میٹرک و انٹر کی تعلیمی اسناد کی تصدیق کا آن لائن ڈیجیٹل سسٹم متعارف کروا دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
کراچی:
ملک بھر میں میٹرک و انٹرمیڈیٹ کی اسناد کی تصدیق کرنے والے ادارے آئی بی ای سی (انٹر بورڈ کوآرڈینیشن کمیشن) نے مذکورہ اسناد کی تصدیق کے عمل میں سربمہر لفافوں کے ذریعے بھجوائی گئی اسناد کے عمل کو ختم کردیا ہے اور اس کی جگہ ڈیجیٹلائز سسٹم متعارف کروادیا گیا ہے۔
اس نظام کے تحت ملک بھر کے 29 تعلیمی بورڈ سے میٹرک و انٹرمیڈیٹ کی اسناد کی تصدیق اب دستیاب آن لائن ڈیٹا اور پورٹل شیئرنگ کی بنیاد پر کی جائے گی اور اسی تصدیق کی بنیاد پر طلبہ کے میٹرک و انٹر کی دستاویزات کی کردی جائے گی، یہ نظام 16 فروری سے ملک بھر کے تعلیمی بورڈز اور یہاں سے میٹرک و انٹر کرنے والے طلبہ کے لیے لاگو ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ آئی بی سی سی سے اسناد کی تصدیق بیرون ملک جانے والے طلبہ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر آئی بی سی سی ڈاکٹر غلام علی ملاح نے "ایکسپریس" کو بتایا کہ دستاویزات کی تصدیق کے عمل میں بہتر کارکردگی کے لیے آئی بی سی سی نے یہ قدم اٹھایا ہے اور بورڈز سے اسناد کی تصدیق کے مرحلے میں نمایاں تبدیلی کردی گئی ہے ان کا کہنا تھا کہ اکثر یہ بھی شکایات آتی تھیں کہ امیدوار متعلقہ بورڈ سے تصدیق شدہ دستاویزات کا جو بند لفافہ لے کر آئی بی سی سی آتے تھے معلوم کرنے پر وہ دستاویزات جعلی ثابت ہوتی تھی اور تعلیمی بورڈز اس کی تصدیق نہیں کرتے تھے۔
روایتی طور پر طلبہ کو آئی بی سی سی سے اپنی دستاویزات کی تصدیق کے لئے بورڈ کی طرف سے سیل سربمہر لفافوں میں دستاویزات جمع کرانے کی ضرورت ہوتی تھی، لہٰذا جدیدیت کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے آئی بی سی سی نے اس عمل کو ڈیجیٹلائز کرتے ہوئے سیل لفافوں کی ضرورت کو ختم کردیا ہے۔
واضح رہے کہ جن تعلیمی بورڈز کے پاس پہلے سے ہی اپنے ڈیجیٹل تصدیقی نظام موجود ہیں انہیں APIs کے ذریعے آئی بی سی سی اٹیسٹیشن پورٹل کے ساتھ منسلک کر دیا گیا جس سے تصدیق شدہ ڈیٹا براہ راست آئی بی سی سی پورٹل پر بھیج دیا جائے گا اور طالب علموں کو سیل بند لفافوں میں تصدیق شدہ دستاویزات لانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ایسے بورڈز جو ڈیجیٹل انفراسٹرکچر نہیں رکھتے اور ان کے پاس ڈیٹا آن لائن موجود نہیں ہے ایسے بورڈز کے لیے آئی بی سی سی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک سہولت متعارف کرادی ہے جس سے بورڈ متعلقہ طالب علم کا ڈیٹا براہ راست آئی بی سی سی پورٹل پر اپ لوڈ کر سکتے ہیں جس سے تصدیق کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے یقینی بنایا جاسکے گا۔
آئی بی سی سی نے اعلان کیا ہےکہ 16 فروری 2025 سے بورڈ سے مہر بند لفافے میں تصدیق قبول کرنا بند کردیں گے اس تاریخ کے بعد سے صرف APIs کے ذریعے یا ویب سائٹ پر دی جانے والی سہولت کے ذریعے اپ لوڈ کردہ ڈیٹا کو ہی دستاویز کی تصدیق کے لیے مانا جائے گا۔
اس اقدام سے نہ صرف دستاویزات کی تصدیق کے عمل کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی بلکہ اسے تیز رفتار اور زیادہ موثر بھی بنایا جاسکے گا جبکہ طلباء کے اخراجات بھی کم ہوں گے اور انہیں سفر کی پریشانی بھی نہیں ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسناد کی تصدیق دستاویزات کی میٹرک و انٹر تعلیمی بورڈ کی تصدیق کے کے ذریعے کی ضرورت کے عمل
پڑھیں:
ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں انٹرنیٹ کی ایجاد یقیناً وہ سنگ میل تھا جس کو عبورکرتے ہی بنی نوع انسان نے اپنے لیے نہ صرف کئی سہولتوں کے در وا کر لیے بلکہ لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے کو بھی، گویا پلک جھپکتے طے کر لیا۔
ابتدا میں یہ سہولت صرف ویب کیم کے ذریعے سات سمندر رابطے تک محدود تھی مگر جب فیس بک اور پھر واٹس ایپ کی ایجاد ہوئی تو پھر تو ہفت اقلیم کا خزانہ ہی ہاتھ لگ گیا۔
عزیز و اقارب سے بات چیت، تصاویر کے تبادلے، دور پرے رشتے داروں کو دعوت نامے بھیجنا تو آسان ہوا ہی اب گھر بیٹھے کسی بھی ملک کے علاقے، ثقافت، کھانے، تہذیب و سیاسی حالات الغرض ہر چیز کو جاننا محض ایک اشارے کا محتاج ہوگیا۔
تیزی سے سمٹتی اس دنیا کو مزید قریب آنے کا موقع اس وقت ملا جب کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے۔
اندھا دھند چلتی دنیا کو بریک لگ گئے مگر واحد دنیا جو ابھی بھی رواں دواں تھی وہ انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔ اس وبا نے باقی دنیا کو تو روک دیا مگر انٹرنیٹ کی دنیا کی رفتار مزید بڑھا دی، آن لائن کاروبار تو مزید بڑھا ہی، اب پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان زور پکڑ گیا۔
آن لائن کلاسز جو پہلے صرف کچھ یونیورسٹیز میں ہوتی تھیں، اب گھر، گھر ہونے لگیں کاروباری سرگرمیاں، رقوم کا لین دین، درس و تدریس غرض کئی شعبوں میں آن لائن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا مگر کیا واقعی یہ جادو اپنے ساتھ صرف مثبت تبدیلیاں لایا ہے یا اس نے ہماری زندگی بظاہر آسان اور درحقیقت مشکل بنا دی ہے؟
پاکستان ایک ترقی پذیر اور کئی شعبہ جات میں زوال پذیر ملک ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ کے مصداق ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے ہم نے اپنا تو لیے ہیں مگر ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا نظام ہوگا؟ کسی مسئلے کے نتیجے میں اس کا حل کیا ہوگا؟
اس پر سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ نتیجہ صرف یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارا کام دگنا ہوگیا ہے اور کچھ جگہ ہم شدید نقصانات اٹھا رہے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے پہلی اور سادہ ترین مثال ہے، آن لائن شاپنگ کی جو بے انتہا مقبول اور با سہولت ہے اس نے نہ صرف بڑے بڑے برانڈز کو چار چاند لگا دیے ہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا، ہر چیز میں تنوع مزید بڑھا دیا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا اور مقابلہ بہت سخت ہوگیا۔
آپ ایک چیزکی تلاش کرتے ہیں اور پھر فیس بک اور انسٹا خود آپ کو مزید بزنس پیجز بتانے لگتے ہیں جہاں پر جہاں وہ چیز دستیاب ہے، اس کے علاوہ شاپنگ گروپس بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں، نتیجتا آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت بڑھ گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ بھی عام ہوگیا۔
خریدار تو چیزکے خراب نکلنے رقم ضایع ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہی ہے، مگرکچھ دکاندار بھی پارسل کینسل کرنے اور ڈلیوری چارجز اپنے گلے پڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، بڑے برینڈز کے نام پر اپنے پیجز بنا کر لوٹ مار کرنا بھی آن لائن شاپنگ میں عام ہے۔
ان سارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، فراڈ کرنے والے اپنے پیج پر فالوورز اور اچھے ریویوز بھی خرید لیتے ہیں کسی کی رپورٹ کرنے پر فیس بک ان کا پیج ڈیلیٹ بھی کر دے تو یہ کسی اور نام سے ظاہر ہوجاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود آن لائن شاپنگ کچھ لوگوں کے لیے مجبوری بھی ہے اورکچھ کے لیے تفریح بھی تو اس کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے، البتہ بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔
دوسرا شعبہ تعلیم کا ہے جو اس آن لائن نظام کی بھینٹ چڑھا، آن لائن کلاسز یونیورسٹیز میں تو نئی بات نہیں تھی مگر جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہر گھر میں ہر بچے کے پاس موبائل نظر آنے لگا کہ بھئی پڑھائی، اب آن لائن ہوگی۔
اب وہ الگ بات ہے کہ پڑھائی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، مگر ان بچوں کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی لت لگ گئی جن کو موبائل دینا ہی نہیں چاہیے تھا، پڑھائی کو تو محض بہانہ ہوتا تھا، اصل دلچسپی تو انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں پیدا ہوئی جو چند سنجیدہ طالب علم تھے وہ بھی بروقت بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا شکار ہوئے اور پھر یہی وجہ پڑھائی سے دوری کی بنی،کووڈ کے بعد طلبہ کے لازمی مضامین کے تو پرچے لیے ہی نہیں گئے اور جو اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے، اس میں بھی ان کو رعایتی نمبروں سے پاس کرکے گویا تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ معمول ہے، وہاں آن لائن پڑھائی کا نظریہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر ایک اور نیا شور اٹھا کے اب انٹر کے داخلے بھی آن لائن ہوں گے، یہ سہولت یقینا پوش علاقوں اور بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے تو بہت اچھی ہے مگر پسماندہ علاقے جن میں اکثریت ناخواندہ اورکمپیوٹر کے استعمال سے ہی نابلد ہے داخلے کا یہ طریقہ بہت بڑی درد سری ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سارا عمل آن لائن کروانے کے بعد ساری دستاویزات کی فوٹو کاپی کروا کے بھی جمع کروائی جاتی ہیں یعنی آن لائن داخلے کا محض نام ہے اور اس نام نے صرف کام بڑھایا یا تو آپ آن لائن داخلے کی پخ نہ لگائیں یا پھر مزید دستاویزات جمع کروانے کا عمل نہ کروائیں، یہ شعبہ بھی آن لائن کے نام پر مزید مشکل بنا دیا گیا۔
آن لائن بینکنگ کی بات کریں تو یہ تو اتنا بڑا رسک بن گیا ہے کہ اس کو تو سہولت کہنا ہی غلط ہے بلوں کی ادائیگی، فیسوں کی ادائیگی کسی کو رقم دینے کی حد تک تو یقینا سہولت ہوگئی ہے، مگر اس کے بعد جو اسکیم اور جعل سازی کر کے لوٹ مار کر ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوا ہے، اس نے آن لائن بینکنگ کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
آئے دن کوئی نہ کوئی فراڈ منظر عام پر آجاتا ہے مگر اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ کسی جعلسازی سے اگر آپ کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی تو بہت مشکل ہے کہ بینک اس کو واپس دلوا سکے، ان تمام مسائل اور خامیوں کے باوجود ہم آن لائن نظام استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر ہمارے پاس کوئی دوسرا حل موجود ہی نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی نظام آن لائن کرنے سے پہلے اس کے سقم دور اور ممکنہ مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو ہر شعبے میں محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔