مشرق وسطیٰ میں امریکی منصوبہ بندی اور جاپانی امن مشن
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے متنازع بیانات اور پالیسیوں کے باعث بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ میکسیکو کے تارکین وطن کی واپسی کا معاملہ ہو یا چین، کینیڈا اور دیگر ممالک پر ٹیرف کے حوالے سے کیے گئے فیصلے، انہیں ہر محاذ پر تنقید اور نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ ان کی امریکا فرسٹ کی پالیسی کے تحت روایتی اتحادیوں کا اعتماد بھی متزلزل ہوا ہے، خود امریکی پالیسی ساز ادارے ٹرمپ کے ارادوں کو امریکی استحکام کے لیے ایک سوالیہ نشان سمجھ رہے ہیں جن سے امریکا کی امتیازی حیثیت اب خطرے میں نظر آرہی ہے۔
ٹرمپ کی یہ پالیسیاں آج کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ ان کے پہلے دور اقتدار سے منسلک پالیسیوں کا تسلسل سمجھی جارہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ابراہم منصوبہ ہو یا غزہ کے مستقل مکینوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مجوزہ منصوبہ انہیں اسی تسلسل کی کڑی سے منسلک سمجھا جارہا ہے۔ اس سے قبل جنوری 2020 میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے “Peace to Prosperity” کے نام سے ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ بھی کہا گیا۔ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے ایک محدود خودمختاری والی ریاست کی تجویز دیتا تھا، جس کے بدلے میں اسرائیل کو مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں پر مکمل اختیار حاصل ہوتا۔ مزید برآں، اس منصوبے میں یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیا گیا تھا اور فلسطینی عوام کو غزہ سے باہر دیگر علاقوں، بشمول اردن اور مصر، میں منتقل کرنے کے امکانات کا عندیہ دیا گیا تھا اور یہ معاملہ اس وقت بھی اتنا ہی متنازع تھا جتنا کہ آج۔
ٹرمپ کی غیر منطقی اور ناانصافی پر مبنی یہ تجویز نہ صرف فلسطینی عوام کی خواہشات کے خلاف بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس منصوبے کو فلسطینی قیادت، اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر ممالک نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے یکطرفہ طور پر اسرائیل کے حق میں جھکاؤ اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت پر ڈاکا سمجھا گیا۔ مشرق وسطیٰ کی گمبھیر صورتحال میں یہاں بین الاقوامی سطح پر مختلف اقدامات کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات کیے جاتے رہے ہیں جن میں امن مشن کی تعیناتی کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں بین الاقوامی امن مشن کا بنیادی مقصد عالمی استحکام اور انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ فلسطین کے حوالے سے بھی اقوام متحدہ اور دیگر تنظیمیں مختلف سطح پر امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں، اقوام متحدہ کی دیگر ٹیمیں مغربی کنارے اور غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتی ہیں اور امن کے قیام کے لیے سفارتی اقدامات تجویز کرتی ہیں لیکن عملی طور پر یہ مشن فلسطینیوں کو حقیقی ریلیف دینے سے قاصر نظر آتی ہیں۔
بظاہر یورپی یونین فلسطینی علاقوں میں اقتصادی ترقی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مالی امداد بھی فراہم کرتی ہے جبکہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) فلسطینی عوام کی حمایت میں مختلف قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن قیام امن اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حق کی جانب پیش رفت کے ضمن میں یہ تمام اقدامات کوئی موثر حکمت عملی بنانے میں قاصر نظر آتے ہیں۔ عرب لیگ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ٹرمپ کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق پر زور دیا لیکن اس کی حیثیت شطرنج کے مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ میں ہمیں جاپان کا کردارایک غیر جانبدار اور انسان دوست ملک کے طور پر نظر آتا ہے، جو اقوام متحدہ کے امن مشن میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ فلسطین کے حوالے سے جاپان کی پالیسی جن بنیادی نکات پر مشتمل ہے ان کے تحت وہ غزہ اور مغربی کنارے میں بنیادی ڈھانچے، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔
جاپانی حکومت نے فلسطینی مہاجرین کے لیے UNRWA کے ذریعے غذائی امداد اور دیگر فلاحی منصوبے شروع کیے ہیں۔ جاپان نے اقوام متحدہ کے امن مشنز، جیسے کہ UNDOF (United Nations Disengagement Observer Force) اور UNIFIL (United Nations Interim Force in Lebanon) میں شمولیت اختیار کی ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ جاپان نے مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے سفارتی کوششیں بھی کی ہیں اور عالمی امن کانفرنس میں فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی وکالت کی ہے۔ جاپان نے ہمیشہ غیر جانبداری برقرار رکھی ہے اور کسی بھی ایسی پالیسی کی مخالفت کی ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کرے تاہم جاپان کی جانب سے فلسطین میں دو ریاستی حل کا بیانیہ ایک متنازع معاملہ سمجھا جاتا ہے اور فلسطینی اس رائے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ اس ضمن میں مزاحمتی تنظیم حماس کا نقطہ ٔ نظر سمجھے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نظر نہیں آتا، حماس نے ہمیشہ بین الاقوامی امن مشن اور مغربی ممالک کے کردار پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ حماس کی نظر میں بین الاقوامی طاقتیں اکثر اسرائیل کے حق میں فیصلے کرتی ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جاپان کا موقف اس حوالے سے مختلف ہے۔ جاپان فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتا ہے، مگر حماس کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات نہیں رکھتا۔ مشرق وسطیٰ امور کے بعض ماہرین کی رائے میں جاپان اس پورے منظر نامے میں اس وقت تک کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہوگا جب تک وہ حماس کو اعتماد میں نہیں لیتا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حماس اس پورے معاملے کا انتہائی اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور اسے اعتماد میں لیے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن ممکن نہیں۔ جاپان سمیت عالمی برادری کی ذمے داری بنتی ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کا احترام یقینی بنایا جائے اور فلسطینی عوام کو جبری نقل مکانی سے بچا کر انہیں ان کے گھروں میں محفوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں جاپان جیسے ممالک اقوام متحدہ کے امن مشن میں اپنی شرکت کو مزید فعال کرکے اور فلسطینی عوام کے لیے مزید عملی اقدامات کرسکتے ہیں، جس کے لیے جاپانی سفارت کاری کو فلسطینی عوام کی حمایت میں مزید واضح اور مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا۔ جاپان اس سے قبل بھی اس بات کا اعادہ کرتا رہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ محض مشرق وسطیٰ کا نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی انسانی مسئلہ ہے۔ چنانچہ جاپان سمیت بین الاقوامی امن مشن کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی حفاظت، ان کے بنیادی حقوق کے دفاع اور ایک منصفانہ حل کے لیے مزید مؤثر اور عملی اقدامات کریں، تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینی عوام کے حق اور فلسطینی عوام فلسطینی عوام کی بین الاقوامی اقوام متحدہ کی پالیسی اور دیگر حوالے سے نہیں ا کے لیے
پڑھیں:
جاپانی شہری کے ساتھ دلخراش واقعہ، 10 سال بچت کے بعد خریدی گئی فیراری چند منٹ میں جل کر راکھ
TOKYO:جاپان کے دارالحکومت کی مرکزی شاہراہ میں ایک فیراری 458 اسپائیڈر جل کر راکھ ہوگئی جس سے ایک شہری نے بڑے شوق سے 10 سال بچت کے بعد خریدی تھی اور ایک گھنٹے میں سب ختم ہوگیا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 33 سالہ جاپانی میوزک پروڈیوسر ہونکون نے 10 سال تک فیراری خریدنے کے لیے بچت کی، جس کی قیمت بھارتی 2.5 کروڑ روپے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ میوزک پروڈیوسر ہونکون نے ایک دہائی لگا کر بچت کی اور بالآخر جب 16 اپریل کو فیراری مل گئی تو ایک گھنٹے بعد شوٹو ایکسپروے میں آتشزدگی کا شکار ہوئی تاہم کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
مرکزی شاہراہ پر کار پر آگ 20 منٹ میں ٹھنڈی کر دی گئی تھی لیکن اس وقت تک کار مکمل طور پر جل چکی تھی تاہم فرنٹ بمپر کا ایک چھوٹا سا حصہ رہ گیا تھا حالانکہ آگ لگنے سے قبل کوئی حادثہ بھی پیش نہیں آیا تھا۔
ہونکون جب گاڑی چلا رہا تھا تو انہیں آگ نظر آئی، جس پر انہوں نے فوری طور پر گاڑی روکی جبکہ آگ لگنے کی وجہ تاحال معلوم نہ ہوسکی اور میٹرو پولیٹن پولیس اس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر دلخراش واقعے کو ہونکون نے دردمندی سے شیئر کیا اور لکھا کہ فیراری ان کا خواب تھا اور یہ خواب پورا ہوتے ہی چند منٹوں میں ڈراؤنا خواب بن گیا۔
انہوں نے لکھا کہ میری فیراری خریدنے کے لیے ایک گھنٹے بعد جل گئی اور مجھے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ پورے جاپان میں واحد شہری ہوں جس کے ساتھ اس طرح کا دردناک واقعہ پیش آیا ہے۔
ہونکون نے میڈیا کو بتایا کہ میں بہت گھبرایا تھا کہ دھماکا ہوگا۔