Nawaiwaqt:
2025-09-18@12:23:06 GMT

قوم کے حق میں تباہ کن فتنے!

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

قوم کے حق میں تباہ کن فتنے!

آج کل ایک خاص بات جو بری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہوگئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کردیا ہے۔ اگر جبر کی حالت میں نہ بولنے والے کو بھی اپنے اس گمان کا ثواب پہنچتا ہے کہ جبر نہ ہوتا تو میں ضرور بولتا، تو پھر جو لوگ اختیار پاکر بولنے کے بہ جائے گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں ان کی کچھ سزا بھی ہونی چاہیے۔گزشتہ دنوں بہت اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔ پر انہیں بڑے معاندانہ جذبے کے ساتھ سنا گیا ہے۔ بہت سے نیک جذبے بھی معرض اظہار میں آئے ہیں۔ پر ان کے باب میں بڑی بدنیتی اور بد طینتی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ قوم میں کچھ اور بیداری پیدا ہوگئی ہے اور اپنے حق کا شعور بھی پہلے سے کچھ زیادہ ہے، پر ایسے لوگوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں جو اپنے درد مندوں کی بات سن کر بھڑک اٹھتے ہیں اور اپنے حق میں بولنے والوں کو اپنی برہمی کا ہدف بناتے ہیں۔سیاست کی دنیا میں فتویٰ فروشی کا بازار گرم ہے۔ اب ہر وہ شخص جہنمی ہے جو عوام کے حق کی بات کرتا ہو۔ جماعتیں اور جمعیتیں قوم کو جمع کرنے کے بجائے اس میں تفرقہ ڈال رہی ہیں۔ دلوں میں نفرتیں بٹھائی جارہی ہیں اور محبت کو درمیان سے اٹھا دیا گیا ہے۔ اس طرح ایک عجیب بد دلی اور دل برداشتگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ اتنی لغو اور بے معنی بولیاں بولی گئی ہیں کہ سننے والوں نے تنگ آکر سننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہے اس سیاست کی دین جو زمین و آسمان کے سارے دکھوں کو دور کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ حق یہ ہے کہ قوم اپنے حق ناشناس راہ نماؤں سے عاجز آچکی ہے۔مقاماتِ ہدایات و ارشاد میں یہ فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنے دور میں نہیں بلکہ اپنے دور سے پہلے کے دور میں رہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ جو اپنے زمانے کی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں وہ نابکار اور گناہ گار ہیں۔ حال کو ماضی کی صلیب پر چڑھانے کا یہ شوق بڑے گہرے معنی رکھتا ہے۔

ہر نسل اپنے زمانے میں پیدا ہوتی ہے اور اپنے زمانے میں ہی سانس لے سکتی ہے۔ ہر دور کا اپنا ایک رمز ہوتا ہے، جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس کا اپنا ایک رمز ہے، جو اس رمز سے انکاری ہے۔ وہ خود بھی ہلاکت میں پڑیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے۔ تاریخ کے نظام قضا و قدر کو جھٹلانا امتوں اور ملّتوں کو کبھی راس نہیں آیا۔ یہ وہ مسخری ہے، جو تاریخ کی کبریائی نے کبھی برداشت نہیں کی۔

اختلاف کرنے والوں کو اس امر پر تو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے زمانے میں نہیں اپنے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں اور اگر ہم اپنے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تو پھر مژدہ ہوکہ ہم پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پچھلی نسلیں اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر اپنے دن گزار گئیں۔ ہمیں اپنا بوجھ اٹھانا ہے اور ان کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔مشکل یہ ہے کہ اس نسل کے بعض آسمان نژاد راہ نما اس کی موجودگی ہی کے قائل نہیں ہیں۔ وہ محلّ خطاب میں اس ہجوم کی طرف سے منہ موڑے کھڑے ہیں، جو ان کے سامنے موجود ہیں اور اس کارواں کی گرد سے مخاطب ہیں، جو کبھی کا گزر چکا ہے۔پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا ہے۔ یہ لوگ تو آدھے سچ کی بھی تاب نہیں رکھتے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں وہ بات بھی سخت گراں گزرتی ہے جو سچ سے کچھ مشابہت رکھتی ہو۔ لوگوں کو ان کے حقوق اور ان کے حقیقی مسئلوں سے بے خبر رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور نہ جانے کیا چاہا جا رہا ہے۔اس قوم کو ایک ایسی فضا درکار ہے جس میں حقیقتوں کے طور پر برتا جائے۔ یہ فضا اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے، جب حق طلبی کے ساتھ سوچا جائے، چلایا نہ جائے اور لوگوں کی نیتوں پر حملے نہ کیے جائیں۔ یہ بڑی الم ناک بات ہے کہ لوگ اپنے آپ کو ’سند‘ قرار دے کر دوسروں کی ہر بات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ پر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ انداز قوم کے حق میں تباہ کن فتنوں کا سبب بن سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: اپنے زمانے میں اور اپنے ہیں اور گیا ہے ہے اور

پڑھیں:

وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست

سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔

 اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔

انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔

سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔

متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔

پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

 خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مصر کے میوزیم سے 3 ہزار سال قدیم فرعون کے زمانے کا سونے کا کڑا غائب
  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • چھ طیارے تباہ، جنگ ہاری، اب کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے: وزیر اطلاعات
  • 6طیارے تباہ کروانے اور جنگ ہارنےکےبعد کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے،عطاتارڑ
  • وزیرِاعظم کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ، اسرائیل کی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال