UrduPoint:
2025-11-03@16:53:11 GMT

پاکستان کی نئی نسل کیسی کتابیں پڑھنا چاہتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

پاکستان کی نئی نسل کیسی کتابیں پڑھنا چاہتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) آج کل کے ڈیجیٹل دور میں پاکستان کی نئی نسل میں کتاب خوانی کے رجحانات میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔

لاہور میں منعقدہ پانچ روزہ کتاب میلے میں شریک نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے گفتگو کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسا بالکل نہیں کہ نوجوانوں میں کتاب پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔

آج بھی ایک خاص تعداد کتابوں کی شیدائی ہے اور طبع شدہ کتابیں پڑھنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ لیکن زیادہ تر نوجوانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز اور سوشل میڈیا کے دور میں کتابیں پڑھنے کے رجحان میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ بیشتر نوجوان آن لائن ریسورسز کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

(جاری ہے)

لاہور کے ثقافتی و سماجی پس منظر میں لکھا گیا ناول جلایا کیوں گیا؟

ٹیکنالوجی کی طاقت، ترقی اور محروم طبقات کا استحصال

’’آج‘‘ کے ذریعے ادب کو عوامی بنانے کی کوشش

کتاب میلے میں موجود اسما نامی ایک لڑکی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ آج کے بچے ویزوئل دور والے بچے ہیں، ان کا کتابوں سے تعلق کم ہو رہا ہے۔

وہ ایسی کتابوں کو پسند کرتے ہیں جن پر ٹیکسٹ کم ہو اور اس کے ساتھ تصویریں زیادہ ہوں۔ اسما کے مطابق ابھی تک پاکستان میں آڈیو بکس پڑھنے کا رجحان فروغ نہیں پا سکا۔

کتاب میلے میں شریک تانیہ نامی ایک طالبہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایاکہ نوجوان نسل بڑی حد تک کتابوں سے دور ہو چکی ہے۔ اب لوگ آن لائن ریڈنگ یا پی ڈی ایف فارمیٹ میں الیکٹرانک کتابیں پڑھنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

ان کے بقول مذہب اور شاعری سمیت بہت سے دیگر موضوعات کی نسبت بچے فکشن زیادہ پڑھتے ہیں۔ اسما زیادہ تر جاپانی اور کوریا کے مصنفین کی ترجمہ کی ہوئی کتابیں پڑھتی ہیں۔ انہیں روحانیت، ٹائم ٹریول اور فینٹیسی پر مبنی کتابیں پسند ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ وہ سیلف ہیلپ اور ذہنی صحت کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں۔ زیادہ تر بچوں نے فکشن پڑھنے کو اپنی پسند بتایا۔

فرسٹ ایئر کے طالب علم محمد شاہ زیب نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ کتابوں کے معاملے میں ہر طالب علم کا معاملہ مختلف ہے۔ کچھ کتابوں میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے اور کچھ اہتمام سے پڑھتے ہیں۔ ''مجھے دنیا کی مقبول ترین کتابیں پسند ہیں اور خوش قسمتی سے پاکستان میں بہت سی ایسی کتابوں کے تراجم پر مبنی کتابیں اب دستیاب ہیں۔ مجھے فکشن فلسفہ اور تاریخ کے موضوعات پر مبنی کتابیں پسند ہیں لیکن اب موضوعات بھی بدل رہے ہیں۔

بہت سے نوجوان مصنوعی ذہانت، ای کامرس اور سوشل میڈیا سے پیسے کمانے والی معلومات رکھنے والی کتابیں بھی پسند کرتے ہیں۔ میرے خیال سے پاکستانی پبلشرز کو نوجوان بچوں کی کی نفسیات اور ان کی پسند و ناپسند کو سامنے رکھ کر کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔‘‘

نئی نسل خصوصاً جنریشن زی کے بچے کس طرح کی کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں اسما کا کہنا تھا کہ کتابوں کے معاملے میں ہر بچے کا ذوق مختلف ہوتا ہے۔ لیکن اسما کے بقول جنریشن زی کو ایسی کتابیں پسند ہیں جن کے چند صفحات پر مبنی چھوٹے چھوٹے چیپٹرز ہوں اور چیپٹرز بھی زیادہ نہ ہوں۔ ہر صفحے پر دو سو سے زائد الفاظ نہ ہوں اور ٹیکسٹ کی تصویروں کی مدد سے وضاحت کی گئی ہو۔ آج کل بھاری بھرکم مواد اور ثقیل زبان والی کتابیں بچوں کو پسند نہیں آتیں۔

آج کی جنریشن شیکسپئیر جیسی تحریروں کی بجائے عام فہم اسلوب پڑھنا پسند کرتی ہے۔ چھوٹے فقرے، آسان زبان، صاف اور سیدھی باتوں اور دلچسپ کہانیوں پر مبنی تصویروں والا ٹیکسٹ ہی بچے پڑھنا پسند کرتے ہیں۔

اسما کے مطابق جس طرح کوک اسٹوڈیو نے مقامی میوزک کو جدید ٹچ کے ساتھ نوجوان نسل کے لیے دلچسپ بنایا اس طرح مقامی کہانیوں کو بھی انگریزی اور اردو کتابوں میں بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹک ٹاک پر بک ٹاک سمیت انسٹا گرام اور ایکس پر کتابوں کی مارکیٹنگ نوجوان نسل کو کتابوں سے جوڑ رہی ہے۔ لوگ کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں اور کتابوں کے ویڈیو کلپ بناتے ہیں۔ اگر کسی کو کتاب اچھی لگے تو وہ خرید بھی لیتے ہیں۔

ثنا نامی لاہور کی ایک طالبہ نے بتایا کہ بچوں کو فلموں سے واپس کتابوں کی طرف لانے کے لیے کتابوں کے معیار، مواد اور قیمتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

کلاس دہم کے طالب علم محمد سمیر نے بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ کتاب میلوں میں ایک چھت کے نیچے ہزاروں کتابوں کی کولیکشن میسر آ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی مرضی کی کتابیں خرید سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اچھی کتاب کے لیے زیادہ قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔ ای بکس میں وہ مزا نہیں جو ایک کتاب ہاتھ میں پکڑ کر اسے محسوس کرکے پڑھنے میں آتا ہے۔ اسما کا خیال ہے کہ پاکستان میں عام شہریوں کی قوت خرید کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہاں کتابیں مہنگی ہیں۔

میں نے دس ہزار روپے میں چار کتابیں خریدی ہیں باقی امپورٹڈ کتابیں اس سے بھی مہنگی ہیں۔

ایک پبلشر کے بقول امیر لوگوں کو کتاب کی قیمت سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لوئر مڈل کلاس کے لیے کتاب خریدنا آسان نہیں، انہیں دال روٹی کی فکر رہتی ہے لیکن مڈل کلاس صرف اچھی کتابوں کے لیے پیسے خرچ کرتی ہے۔

ایمان حسن نامی ایک طالبہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ وہ آرٹ ورک کی طرح اچھی کتابوں کو اکٹھا کرتی ہیں۔

ان کے بقول انہوں نے بچپن میں جو کتابیں پڑھی تھیں اب وہ ان کتابوں کے خوبصورت چھپے ہوئے مہنگے ایڈیشن خریدتی ہیں۔ ''مجھے انہیں بار بار پڑھنے میں مزا آتا ہے۔ میں نے بہت پہلے الکیمسٹ پڑھی تھی، اب میں نے اس کا جدید اور مہنگا والا ایڈیشن خریدا ہے۔ اچھی کتاب کا خوشگوار احساس ، اس کے کاغذ کی خوشبو اور اس کے ٹائیٹل کی فیل مجھے کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

‘‘

کراچی سے آئے ہوئے ایک پبلشر شاہ فہد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ پاکستان میں کتابوں کی دنیا کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ''دنیا بدل گئی ہم الف انار اور ب بکری سے باہر نہیں آ سکے۔ ہم نے بہت چھوٹے بچوں کے لیے ایک تصویری کتاب شائع کی ہے، جس میں بچہ تصویریں دیکھ کر ہسپتال، شاپنگ مال کی شناخت کرتا ہے اور باہر جا کر ان عمارتوں کو پہچانتا ہے۔

‘‘

ان کے بقول انہوں نے یورپی کتابوں کا جائزہ لے کر اپنی اشاعتی پالیسی بنائی ہے جس میں تھوڑے ٹیکسٹ کو استعمال کرکے تصویروں والے آرٹ ورک کے ساتھ بچوں کی کتابیں تیار کرتے ہیں اور وہ بچوں میں کافی مقبول ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بکرہ لیموں نہیں کھاتا اور شیر تھو تھو نہیں کرتا لیکن ہم تخلیقی انداز میں نئی نئی کہانیاں لا رہے ہیں، جس کا مطلب نوجوان ریڈرز کے ذہن کھولنا ہے۔

ہماری کتاب خریدنے والے ہماری ویب سائٹ پر جا کر اس کہانی کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

پاکستان کے ایک ممتاز پبلشر سلیم ملک نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ پاکستان کی بک انڈسٹری کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے نجی شعبے کو حکومت کا تعاون درکار ہے۔ ان کے بقول کچھ پبلشرز نے پہلے ہی نوجوان نسل کی بدلتی ضروریات کے مطابق کام شروع کر رکھا ہے۔ چند سال پہلے لاہور نے بولتی کتابوں کے نام سے پرنٹ اور سی ڈی پر مبنی بچوں کی کہانیاں تیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو کہ ابھی تک چل رہا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کتابیں پسند ہیں پسند کرتے ہیں پاکستان میں نوجوان نسل ان کے بقول کتابوں کے کتابوں کی کے مطابق میں کتاب کے لیے

پڑھیں:

خطے کے استحکام کا سوال

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔

اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔

 ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔

 بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔

افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔

آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔

 سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔

پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔

 پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔

مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔

مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔

پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • بُک شیلف
  • کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
  • کالعدم علیحدگی پسند جماعت کیلیے کام کرنے کا الزام، اے ٹی سی نے ملزمان کومقدمے سے ڈسچارج کردیا
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • تاریخ کی نئی سمت
  • فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا