Islam Times:
2025-07-26@14:51:20 GMT

دین و عقل اور دشمن سے مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

دین و عقل اور دشمن سے مذاکرات

اسلام ٹائمز: امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ تو عقلمندانہ ہیں اور نہ ہی شرافتمندانہ، کیونکہ یہ اقدام نہ صرف عقل اور ماضی کے تجربات کے خلاف ہے بلکہ دینی تعلیمات اور بزرگان دین کی نصیحتوں کے بھی منافی عمل ہے۔ زور زبردستی کے خلاف ڈٹ جانا نہ صرف ایک قومی فریضہ ہے بلکہ ایک دینی ذمہ داری بھی ہے جس پر قرآن اور حضرات اہل بیت علیہم السلام ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

رہبر معظم انقلاب اسلامی، حضرت آیت‌ الله سید علی خامنہ‌ای نے  فضائیہ اور فضائی دفاع کے کمانڈروں کے ساتھ حالیہ ملاقات میں ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے پر زور دیتے ہوئے اس اقدام کو غیر ہوشمندانہ، غیر عقلانہ اور غیر شرافتمندانہ قرار دیا ہے۔ یہ تعبیر ان حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہے جو دہائیوں سے امریکہ کے ایران اور آزاد قوموں کے خلاف مخاصمانہ رویے کے دوران سامنے آئی ہیں۔ عقلی، تجرباتی اور دینی لحاظ سے اس نوعیت کے دشمن سے مذاکرات غیر منطقی ہونیکی کئی وجوہات ہیں۔

سب سے پہلے سیاسی بصیرت یہ کہتی ہے کہ مذاکرات اس وقت معقول ہوتے ہیں جب دونوں فریق منصفانہ اور عادلانہ تعامل کی تلاش میں ہوں، لیکن امریکہ نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ اس کا رویہ استکباری ہے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل خواہاں نہیں بلکہ اپنی مرضی کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایٹمی معاہدے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رسمی معاہدے کے بعد بھی، واشنگٹن نے اپنی کسی بھی ذمہ داری پر عمل نہیں کیا اور اسی دوران پابندیاں بڑھا دیں۔ لہذا، اس تجربے کو دہرانا نہ صرف ہوشمندانہ نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی سیاسی سادگی بھی ہے۔

دوسرے یہ کہ قومی شرافت کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ایسے فریق کے ساتھ مذاکرات کرنا جو آپ کے ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھیار استعمال کرتا ہے، ظلم کو قبول کرنے اور تحقیر کے سامنے جھکنے کے مترادف ہے۔ وسیع اقتصادی پابندیاں، دہشت گرد گروہوں کی حمایت، داخلی فتنے میں امریکی کردار اور ایٹمی سائنسدانوں کا قتل، امریکہ کے دشمنی پر مبنی اقدامات ہیں۔ ایسے ملک کے ساتھ مذاکرات کرنا، بغیر کسی مضبوط ضمانت کے، ان شہیدوں کے خون کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے جنہوں نے ایران کی عزت اور خودمختاری کے راستے میں اپنی جانیں قربان کیں۔

اسی طرح دینی اور شرعی لحآظ سے بھی خداوند متعال کا کلام، قرآن کریم بار بار دشمنوں پر اعتماد نہ کرنے کی تنبیہ کرتا ہے، سورۃ بقرہ کی آیت 100 میں آیا ہے: «أَوَ كُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِیقٌ مِّنْهُم»؛ یعنی «کیا ہر بار جب انہوں نے عہد کیا، ان میں سے ایک گروہ نے اسے توڑ دیا؟»، یہ آیت واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ اسلام کے دیرینہ دشمن اپنے عہدوں پر قائم نہیں رہتے، اسی بنیاد پر، حضرت امیرالمؤمنین امام علی بن ابی طالب علیہ السّلام بھی اپنے خط میں مالک اشتر کو تاکید کرتے ہیں؛ «الحَذَرَ كُلَّ الحَذَرِ مِن مُقارَبَةِ عَدُوِّكَ فِی طَلَبِ الصُّلْحِ»؛ یعنی «اپنے دشمن کے ساتھ صلح کے لیے قریب ہونے سے سختی سے بچو۔»، ایسے اسباق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بغیر مضبوط ضمانتوں کے مذاکرات کرنا، حکمت اور دور اندیشی کے منافی اقدام ہے۔

تاریخی تجربات سے بھی ثابت ہے کہ وہ ممالک جو امریکہ پر اعتماد کرتے ہیں، ان کا انجام خوشگوار نہیں رہا، عراق، لیبیا اور افغانستان کی مثالیں اس بات کی گواہ ہیں۔ ان ممالک میں، امریکہ نے ابتدا میں مذاکرات اور تعامل کے نعرے کے ساتھ قدم رکھا، لیکن آخرکار، ان کے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے کو تباہی کی طرف لے گیا۔ یہ تجربات واضح طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے کسی حکومت پر اعتماد کرنا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے جو قومی نقصان کا باعث بن سکتا ہے، نیز امریکہ نے مذاکرات کی پیشکش مسلسل اس مقصد کے ساتھ کی ہے کہ وہ اپنی مرضی مسلط کرے اور اسلامی جمہوریہ کی خود مختاری کی شناخت کو تبدیل کرے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکہ ایران سے نہ صرف ایک محدود معاہدہ، بلکہ علاقائی، فوجی اور حتیٰ کہ ثقافتی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے، یہ مطالبات عام مذاکرات سے ماورا مقاصد ہیں اور عملاً ایک قوم کے کسی بھی استکباری طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف ہیں، ایسے حالات میں، مذاکرات قبول کرنا نہ صرف ایک شرافتمندانہ عمل نہیں ہوگا، بلکہ بے عملی اور دشمن کے سامنے کمزوری کی علامت ہونگے۔

رہبر انقلاب اس حقیقت پر بھی زور دیتے ہیں کہ مذاکرات تب ہی نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جب یہ عزت اور وقار کے ساتھ ہوں، جبکہ امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ پابندیوں اور دباؤ کے ہتھیار کو مذاکرات کے لیے استعمال کرے۔ ایسی حالت میں کوئی بھی گفتگو، طاقت کے زور کی منطق کو قبول کرنے کے مترادف ہوگی۔ اس لیے، داخلی صلاحیتوں، مزاحمتی معیشت اور علاقائی حیثیت پر انحصار کرنا، اس دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے سے زیادہ عقلمندانہ حکمت عملی ہے، جس کا مقصد تعامل نہیں بلکہ تسلیم ہے۔

مجموعی طور پر، جیسا کہ رہبر انقلاب نے اشارہ کیا، امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ تو عقلمندانہ ہیں اور نہ ہی شرافتمندانہ، کیونکہ یہ اقدام نہ صرف عقل اور ماضی کے تجربات کے خلاف ہے بلکہ دینی تعلیمات اور بزرگان دین کی نصیحتوں کے بھی منافی عمل ہے۔ زور زبردستی کے خلاف ڈٹ جانا نہ صرف ایک قومی فریضہ ہے بلکہ ایک دینی ذمہ داری بھی ہے جس پر قرآن اور حضرات اہل بیت علیہم السلام ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے ساتھ مذاکرات نہ صرف ایک کے مترادف امریکہ کے زور دیتے کرتے ہیں کے خلاف کرتا ہے

پڑھیں:

یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات ’تعمیری‘ رہے، ایران

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) ایرانی سفارتکاروں کے مطابق جمعے کے روز یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاملات پر''کھلے اور تفصیلی‘‘ مذاکرات ہوئے۔ یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ تہران کے ساتھ یورنیم کی افزودگی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے ساتھ مزید تعاون سے متعلق پیش رفت ہو۔ یورپی طاقتیںمتنبہ کر چکی ہیں کہ اگر ایران کسی معاہدے تک نہیں پہنچتا تو اس کے خلاف سخت پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔

مذاکرات کا یہ تازہ دور استنبول میں ہوا۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی فوجی اور جوہری اہداف پر حملوں اور امریکی بمبار طیاروں کے تین اہم ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کے بعد یہ پہلے جوہری مذاکرات تھے۔

یہ بات اہم ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں میں اعلیٰ ایرانی کمانڈرز، جوہری سائنس دان اور دیگر سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، جب کہ متعدد رہائشی اور عسکری علاقے بھی فضائی کارروائیوں کا ہدف بنے۔

(جاری ہے)

ان حملوں نے اپریل میں امریکہ اور ایران کے درمیان مجوزہ جوہری مذاکرات کو بھی متاثر کیا۔

ای تھری کہلانے والی تین یورپی طاقتیں یعنی فرانس، جرمنی اور برطانیہ 2015 کے غیر فعال ہو چکے جوہری معاہدے کے احیاء کی کوشش میں ہیں۔ یورپی حکام کے مطابق اگر ایران جوہری معاہدے پر متفق نہیں ہوتا تو اس کے خلاف سخت پابندیوں کا ''اسنیپ بیک میکنزم‘‘ فعال ہو جائے گا۔

یورپی ذرائع کے مطابق یہ میکنزم اگست کے آخر تک فعال ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب تہران نے خبردار کیاہے کہ اگر یورپی ممالک اس میکنزم کو فعال کرتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

جوہری مذاکرات کے اس تازہ دور میں ایرانی وفد میں سینیئر مذاکرات کار مجید تخت روانچی کے ہمراہ نائب ایرانی وزیرخارجہ کاظم غریب آبادی بھی شریک تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں انہوں نے ایران پر اسرائیلی حملوں کے حوالے سے یورپی موقف پر تنقید کی اور اسنیپ بیک میکنزم (پابندیوں کے نفاز کا طریقہ کار) کے یورپی انتباہ کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا گیا۔

ان مذاکرات میں جوہری بات چیت کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ان مذاکرات سے قبل ایک یورپی ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ متفقہ حل پر عدم اتفاق کی صورت میں یہ تینوں یورپی ممالک پابندیوں کی بحالی کے میکنزم کو فعال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یورپی ذرائع کے مطابق یورپی وفد ایران سے یورینیم کی افزودگی اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے سے سے تعاون دوبارہ شروع کرنے کے لیے واضح اشاروں کا مطالبہ کر رہا ہے۔

ادارت: شکور رحیم

متعلقہ مضامین

  • یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات ’تعمیری‘ رہے، ایران
  • امریکہ کو الزام تراشی بند کرنی چاہیے اور یوکرین امن مذاکرات کو فروغ دینا چاہیے ، چین
  • ٹرمپ کٰساتھ مودی کی دوستی کھوکھلی ثابت ہو رہی ہے، کانگریس
  • امریکہ کے ساتھ مذاکرات؟ رہبرِ معظم کا سخت انتباہ!
  • پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے، اسحاق ڈار
  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • عمران خان کے بیٹے امریکہ گئے نہیں بلکہ فیلڈ مارشل کے لنچ کے بعد بلائے گئے ہیں : حیدر نقوی 
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں: اسد
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود
  • پاکستان بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار، شہباز شریف