوشت کی مقدار اپنی معمول کی خوراک میں کم کردیں تو سٹڈیز کے مطابق ان کی صحت میں بھی بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے۔ چند برس قبل برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ ’سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن‘ نے اپنے شہریوں کیلئے تجویز کیا تھا کہ وہ اوسطاً 70 گرام یا (2.5oz) روزانہ، جو ہفتے میں تقریباً 500 گرام یا (17oz) بنتا ہے، سرخ گوشت استعمال کرسکتے ہیں تاکہ بڑی آنت کے کینسر کے خطرے کو کم سے کم کیا جاسکے۔
ہمارے ہاں شہروں میں فاسٹ فوڈ کلچر بھی جڑ پکڑ چکا ہے۔ نوجوان اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی فیملیز بھی بڑی کثرت اور رغبت کے ساتھ اسے کھاتے ہیں۔ ان فاسٹ فوڈ ایٹمز میں بھی چکن یا گوشت کی دوسری اقسام شامل ہوتی ہیں۔ اسے معمول کا حصہ بنا لینے سے سب سے زیادہ موٹاپے کی شکایت پیدا ہوتی ہے، جوکہ خود ایک بیماری ہے اور بہت سی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ نیز ان کے استعمال سے صحت کے مختلف دوسرے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
چنانچہ فاسٹ فوڈز سمیت گوشت کی دوسری تمام مصنوعات کو بڑی احتیاط کے ساتھ اعتدال میں کھانا چاہیے، تاکہ اس سے آپ کے جسم کو نقصان کے بجائے فوائد حاصل ہوسکیں اور آپ ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر گوشت کھانے میں بے احتیاطی برتنے کی وجہ سے عام طور پر لوگوں کو جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے، اس حوالے سے ہم نے معروف ماہر طب ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی سے گفتگو کی، جس میں ڈاکٹر صاحب نے طبی حوالوں سے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ گوشت کے استعمال سے متعلق بہتر غذائی عادات اپنانے کے بارے میں ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی کا کہنا ہے: ’’ایک عام انسانی جسم کو متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں لمحیات، پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیں جوکہ گوشت اور دوسری چیزوں سے حاصل ہوتی ہیں۔
تاہم یہ ضروری ہے کہ ہر چیز کو اعتدال میں اور ایک مخصوص حد تک استعمال کیا جائے تاکہ بے احتیاطی اور بدپرہیزی کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بڑی ضیافتوں میں یا عیدالاضحیٰ کے موقع پر احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کو طبی حوالے سے مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
بعض لوگ دانتوں کے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر گوشت کو اچھی طرح سے صاف کرکے نفاست سے نہیں بنایا گیا ہوتا، گوشت کے چھوٹے چھوٹے ذرے دانتوں میں رہ جاتے ہیں، جوکہ نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ گوشت کے ریشے یا ہڈی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی مسوڑھوں یا دانتوں کی تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں۔ مسوڑھوں میں سوجن بھی ہوسکتی ہے یا ان میں Cuts بھی لگ سکتے ہیں۔
چھوٹا یا بڑا گوشت زیادہ مقدار میں کھانے سے معدے کی جھلیوں میں سوزش ہوجاتی ہے۔ زیادہ مقدار میں گوشت کھانے سے، گوشت آسانی سے ہضم نہیں ہوتا اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ اس سے ڈائریا جیسی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے، یا Constipation (قبض) بھی ہو سکتی ہے۔
یہ دونوں کیفیات بہت تکلیف دہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے سے ہی احتیاط کی جائے اور زیادہ مقدار میں گوشت کھانے سے اجتناب کیا جائے۔ گوشت کو زود ہضم بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اسے بغیر مصالحے کے یا پھر کم مصالحے میں اور شوربے کے ساتھ بنایا جائے۔ نیز انسانی جسم کو مناسب مقدار میں ایسی غذا مثلاً پھل، سبزیاں وغیرہ لیتے رہنا چاہیے، جس سے اس کے جسم کو فائبر ملتا رہے اور غذا ہضم کرنے میں آسانی رہے۔‘‘