پاکستانی عوام اس وقت 2 قسم کی سوچوں میں منقسم ہیں۔ ایک طرف انتشار کی آواز ہے اور دوسری جانب امن کا پیغام ہے۔ ایک طرف ایک شخص کی انا کا پہاڑ ہے اور دوسری جانب ریاست اور سرکار ہے۔ ان 2 سوچوں میں بہت سے لوگ پس رہے ہیں۔ بہت سا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اہم بات یہ نہیں کہ یہ 2 سوچیں کیا ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر آپ کس سوچ کے ساتھ کھڑے ہیں؟
ایک سال بیت گیا الیکشن کو۔ لیکن فارم 47 والا احتجاج تھم نہیں رہا۔ پنجاب اور وفاق بہت آگے چلا گیا مگر خیبر پختونخوا میں وقت احتجاج در احتجاج پر منجمد ہو چکا ہے۔ وہاں کی قیادت یہ سوچتی ہی نہیں کہ لوگوں کو فلاح کیسے دینی ہے؟ عوام کی خدمت کیسے کرنی ہے؟ ترقی کا پہیہ کیسے چلانا ہے؟ صحت اور تعلیم کی سہولیات کس طرح بہم پہنچانی ہیں؟ انفراسٹرکچر کس طرح بنانا ہے؟
خیبر پختونخوا کی موجودہ قیادت ایک شخص کی ضد پر سارا صوبہ تباہ کرنے پر تلی ہے۔ اس صوبے کے عوام کا مستقبل پاؤں تلے روندنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ خود ہی بتائیں کہ گزشتہ ایک سال میں خیبر پختونخوا میں ترقی کا کوئی کام ہوا؟ کوئی سڑک بنی یا کسی یونیورسٹی کا افتتاح ہوا؟ کسی ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا؟
خیبر پختونخوا کے عوام کو ایک سال میں صرف یہ بتایا گیا کہ تم نے احتجاج کرنا ہے، تم نے ڈنڈے کھانے ہیں، تم نے لاٹھیوں کا سامنا کرنا ہے، تم نے ہر شئے کو آگ لگانی ہے۔ تم نے گولیاں کھانی ہیں اور ایک شخص کے ذاتی مفاد کی خاطر خود کو قربان کر دینا ہے۔
خیبر پختونخوا کے لوگ باشعور بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن جب وہاں کے حکمران عوام کو ایک احتجاجی مہرے کی طرح استعمال کریں گے تو وہ اب زیادہ دیر بے وقوف نہیں بنیں گے۔ عمران خان نے اس صوبے کے عوام اور خزانے کو جس بے دردی سے استعمال کیا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔
صوابی جلسہ اس بات کا غماز ہے۔ اب لوگ تھک چکے ہیں۔ انہیں اب اس احتجاج سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ انہیں ادراک ہو رہا ہے کہ ان کو صرف استعمال کیا جا رہا ہے۔ تب ہی تو اب عوام نہیں نکلتے۔ البتہ ٹوئیٹر اور یوٹیوب پر انقلاب بھرپور طریقے سے لایا جا رہا ہے۔ معصوم لوگوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ جو یو ٹیوب پر انقلاب لارہے ہیں وہ آپ کی حماقت سے کروڑوں کما رہے ہیں۔ ان کی آمدنی کا وسیلہ آپ اور آپ کی معصومیت ہے۔ یہ اپنے ڈالروں کے لیے آپ کو ورغلاتے ہیں۔ فیک نیوز پھیلاتے ہیں۔ انتشار پیدا کرتے ہیں۔ لڑائی مار کٹائی پر مجبور کرتے ہیں۔ ریاست کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں۔ عوام کو اب سمجھنا چاہیے۔ نہ ان کا مقصد انقلاب ہے نہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا ان کا نظریہ ہے اور نہ ہی یہ اس ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ان کا دھندا جھوٹ کا دھندا ہے۔ فریب کا کاروبار ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ عوام میں مایوسی بانٹتے ہیں اور خود اس کام کے عوض ڈالر بٹورتے ہیں۔
پنجاب بھی اس ملک کا صوبہ ہے۔ عثمان بزدار کے دور میں لوگ اس صوبے کی طرف ترس بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور آج کل حسد بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایک سال میں پنجاب بدل گیا ہے۔ مریم نواز نے نواز شریف کی بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ سارا صوبہ ہی تبدیل کر دیا۔ ہر گوشہ جگمگ کر رہا ہے۔ اصلاحات ہو رہی ہیں۔ نت نئے منصوبے تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ عوام کے مسائل پر توجہ کی جا رہی ہے۔ انٹرنیشنل میچز ہو رہے ہیں۔ سٹیڈیم رنگ و نور سے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پر نوجوان رقص کر رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر خوشیاں ہیں، امیدیں ہیں۔
یہ خوشیاں اور امیدیں صرف پنجاب کا حق نہیں ہر صوبہ اس طرح روشن ہونا چاہیے، ہر جگہ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ ملنے چاہئیں۔ ہر گوشے کو منور ہونا چاہیے۔ لیکن بدقستی سے خیبر پختونخوا کے عوام اس روشنی سے محروم ہیں۔ ان کی حکومت صرف گالی اور گولی کا سبق دیتی ہے، تشدد اور احتجاج کا پیغام دیتی ہے، مارنے اور مرنے کی باتیں کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام اس سے کہیں بہتر کے حق دار ہیں لیکن کون ہے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے؟
ایک سال گزر گیا، وفاق بھی بہت بدل گیا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ ملک سری لنکا بن جائے گا وہ اب خاموش ہو چکے ہیں، وہ جو کہتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا، اب ان کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ وہ جو آئی ایم ایف کو شکایتیں لگاتے تھے اب چپ ہو چکے ہیں۔ وہ جو کہتے تھے کہ بیرون ملک پاکستانی اس حکومت کو ایک دھیلا بھی نہیں بھیجیں گے، ان کے لب سل چکے ہیں، ان کی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے اور ان کا بیانیہ فوت ہو چکا ہے۔
شہباز شریف حکومت کی تعریف نہ کریں تو زیادتی ہے۔اس نے جب حکومت کو سنبھالا تھا اس وقت معیشت کی کشتی ڈول رہی تھی۔ بجلی کے بل سوہان روح بنے ہوئے تھے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ معیشت ایک سال میں درست نہیں ہوتی لیکن سفر کی درست سمت اور رفتار سے منزل کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس ایک سال کے قلیل عرصے میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوئی، سٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں کرنے لگی، آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا، شرح سود میں بتدریج کمی ہوئی۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا۔ دوست ممالک سے اچھے تعلقات استوار ہوئے۔ روزگار کے مواقع کی سبیل نکل رہی ہے۔
شہباز حکومت نے ایک سال میں معاشی سطح پر بہت سی حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ ہم سمجھیں کہ مشکل وقت گزرتا جا رہا ہے اور اگر یہ حکومت چلتی رہی تو ہر آنے والے سال میں عوام کو مزید فلاح نصیب ہو گی۔ ملک عزیز کو مزید ترقی ملے گی۔
ابتدا میں ذکر ہوا تھا کہ پاکستان کے عوام دو طرح کی سوچوں میں منقسم ہیں۔ اس تقسیم میں سب سے اہم فیصلہ آپ کا ہے۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے۔ اس وقت فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور یہ فیصلہ آپ کو آج ہی کرنا ہے کہ اپنی آنے والی نسل کے ہاتھ میں آپ ڈگری تھماتے ہیں یا ڈنڈا۔ ان کو ریاست سے بغاوت کا درس دیتے ہیں یا وطن سے محبت کا اسلوب سکھاتے ہیں۔ ان کو تنزلی میں دھکیلنا چاہتے ہیں یا ترقی کی راہیں دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے اور آج ہی کرنا ہے۔ وقت گزرتا جا رہا ہے اور آنے والی نسل آپ کے فیصلے کی منتظر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم شہباز شریف عمار مسعود.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اردو کالم شہباز شریف خیبر پختونخوا کے ایک سال میں چاہتے ہیں جا رہا ہے فیصلہ آپ عوام کو کے عوام کرنا ہے چکے ہیں رہے ہیں ہے اور
پڑھیں:
سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم
آواز
۔۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی
مشہور کہاوت ہے ریاست ماں ہوتی ہے لیکن حالات وواقعات دیکھ کر محسوس ہوتاہے، پاکستان کی ریاست اپنے شہریوں کے لئے سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم ثابت ہورہی ہے ۔آ خر عوام کے ساتھ ہوکیا رہاہے ؟ اس ریاست کے ہر محکموں نے عوام سے پیسے ہتھیانے کی نت نئی ایجادات کرکے دنیا کے تمام سا ئندانوں کومات دے دی ہے ،جس کے ذریعے عوام کی جیبوںپر ڈاکہ ڈالا جارہاہے او کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ بجلی اور گیس کے سلیب ٹیرف نے کسی ایناکواڈاکی طرح عام آدمی کو اس انداز سے جکڑرکھاہے کہ سانس لینا بھی محال ہورہاہے۔ ایک ماہ قبل سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ صرف پنجاب میںگاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروںکے چالان کا 5ارب ہدف دے دیا گیاہے ۔موٹرسائیکل سوار ٹریفک اہلکاروںکا خاص ہدف ہوں گے۔ اس خبریا افواہ کی آج تک تردید یا وضاحت نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب ہے دال میں ضرور کچھ کالا کالا ہے یاپھر ساری دال ہی کالی ہے۔
آج ہی ایک اخبارمیں پڑھ کر اکثر لوگ سر تھام کریقینا بیٹھ گئے ہوں گے کہ گیس سیکٹر کا 2800ارب گردشی قرضہ بارے حکومت نے ایک ٹیکنیکل حل ڈھونڈ لیا ہے۔ بجلی کی طرح قدرتی گیس کے شعبے میں بھی 2800ارب کا گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے صارفین پر بوجھ ڈالا جائیگا۔ اس سلسلہ میں بزرجمہروں کے سیانے دماغوںمیںکئی تجاویز زیرغور ہیں۔ ایک یہ حل تجویزکیا گیا ہے کہ 3 سے10روپے کی خصوصی پٹرولیم لیوی عائد کردی جائے یاپھر ایک بار دوبارہ گیس کی قیمتیں بھی بڑھا دی جائیں ۔شنید ہے کہ ان تجاویز پر عمل کرنے کے لئے ٹاسک فورس سرگرم ہے ،جبکہ یہ بھی سننے میں آرہاہے کہ 2ہزارارب قرضہ ختم کرنے کیلئے بینکوں سے قرض لیا جائیگا جس کی ادائیگی عوام پیٹرولیم لیوی کے ذریعے کرینگے( کیسی مزے دار تجویزہے) اس سے بھی گردشی قرضوںسے جان نہیں چھوٹتی تو تیز بہدف نسخہ تو موجود ہے کہ گیس قیمتوں میں اضافہ کردیا جائے ،سود اور سرچارج کے باقی 800ارب جزوی معافی یا ادائیگی سے ختم ہونگے۔ٹاسک فورس نے بجلی کے شعبے کے بعد اب گیس سیکٹر کے 2800ارب روپے کے گردشی قرضے کے خاتمے کی جانب توجہ مرکوز کر لی ہے ۔ جس کا فیصلہ کرلیا گیاہے محض رسمی اعلان باقی ہے۔ اس مقصد کے لئے قائم خصوصی ٹاسک فورس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظفر اقبال، وزیر نجکاری محمد علی، اور سی پی پی اے، ایس ای سی پی، اور نیپرا کے ماہرین شامل ہیں۔حکومت کے زیر غور منصوبے کے مطابق 2000ارب روپے کے گردشی قرضے کے اسٹاک کو ختم کرنے کے لئے کمرشل بینکوں سے قرض لیا جائے گا۔ اس قرض کی ادائیگی عوام اگلے سات سالوں میں پیٹرولیم مصنوعات پر خصوصی لیوی کے ذریعے کریں گے۔ اس لیوی کی شرح 3 سے 10 روپے فی لیٹر تک رکھی جا سکتی ہے۔
دوسری خوفناک خبر یہ ہے کہ ایک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ واپڈا میں نقصانات چھپانے کیلئے ڈسکوز کی صارفین کو 244 ارب روپے کی اووربلنگ کی گئی ہے جس پر تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ آڈٹ میں مردہ افراد کو بل بھیجنے کا اعتراف بھی شامل ہے۔ باخبر ذرائع کا کہناہے گزشتہ چند سالوں کے دوران8 سرکاری بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) نے اپنی نااہلی چھپانے کے لئے صارفین کو غیر قانونی طور پر 244 ارب روپے کی حیران کن حد تک زیادہ بلنگ بھیجے ۔ اور تاحال اس میں ملوث کسی بھی اہلکار کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ مالی سال 2024ـ25 کی آڈٹ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ مالی سال 2023ـ24 تک بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی جانب سے صارفین کو کی گئی اوور بلنگ کی مالیت 244 ارب روپے تھی۔ یہ اوور بلنگ بجلی چوری، لائن لاسز اور ناقص کارکردگی سے ہونے والے نقصانات کو چھپانے کے لئے کی گئی تھی۔ رپورٹ میں لاہور، اسلام آباد، حیدر آباد، ملتان، پشاور، کوئٹہ، سکھر اور قبائلی علاقوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کے نام شامل ہیں جنہوں نے صارفین سے زائد بل وصول کیے۔ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ زرعی ٹیوب ویلز اور یہاں تک کہ وفات پا جانے والے افراد کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اکیلی ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) نے 496 ملین روپے کے بل مردہ صارفین کو بھیجے جس میں ایک ایسا واقعہ بھی شامل ہے جہاں بجلی کا اصل استعمال صفر ہونے کے باوجود 1.2 ملین یونٹس کا بل بھیجا گیا۔ صرف ایک ماہ کے دوران 2 لاکھ 78 ہزار سے زائد صارفین کو مجموعی طور پر 47.81 ارب روپے کے زائد بل موصول ہوئے ۔تاہم عوام سے اربوں روپے ناجائز طور پر وصول کرنے کے باوجود کسی بھی اہلکار کو جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حالانکہ غریب سے غریب صارف بھی بجلی کے بلوں میں13 سے زیادہ ٹیکسز اداکررہاہے۔ اس کے باوجود واپڈا کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اب وپڈا نے نیا سلیب سسٹم متعارف کروایاہے جوطلسم ِ ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے ؟شاید عوام کو چکر پہ چکر دینامقصودہے کہ عام آدمی سکھ کا سانس بھی نہ لے پائے۔ کہا یہ جارہاہے کہ بجلی ٹیرف کاپہلے جو 200 یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑھا کر 300 یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے یعنی مرے کو مارے شاہ مدار۔بجلی ٹیرف کے پرانے نظام میںپہلے 100 یونٹس پر ریٹ 9 روپے فی یونٹ تھا ۔اس کے بعد کے یونٹس (100) پر ریٹ ہوتا تھا 13 روپے فی یونٹ اور اگر آپ کا بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کا اضافی ادا کرناپڑتے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط عائد تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200 یونٹ سے کم پر آ جائیں تو صارفین کے بجلی کاریٹ واپس 9 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتا تھا ۔مطلب اگر کوئی صارف کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔ اب جناتی اندازکے نئے بجلی کے سلیب سسٹم میں 1 یونٹ سے لے کر 300 یونٹس تک کا ریٹ سیدھا 33 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے(ہور چوپو)۔صاف صاف ظاہرہے اب کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا کوئی 6 مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا جو صارف پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200 یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا۔ اب اس کو بھی
وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ 300 یونٹ کے نام پر عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکا دیا گیا ہے کہ 300 یونٹ تک رعایت ہے لیکن حقیقتاً اب سب صارفین کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی ۔پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6 مہینے بعد سستے ریٹ کی
اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے ۔یہ تو سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سنگین مذاق ہے، اور معاشی قتل کے مترادف ہے۔ اس لئے حکمرانوںکا مطمح نظرہے کہ بھاری بل آنے والے پرجو کم وسائل، غریب اور مستحقین ہے وہ خودکشی کرتے ہیں تو کرتے پھریں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔صارفین کو اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔واپڈا کے ” سیانوں” نے عوام کو ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا ہے۔ یہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ہے۔ اس پر کون آواز اٹھائے گا کوئی نہیں جانتا ۔پنجاب میں10کھرب کی کرپشن کا شورو غوغا مچا ہواہے ، خیبرپی کے میں بھی اربوںکی مالی بدعنوانی کی کہانیاں منظرعام پرہیں، سندھ میں بھی اربوں کی کرپشن کی باتیں سننے میںآرہی ہیں۔ یہی حال بلوچستان کا ہے۔ کھربوں کھا کرڈکارمارنے والوںکا کوئی احتساب نہیںہورہا ۔چلو آپ کی مرضی لیکن حکمرانوں غریبوںکاایک مطالبہ تو پورا کردو ۔ایسے سلیب ٹیرف ایجاد کرنے والوںکو21توپوںکی سلامی دی جائے یا پھرانہیں توپوںکے آگے باندھ کر اڑادیا جائے تاکہ غریب صارفین کا بھلاہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔