میکسیکو میں بس حادثے میں 3 درجن سے زائد افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
میکسیکو کے جنوبی علاقے میں مسافر بس کے حادثے میں 3 درجن سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مقامی انتظامیہ نے بتایا کہ جنوبی میکسیکو میں ایک بس خوف ناک حادثے کا شکار ہوئی، جس کے نتیجے میں 3 درجن سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
مقامی میڈیا نے رپورٹس میں بتایا کہ مسافر بس کینکن اور ٹیباسکو کے درمیان محو سفر تھی اور حادثے کا شکار ہوئی۔
حکام نے بس حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کی اور حادثے پر افسوس کا اظہار کیا۔
تباسکو کے شہر کومالکیلکو کے میئر اویڈیو پیرالٹا نے بتایا کہ ہم نے وفاقی حکومت اور ریاستی حکام کو آگاہ کردیا ہے کہ انہیں جو مدد درکار ہوگی وہ فراہم کردی جائے گی۔
بس آپریٹر ٹورز ایکوسٹا کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کے مطابق بس میں 44 افراد سوار تھے۔
کمپنی نے بیان میں کہا کہ بس حادثے پر ہمیں بہت دکھ ہے اور حکام کے ساتھ مل کر حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے کام کر رہے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بس مقررہ رفتار کے اندر چل رہی تھی یا اس قاعدے کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایران کے شہر زاہدان میں مسلح افراد کا عدالتی کمپاؤنڈ پر حملہ، متعدد ہلاکتوں کا خدشہ
شمال مشرقی ایران کے شہر زاہدان میں مسلح افراد کے عدالتی کمپاؤنڈ پر اچانک حملے میں کئی افراد زخمی ہوگئے جبکہ ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ حملہ ایک منظم کارروائی کے تحت کیا گیا جس میں مسلح افراد نے عدالت کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں کی صحیح تعداد تاحال سامنے نہیں آسکی، لیکن حکام نے تصدیق کی ہے کہ نقصان شدید ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق حملہ آور ججز کے کمروں میں گھس کر فائرنگ کرتے رہے۔
ادھر ملک کے مغربی حصے میں بھی ایک اور پرتشدد واقعہ پیش آیا۔ صوبہ مغربی آذربائیجان کے شہر سردشت کے نواحی گاؤں اغلان میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک اڈے پر حملہ کیا گیا، جس میں ایک اہلکار شہید اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ ’مہر نیوز‘ کے مطابق یہ حملہ ایک دہشت گرد گروہ کی جانب سے کیا گیا، جو گاؤں میں قائم فوجی اڈے کو نشانہ بنا رہا تھا۔
پاسدارانِ انقلاب کے مغربی آذربائیجان شہدا بیس کے ترجمان کرنل شاکر نے بتایا کہ حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کی، تاہم حملے کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔ حکام نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ اس واقعے میں کرد علیحدگی پسند گروہ ملوث ہو سکتا ہے، جو ماضی میں بھی خطے میں ایسی کارروائیوں میں شامل رہا ہے۔
ان دونوں حملوں نے ایران میں سلامتی کی صورتحال پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ زاہدان اور سردشت میں ہونے والی ان پرتشدد کارروائیوں کی تحقیقات جاری ہیں اور مقامی حکام ابھی تک ان کے پیچھے کارفرما عناصر کی نشاندہی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عوامی سطح پر بھی ان حملوں کے بعد تشویش اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے، جبکہ حکومت پر سیکیورٹی مزید سخت کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔