دین و عقل اور دشمن سے مذاکرات
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ تو عقلمندانہ ہیں اور نہ ہی شرافتمندانہ، کیونکہ یہ اقدام نہ صرف عقل اور ماضی کے تجربات کے خلاف ہے بلکہ دینی تعلیمات اور بزرگان دین کی نصیحتوں کے بھی منافی عمل ہے۔ زور زبردستی کے خلاف ڈٹ جانا نہ صرف ایک قومی فریضہ ہے بلکہ ایک دینی ذمہ داری بھی ہے جس پر قرآن اور حضرات اہل بیت علیہم السلام ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
رہبر معظم انقلاب اسلامی، حضرت آیت الله سید علی خامنہای نے فضائیہ اور فضائی دفاع کے کمانڈروں کے ساتھ حالیہ ملاقات میں ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے پر زور دیتے ہوئے اس اقدام کو غیر ہوشمندانہ، غیر عقلانہ اور غیر شرافتمندانہ قرار دیا ہے۔ یہ تعبیر ان حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہے جو دہائیوں سے امریکہ کے ایران اور آزاد قوموں کے خلاف مخاصمانہ رویے کے دوران سامنے آئی ہیں۔ عقلی، تجرباتی اور دینی لحاظ سے اس نوعیت کے دشمن سے مذاکرات غیر منطقی ہونیکی کئی وجوہات ہیں۔
سب سے پہلے سیاسی بصیرت یہ کہتی ہے کہ مذاکرات اس وقت معقول ہوتے ہیں جب دونوں فریق منصفانہ اور عادلانہ تعامل کی تلاش میں ہوں، لیکن امریکہ نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ اس کا رویہ استکباری ہے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل خواہاں نہیں بلکہ اپنی مرضی کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایٹمی معاہدے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رسمی معاہدے کے بعد بھی، واشنگٹن نے اپنی کسی بھی ذمہ داری پر عمل نہیں کیا اور اسی دوران پابندیاں بڑھا دیں۔ لہذا، اس تجربے کو دہرانا نہ صرف ہوشمندانہ نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی سیاسی سادگی بھی ہے۔
دوسرے یہ کہ قومی شرافت کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ایسے فریق کے ساتھ مذاکرات کرنا جو آپ کے ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھیار استعمال کرتا ہے، ظلم کو قبول کرنے اور تحقیر کے سامنے جھکنے کے مترادف ہے۔ وسیع اقتصادی پابندیاں، دہشت گرد گروہوں کی حمایت، داخلی فتنے میں امریکی کردار اور ایٹمی سائنسدانوں کا قتل، امریکہ کے دشمنی پر مبنی اقدامات ہیں۔ ایسے ملک کے ساتھ مذاکرات کرنا، بغیر کسی مضبوط ضمانت کے، ان شہیدوں کے خون کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے جنہوں نے ایران کی عزت اور خودمختاری کے راستے میں اپنی جانیں قربان کیں۔
اسی طرح دینی اور شرعی لحآظ سے بھی خداوند متعال کا کلام، قرآن کریم بار بار دشمنوں پر اعتماد نہ کرنے کی تنبیہ کرتا ہے، سورۃ بقرہ کی آیت 100 میں آیا ہے: «أَوَ كُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِیقٌ مِّنْهُم»؛ یعنی «کیا ہر بار جب انہوں نے عہد کیا، ان میں سے ایک گروہ نے اسے توڑ دیا؟»، یہ آیت واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ اسلام کے دیرینہ دشمن اپنے عہدوں پر قائم نہیں رہتے، اسی بنیاد پر، حضرت امیرالمؤمنین امام علی بن ابی طالب علیہ السّلام بھی اپنے خط میں مالک اشتر کو تاکید کرتے ہیں؛ «الحَذَرَ كُلَّ الحَذَرِ مِن مُقارَبَةِ عَدُوِّكَ فِی طَلَبِ الصُّلْحِ»؛ یعنی «اپنے دشمن کے ساتھ صلح کے لیے قریب ہونے سے سختی سے بچو۔»، ایسے اسباق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بغیر مضبوط ضمانتوں کے مذاکرات کرنا، حکمت اور دور اندیشی کے منافی اقدام ہے۔
تاریخی تجربات سے بھی ثابت ہے کہ وہ ممالک جو امریکہ پر اعتماد کرتے ہیں، ان کا انجام خوشگوار نہیں رہا، عراق، لیبیا اور افغانستان کی مثالیں اس بات کی گواہ ہیں۔ ان ممالک میں، امریکہ نے ابتدا میں مذاکرات اور تعامل کے نعرے کے ساتھ قدم رکھا، لیکن آخرکار، ان کے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے کو تباہی کی طرف لے گیا۔ یہ تجربات واضح طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے کسی حکومت پر اعتماد کرنا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے جو قومی نقصان کا باعث بن سکتا ہے، نیز امریکہ نے مذاکرات کی پیشکش مسلسل اس مقصد کے ساتھ کی ہے کہ وہ اپنی مرضی مسلط کرے اور اسلامی جمہوریہ کی خود مختاری کی شناخت کو تبدیل کرے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکہ ایران سے نہ صرف ایک محدود معاہدہ، بلکہ علاقائی، فوجی اور حتیٰ کہ ثقافتی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے، یہ مطالبات عام مذاکرات سے ماورا مقاصد ہیں اور عملاً ایک قوم کے کسی بھی استکباری طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف ہیں، ایسے حالات میں، مذاکرات قبول کرنا نہ صرف ایک شرافتمندانہ عمل نہیں ہوگا، بلکہ بے عملی اور دشمن کے سامنے کمزوری کی علامت ہونگے۔
رہبر انقلاب اس حقیقت پر بھی زور دیتے ہیں کہ مذاکرات تب ہی نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جب یہ عزت اور وقار کے ساتھ ہوں، جبکہ امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ پابندیوں اور دباؤ کے ہتھیار کو مذاکرات کے لیے استعمال کرے۔ ایسی حالت میں کوئی بھی گفتگو، طاقت کے زور کی منطق کو قبول کرنے کے مترادف ہوگی۔ اس لیے، داخلی صلاحیتوں، مزاحمتی معیشت اور علاقائی حیثیت پر انحصار کرنا، اس دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے سے زیادہ عقلمندانہ حکمت عملی ہے، جس کا مقصد تعامل نہیں بلکہ تسلیم ہے۔
مجموعی طور پر، جیسا کہ رہبر انقلاب نے اشارہ کیا، امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ تو عقلمندانہ ہیں اور نہ ہی شرافتمندانہ، کیونکہ یہ اقدام نہ صرف عقل اور ماضی کے تجربات کے خلاف ہے بلکہ دینی تعلیمات اور بزرگان دین کی نصیحتوں کے بھی منافی عمل ہے۔ زور زبردستی کے خلاف ڈٹ جانا نہ صرف ایک قومی فریضہ ہے بلکہ ایک دینی ذمہ داری بھی ہے جس پر قرآن اور حضرات اہل بیت علیہم السلام ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے ساتھ مذاکرات نہ صرف ایک کے مترادف امریکہ کے زور دیتے کرتے ہیں کے خلاف کرتا ہے
پڑھیں:
مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
بہاولپور(نامہ نگار)25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔
اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔
استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔
پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔
ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔
افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔
معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔
افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔