ہماری زندگی پر سوشل میڈیا کا اثر
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
ہم اپنی زندگیوں سے سوشل میڈیا کے اثرات کو کم یا ختم نہیں کر سکتے۔ آج دنیا میں سوشل میڈیا نے اپنی دھوم مچائی ہوئی ہے۔ اس کے جہاں بہت سے مثبت پہلو ہیں وہاں کئی نیگٹو پہلو بھی نمایاں ہو رہے ہیںجس سے اخلاقی اقدار متاثر ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا کے باعث انسان آج کل صرف اپنے گھر اور ایک کمرے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ آئوٹ ڈور تفریحات کو انجوائے نہیں کر پاتے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے فلم جیسے بڑے بزنس کو بھی تباہ کر دیا ہے،اب فلم میکنگ نہیں ہوتی جس سے فلم سٹوڈیوز اور سینما ہائوسز ویران ہو گئے ہیں۔ طویل عرصے سے فلم انڈسٹری میں فاقوں کا راج ہے۔سوشل میڈیا نے کھیلوں کی سرگرمیوں کو بھی سمارٹ فون تک محدود کر دیا ہے۔تاہم سوشل میڈیا کے بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں۔اب اس کے ذریعے فوری اور بہت ہی آسانی سے دنیا بھر کی بہت سی معلومات گھر بیٹھے حاصل ہو جاتی ہیں۔ان معلومات کا موازنہ اگر قدیم دور سے کریں تو اس وقت معلومات تک رسائی کے لئے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔یہ سہل کام نہیں تھا،اب ایک کلک سے آپ ہر طرح کی معلومات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں،ملکی،سیاسی اور معاشرتی صورت حال سے بھی سوشل میڈیا آپ کو ہر لمحہ باخبر رکھتا ہے،آج کے دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،یہی وجہ ہے کہ روز بروز اس سے وابستہ ہونے اور فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اب اس سے منسلک ہے،جہاں سوشل میڈیا کے مثبت پہلو ہیں وہاں منفی اثرات بھی ہیں۔سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال دماغی صحت کو متاثر کرتا ہے،زیادہ استعمال سے جب آپ سوشل میڈیا پر نظر آنے والی دوسروں کی شاہانہ زندگی سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو صارف میں بے چینی،ڈپریشن یا کم اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو خطرناک صورت حال بھی اختیار کر سکتی ہے،صارف جب اس کا زیادہ استعمال کرتا ہے تو اس کی نیند میں بھی خلل پیدا ہوتا ہے،جب معمول کی نیند میں خلل پڑے تو انسان کی ناصرف مجموعی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ معمولات زندگی پر بھی اس کے گہرے اور برے اثرات ہوتے ہیں،سوشل میڈیا سائبر بدمعاشی کا بھی ایک پلیٹ فارم ہے،یہ غنڈہ گردی یا دوسروں کو ہراساں کرنے کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جس کا شکار کوئی بھی ہو سکتا ہے جس سے پریشانی بڑھ سکتی ہے،پریشانی لاحق ہو جائے تو دماغی صحت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ سوشل میڈیا انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ہے جبکہ آج پوری دنیا میں 97 فیصد لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال معاشرے میں منفی رویوں اور غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی باعث بن رہا ہے۔اس کے بے جا استعمال سے نوجوان طبقہ معاشرتی اور سماجی تعلقات کے فقدان کا بھی شکار ہے۔ لوگ ہر قسم کی معلومات کو سوشل میڈیا سے حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے کتابوں کے مطالعے کا شوق بہت کم ہو گیا ہے۔
سوشل میڈیا کے نقصانات میں ایک چیز یہ بھی ہے کہ بعض لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے غیر اخلاقی و غیر قانونی سرگرمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 19کروڑ سے زیادہ ہے،ملک میں سب سے زیادہ یوٹیوب صارفین ہیں جو سات کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ ہیں-فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ 90لاکھ ہے۔یوٹیوب کے مردصارفین کا تناسب 72 فیصد جبکہ خواتین کا 28 فیصد ہے۔ اسی طرح فیس بک کے صارفین میں 71فیصد مرد اور 22فیصد خواتین شامل ہیں،رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک صارف ایک کروڑ تراسی لاکھ ہیں۔ان میں 82فیصد مرد ٹک ٹاکر ہیں جبکہ خواتین 18فیصد ہیں۔پاکستان میں انسٹا گرام صارفین کی تعداد ایک کروڑ اڑتیس لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔یہ دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔اسے ذمہ داری سے استعمال کرنا بہت اہم ہے۔ دیکھا جائے تو سوشل میڈیا ایک غیر روایتی میڈیا ہے۔سوشل میڈیا نے خبر کی رفتار اور رسائی کے لیے لوگوں کو نئے مواقع فراہم کئے ہیں۔ اب رائے عامہ کی تشکیل میں سوشل میڈیا کا بہت بڑا اور اہم کردار ہے۔ یہ ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس کا ادراک اب ہر کسی کو ہے۔سوشل میڈیا نے بے روزگاری کو بھی کافی حد تک کم کیا ہے۔سوشل میڈیا کی سہولت اب شہروں سے نکل کر ہمارے دیہاتوں تک بھی پہنچ گئی ہے،جہاں اکثریت کے پاس موبائل انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے-جہاں کم پڑھے لکھے افراد کسی بھی موضوع پر مثبت انداز سے ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرتے ہیں اور باآسانی پیسے کما لیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اب ترقی پذیر ملکوں میں بھی سوشل میڈیا رموزِ سیاست میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔سیاسی پارٹیاں اور ان کے رہنما عوام تک اپنا پیغام سوشل میڈیا کے توسط سے باآسانی پہنچا سکتے ہیں اور پہنچا رہے ہیںیہ عوام میں ایک مضبوط اور مئوثر سیاسی بیانیہ بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔سوشل میڈیا نے روایتی سوچ کو شکست دی ہے۔ اظہار رائے کے نئے ٹرینڈ متعارف کرائے ہیں۔ اس پر بہت کم تنقید کی جاتی ہے لیکن حیرت یہ بھی ہے کہ اس کے نقاد بھی اسے ہی استعمال کرتے ہیں۔سوشل میڈیا نے مطالعے کے نئے رجحانات کی ابتدا کی ہے۔ اب سوشل میڈیا پر بہت سی ای بکس دستیاب ہیں جنہیں ہم اپنے مرضی سے،جب چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔سوشل میڈیا کسی بھی موضوع پر ہر وقت آن لائن تعلیم کے ضمن میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔کاروباری تشہیر کے لئے بھی یہ بہت اہم ہے۔سوشل میڈیا ایک مئوثر ذریعہ اظہار ہی نہیں، بہت بڑا ہتھیار بھی ہے۔اس کے ذریعے ہم ان موضوعات پر بات کر سکتے ہیں جن کے بارے میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو آگاہ کرنا ہو۔سوشل میڈیا تفریح کا بھی ذریعہ ہے اور یہ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرتا ہے،کوئی بھی ایجاد بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اصل مسئلہ اس کے اچھے یا برے استعمال کا ہے۔اب یہ ہمیں دیکھنا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال ہم یا ہم سے جڑے لوگ اچھے طریقے سے کرتے ہیں یا اس کے لیے منفی راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہے سوشل میڈیا نے میں سوشل میڈیا ہیں سوشل میڈیا زیادہ استعمال سوشل میڈیا کا سوشل میڈیا کے استعمال کر کی تعداد کرتے ہیں میں بھی کو بھی ہے اور رہا ہے کا بھی
پڑھیں:
ہمارے احتجاج سے قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی،علی امین گنڈاپور
4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے میں یہ ٹارگٹ حاصل کیا، بانی پی ٹی آئی نے یہ ٹارگٹ دیا تھا،وزیراعلیٰ
24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے،گفتگو
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی۔راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا۔انھوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے یہ ٹارگٹ دیا تھا، اور کہا تھا سب کو آنا ہے، 4 اکتوبر کو پشاور سے نکلا، 5 اکتوبر کو ٹارگٹ حاصل کر کے واپس لوٹا تھا۔علی امین گنڈاپور نے کہا کہ 24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، 26 نومبر کو ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے، حکومت نے شکست تسلیم کر کے گولیاں چلائیں۔دریں اثنا وزیر اعلیٰ کے پی نے کہا سوشل میڈیا پر لوگ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، سوشل میڈیا نے الیکشن میں ہمیں بالکل سپورٹ کیا، مجھے لوگوں نے ووٹ سوشل میڈیا پر نہیں پولنگ بوتھ پر جا کر دیٔے انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا کردار ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ سوشل میڈیا نے ہی سب کچھ کیا ہے، بغیر تحقیق کے الزامات لگانا ہماری اخلاقیات کی گراوٹ ہے، جب بانی پی ٹی آئی نے فائنل مارچ کی کال دی تو لوگ کیوں نہ آئے؟ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وی لاگ اور جعلی اکاونٹ بنانے سے آزادی کی جنگ نہیں لڑی جاتی، ان ڈراموں کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی رہا نہیں ہو رہے، گھوڑے ایسے نہیں دوڑائے جاتے ایسے دوڑائے جاتے ہیں۔اس موقع پر علی امین گنڈاپور نے طنزیہ انداز میں ہاتھوں کو ٹیڑھا کر کے گھوڑے دوڑانے کی ترکیب بتائی۔ انکے گھوڑے دوڑانے کے اسٹائل پر پی ٹی آئی اراکین اسمبلی نے قہقہ لگایا۔ انقلاب گھر بیٹھ کر انگلیاں چلانے سے نہیں آتے۔انھوں نے کہا پارٹی کے اندر ایک تناو ہے، گروپ بندیاں چل رہی ہیں، یہ گروپ بندیاں کس نے کی، میں نے نہیں بنائیں، میری گزارش ہے گروپ بندیوں کا حصہ نہ بنیں، کوئی ایک شخص آکر بتائے میں نے کوئی گروپ بندی کی ہو۔وزیراعلیٰ نے کہا کمزور پوزیشن میں مذاکرات ہوتے ہیں نہ کہ جنگ ہوتی ہے، ہمیں کمزور کر کے گروپوں میں بانٹا جا رہا ہے، جلسہ ہے پشاور آئیں کوئی رکاوٹ نہیں، یہ ایسا نہیں کرینگے بس علی امین پر الزامات لگائیں گے۔انھوں نے کہا 5 اور 14 اگست کو کتنے لوگ نکلے؟ صرف باتیں کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک کر نے سے انقلاب نہیں آتے، سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک سے انقلاب آتے ہوتے تو بانی پی ٹی آئی جیل میں نہ ہوتے۔