WE News:
2025-09-18@17:15:08 GMT

فیصلہ آپ کو آج ہی کرنا ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

پاکستانی عوام اس وقت 2 قسم کی سوچوں میں منقسم ہیں۔ ایک طرف انتشار کی آواز ہے اور دوسری جانب امن کا پیغام ہے۔ ایک طرف ایک شخص کی  انا کا پہاڑ ہے اور دوسری جانب ریاست اور  سرکار ہے۔ ان 2 سوچوں میں بہت سے لوگ پس رہے ہیں۔ بہت سا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اہم بات یہ نہیں کہ یہ 2 سوچیں کیا ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر آپ کس سوچ کے ساتھ کھڑے ہیں؟

ایک سال بیت گیا الیکشن کو۔ لیکن فارم 47 والا احتجاج  تھم نہیں رہا۔ پنجاب  اور وفاق بہت آگے چلا گیا مگر خیبر پختونخوا میں وقت احتجاج در احتجاج پر منجمد ہو چکا ہے۔ وہاں کی قیادت یہ سوچتی ہی نہیں کہ لوگوں کو فلاح کیسے دینی ہے؟ عوام کی خدمت کیسے کرنی ہے؟ ترقی کا پہیہ کیسے چلانا ہے؟ صحت اور تعلیم کی سہولیات کس طرح بہم پہنچانی ہیں؟ انفراسٹرکچر کس طرح بنانا ہے؟

خیبر پختونخوا کی موجودہ قیادت ایک شخص کی ضد پر سارا صوبہ تباہ کرنے پر تلی ہے۔ اس صوبے کے عوام کا مستقبل پاؤں تلے روندنے کا ارادہ رکھتی ہے۔  خود ہی بتائیں کہ گزشتہ ایک سال  میں خیبر پختونخوا میں ترقی کا کوئی کام ہوا؟ کوئی سڑک بنی یا کسی یونیورسٹی کا افتتاح ہوا؟ کسی ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا؟

خیبر پختونخوا کے عوام کو ایک سال میں  صرف یہ بتایا گیا کہ تم نے احتجاج کرنا ہے، تم نے ڈنڈے کھانے ہیں، تم نے لاٹھیوں کا سامنا کرنا ہے، تم نے ہر شئے کو آگ لگانی ہے۔ تم نے گولیاں کھانی ہیں اور ایک شخص کے ذاتی مفاد کی خاطر خود کو قربان کر دینا ہے۔

خیبر پختونخوا کے لوگ باشعور بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن جب وہاں کے حکمران عوام کو ایک احتجاجی مہرے  کی طرح استعمال کریں گے تو وہ اب  زیادہ دیر بے وقوف نہیں بنیں گے۔ عمران خان نے اس صوبے کے عوام اور خزانے کو جس بے دردی سے استعمال کیا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔

صوابی جلسہ اس بات کا غماز ہے۔ اب لوگ تھک چکے ہیں۔ انہیں اب اس احتجاج سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ انہیں ادراک ہو رہا ہے کہ ان کو صرف استعمال کیا جا رہا ہے۔ تب ہی تو اب عوام نہیں نکلتے۔ البتہ ٹوئیٹر اور یوٹیوب پر انقلاب بھرپور طریقے سے لایا جا رہا ہے۔ معصوم لوگوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ جو یو ٹیوب پر انقلاب لارہے ہیں وہ آپ کی حماقت سے کروڑوں کما رہے ہیں۔ ان کی آمدنی کا وسیلہ آپ اور آپ کی معصومیت ہے۔ یہ اپنے ڈالروں کے لیے آپ کو ورغلاتے ہیں۔ فیک نیوز پھیلاتے ہیں۔ انتشار پیدا کرتے ہیں۔ لڑائی مار کٹائی پر مجبور کرتے ہیں۔ ریاست کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں۔ عوام کو اب سمجھنا چاہیے۔ نہ ان کا مقصد انقلاب ہے نہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا ان کا نظریہ ہے اور نہ ہی یہ اس ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ان کا دھندا جھوٹ کا دھندا ہے۔ فریب کا کاروبار ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ عوام میں مایوسی بانٹتے ہیں اور خود اس کام کے عوض ڈالر بٹورتے ہیں۔

پنجاب بھی اس ملک کا صوبہ ہے۔ عثمان بزدار کے دور میں لوگ اس صوبے کی طرف ترس بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور آج کل حسد بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔  ایک سال میں پنجاب بدل گیا ہے۔ مریم نواز نے نواز شریف کی بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ سارا صوبہ ہی تبدیل کر دیا۔ ہر گوشہ جگمگ کر رہا ہے۔ اصلاحات ہو رہی ہیں۔ نت نئے منصوبے تخلیق  کیے جا رہے ہیں۔ عوام کے مسائل پر توجہ کی جا رہی ہے۔ انٹرنیشنل میچز ہو رہے ہیں۔ سٹیڈیم رنگ و نور سے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پر نوجوان رقص کر رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر خوشیاں ہیں، امیدیں ہیں۔

یہ خوشیاں اور امیدیں صرف پنجاب کا حق نہیں ہر صوبہ اس طرح روشن ہونا چاہیے، ہر جگہ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ ملنے چاہئیں۔ ہر گوشے کو منور ہونا چاہیے۔ لیکن بدقستی سے خیبر پختونخوا کے عوام اس روشنی سے محروم ہیں۔ ان کی حکومت صرف گالی اور گولی کا سبق دیتی ہے، تشدد اور احتجاج کا پیغام دیتی ہے، مارنے اور مرنے کی باتیں کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام اس سے کہیں بہتر کے حق دار ہیں لیکن کون ہے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے؟

ایک سال گزر گیا، وفاق بھی بہت بدل گیا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ ملک سری لنکا بن جائے گا وہ اب خاموش ہو چکے ہیں، وہ جو کہتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا، اب ان کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ وہ جو آئی ایم ایف کو شکایتیں لگاتے تھے اب چپ ہو چکے ہیں۔ وہ جو کہتے تھے کہ بیرون ملک پاکستانی اس حکومت کو ایک دھیلا بھی نہیں بھیجیں گے، ان کے لب سل چکے ہیں، ان کی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے اور ان کا بیانیہ فوت ہو چکا ہے۔

شہباز شریف حکومت کی تعریف نہ کریں تو زیادتی ہے۔اس نے جب حکومت کو سنبھالا تھا اس وقت معیشت کی کشتی ڈول رہی تھی۔ بجلی کے بل سوہان روح بنے ہوئے تھے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ معیشت ایک سال میں درست نہیں ہوتی لیکن سفر کی درست سمت اور رفتار  سے منزل کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس ایک سال کے قلیل عرصے میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوئی، سٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں کرنے لگی، آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا، شرح سود میں بتدریج کمی ہوئی۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا۔ دوست ممالک سے اچھے تعلقات استوار ہوئے۔ روزگار کے مواقع کی سبیل نکل رہی ہے۔

شہباز حکومت نے ایک سال میں معاشی سطح پر بہت سی حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ ہم سمجھیں کہ  مشکل وقت گزرتا جا رہا ہے اور اگر یہ حکومت چلتی رہی تو ہر آنے والے سال میں عوام کو مزید فلاح نصیب ہو گی۔ ملک عزیز کو مزید ترقی ملے گی۔

ابتدا میں ذکر ہوا تھا کہ پاکستان کے عوام دو طرح کی سوچوں میں منقسم ہیں۔ اس تقسیم میں سب سے اہم فیصلہ آپ کا ہے۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے۔ اس وقت فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور یہ فیصلہ آپ کو آج ہی کرنا ہے کہ اپنی آنے والی نسل کے ہاتھ میں آپ ڈگری تھماتے ہیں یا ڈنڈا۔ ان کو ریاست سے بغاوت کا درس دیتے ہیں یا وطن سے محبت کا اسلوب سکھاتے ہیں۔ ان کو تنزلی میں دھکیلنا چاہتے ہیں یا ترقی کی راہیں دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے اور آج ہی کرنا ہے۔ وقت گزرتا جا رہا ہے اور آنے والی نسل آپ کے فیصلے کی منتظر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم شہباز شریف عمار مسعود.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم شہباز شریف خیبر پختونخوا کے ایک سال میں چاہتے ہیں جا رہا ہے فیصلہ آپ عوام کو کے عوام کرنا ہے چکے ہیں رہے ہیں ہے اور

پڑھیں:

کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-6

 

میر بابر مشتاق

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…

کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔

صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔

کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتائیں وہ کام کر رہا ہو جو اس کو کرنا چاہیے، جسٹس محسن اخترکیانی
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں مقصد عمران خان کو آئسولیٹ کرنا ہے، علیمہ خان
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
  • حکومت کا توشہ خانہ میں جمع تحائف کا مکمل ریکارڈ عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری
  • قطر پر حملہ؛ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے،اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور