Express News:
2025-11-05@03:11:26 GMT

یوم سیاہ بمقابلہ یوم تعمیر و ترقی

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

پاکستان میں عام انتخابات کو ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ ایک سال مکمل ہونے پر حکومت کی جانب سے یوم تعمیرو ترقی منایا گیا جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے یوم سیاہ منایا گیا۔ اب اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ یوم سیاہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب رہا یا یوم تعمیر و ترقی زیادہ کامیاب رہا۔

سب سے پہلے یوم سیاہ کو دیکھتے ہیں۔ یوم سیاہ کے سلسلے میں تحریک انصاف نے پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ لیکن عملی طور پر صوابی جلسہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ ویسے تو تحریک انصا ف نے لاہور مینار پاکستان میں بھی جلسہ کا اعلان کیا تھا۔

لیکن شاید تحریک انصاف کو خود بھی معلوم تھا کہ مینار پاکستان میں جلسہ کی اجازت نہیں ملنی۔ اس لیے انھوں نے اس کے لیے کوئی خاص ضد بھی نہیں کی۔ اس دن لاہور میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ تھا۔ ویسے بھی عالمی ٹیمیں لاہور پہنچ گئی تھیں۔

اس لیے لاہور میں جلسہ کی اجازت کیسے مل سکتی تھی۔ تاہم تحریک انصاف اگر جلسہ کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو کسی اور شہر کا انتخاب کر سکتی تھی۔ انھوں نے بھی لاہور کی اجازت ہی مانگی، نہیں ملی تو پھر نہ ملنے پر چپ بیٹھ گئے۔آپ کسی اور شہر میں بھی جلسہ کر سکتے تھے جہاں میچ نہ ہوتا، جہاں کوئی ٹیم نہ ہوتی۔ لیکن لگتا ہے کہ تحریک انصاف بھی پنجاب میں احتجاج سے بس راہ فرار ہی چاہتی تھی۔ اس لیے تحریک انصاف نے بھی اجازت نہ ملنے پر عافیت ہی جانی۔

 جہاں تک صوابی جلسہ کی بات ہے تو کے پی میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ وہاں وہ انتخابات جیتے ہوئے ہیں، وہاں جلسہ کرنے کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں تھی۔ اگر آپ کا بیانیہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو آپ وہاں احتجاج کرتے جہاں دھاندلی ہوئی ہو۔

جہاں آپ جیتے ہیں، جہاں کے انتخابی نتائج آپ کو قبول ہیں وہاں احتجاجی جلسہ کرنے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آتا۔ اس لیے صوابی جلسہ کی میرے نزدیک نہ تو کوئی سیاسی اہمیت تھی اور نہ ہی اس کاکوئی جواز تھا۔ صوابی جلسہ کے لیے پورے کے پی سے قافلوں کو بلایا گیا۔

ہر ایک کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ سب نے بندے لے کر آنے ہیں۔ اب جلسہ کے بعد یہ لڑائی موجود ہے کہ کون کم بندے لے کر آیا ہے۔ پنجاب کے شمالی دس اضلاع کو بھی صوابی پہنچنے کی ہی ہدایت کی گئی تھی ۔

اب اگر کے پی کا حکومتی آشیر باد اور کے پی میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھیں تو صوابی کا جلسہ چھوٹا ہی نظر آئے گا۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں نے دس سے پندرہ ہزار لوگوں کا تخمینہ دیا ہے جو بہت کم ہے۔ اس لیے تحریک انصاف میں صوابی جلسہ کی ناکامی کو لے کر ایک بحث جاری ہے۔ احتساب کی بات کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر گروہ بندی کو اس کی ایک وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ویسے پورے ملک میں صوابی کے علاوہ کہیں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔ کسی شہر میں بھی پانچ سو لوگ نہیں نکلے۔ کیسا یوم سیاہ تھا کہ لوگ ہی نہیں نکلے۔ تحریک انصاف کے لیڈر چند موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ایک ریلی کی وڈیواپ لوڈ کرتے رہے۔

کسی ریلی میں چند موٹر سائیکل سوار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ بات خود تحریک انصاف کی قیادت بھی مان رہی ہے کہ لوگ نہیں نکلے۔ شاید لوگ احتجاج سے تنگ آگئے ہیں اور اب مزید احتجاج نہیں چاہتے۔ تحریک انصاف کی قیادت کہتی ہے کہ اجازت نہیں ملی اس لیے لوگ نہیں نکلے۔

پھر یہ سوال اہم ہوگا کہ یہ کیسا احتجاج ہے جو حکومتی اجازت کا محتاج ہے۔ باتیں آپ ملک کو ڈھاکا اور سری لنکا بنانے کی کریں اور لوگ نہ نکلنے پر کہیں کہ اجازت نہیں ملی۔ کیا ڈھاکا اور سری لنکا میں لوگ حکومت کی اجازت سے نکلے تھے۔

لوگ خود نکلتے ہیں اور وہ حکومتی اجازت کے محتاج نہیں ہوتے۔ لوگ کسی کال کے بھی محتاج نہیں ہوتے۔ اس لیے تحریک انصاف کی یہ منطق سیاسی طور پر قبول نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بھی تحریک انصاف کی پنجاب کی بڑی قیادت بھی صوابی میں نظر آئی۔ انھوں نے بھی پنجاب میں اپنے علاقوں میں احتجاج کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اب جہاں تک یوم تعمیر و ترقی کا تعلق ہے تو بنیادی طور پر حکومت نے انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر اپنی ایک سال کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی۔اگر میں یہ کہوں کہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی مرکزی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی ہے۔

کیونکہ سندھ اور بلوچستان کی حکومت نے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے نہیں رکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں حکومت کو ہر سال ہر موقع پر اپنی کارکردگی عوا م کے سامنے رکھنی چاہیے۔ جمہوریت کی بنیاد ہی یہی ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ اور جوابدہی کی بہترین شکل کارکردگی ہے۔

مرکزی حکومت نے عوام کو بتایا کہ ایک سال میں انھوں نے مہنگائی کم کی ہے۔ شرح سود کم کی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نے ریکارڈ ترقی کی ہے، ڈالر کی قدر کنٹرول رہی ہے، اسمگلنگ کو روکا گیا ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا گیا ہے۔

ملک کو ڈیفالٹ کے خطرہ سے باہر کر دیا گیا ہے۔ معاشی میدان میں کافی بہتری لائی گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یوم تعمیر و ترقی پر اپنے خطاب میں کہا کہ ملکی معیشت کو کافی حد تک مستحکم کر دیا ہے۔ اب ترقی کا سفر شروع ہوگا۔

عوا م کو ریلیف بھی دیا جائے گا۔ کاروبار کو ترقی بھی دی جائے گی۔ پہلے سال ملکی معیشت کو بھنور سے نکالنے کے لیے کافی سخت فیصلے بھی کیے گئے۔ عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔اس ایک سال میں حکومت نے بجلی قیمت کو کم کرنے کے لیے آئی پی پی کے معاہدے منسوخ کیے ہیں۔

جو ایک بہت مشکل کام تھا۔ لیکن اس میں بھی بہت کامیابی ہوئی ہے۔ اشیاء ضرورت کی چیزوں کی قیمت کو کافی حد تک کنٹرول رکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ پہلے افغانستان چینی اسمگل ہوتی تھی لیکن موجودہ حکومت نے اسمگلنگ پر قابو پایا تو افغانستان کی حکومت نے باقاعدہ پاکستان سے کئی ملین ڈالر کی چینی امپورٹ کی ہے۔

جس سے پاکستان کو زر مبادلہ بھی حاصل ہوا ہے اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہے۔اسی طرح پنجاب حکومت نے بھی ایک سال میں ریکارڈ منصوبے شروع کیے ہیں جن کی عوام میں پذیرائی نظر آرہی ہے۔

اب اگر یہ جائزہ لینا ہے کہ یوم سیاہ کامیاب رہا کہ یوم تعمیر و ترقی کامیاب رہا۔ میں سمجھتا ہوں یوم تعمیر و ترقی کامیاب رہا۔ لوگوں کو کارکردگی میں زیادہ دلچسپی نظر آئی، لوگ حکومت کی کارکردگی سے زیادہ مطمئن بھی نظر آئے ۔

مجھے کارکردگی کے گرد بحث زیادہ نظر آئی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہی تب ہوگی جب ہم بیانیوں کے چکر سے نکل کر کارکردگی پر بات کریں گے۔ جب یہ بات ختم ہو جائے گی کہ بیانیہ بکتا ہے۔ بیانیہ بیچنا کارکردگی کے نہ ہونے کا اعلان ہے۔

جب آپ کی کوئی کارکردگی نہ ہو تو آپ بیانیہ بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ کے پاس کارکردگی ہو تو آپ بیانیہ کے محتاج نہیں ہوتے۔ کارکردگی خود بہت بڑا بیانیہ بن جاتا ہے۔ ہمیں تحریک انصاف سے بھی کے پی کی کارکردگی پوچھنی چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صوابی جلسہ میں گالم گلوچ کے بجائے عوام کو کارکردگی بتائی جاتی اور کارکردگی مقابلہ ہوتا۔ تو آج میں بھی دونوں کی کارکردگی کا موازنہ کر رہا ہوتا۔ لیکن جب بیانیہ اور کارکردگی کا مقابلہ ہوگا تو میرا ووٹ کارکردگی کی طرف ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یوم تعمیر و ترقی میں تحریک انصاف تحریک انصاف کی عوام کے سامنے پاکستان میں کی کارکردگی کامیاب رہا صوابی جلسہ نہیں نکلے کی اجازت انھوں نے حکومت نے یوم سیاہ حکومت کی ایک سال میں بھی جلسہ کی ترقی کا کے لیے اس لیے نے بھی لوگ نہ گیا ہے رہی ہے

پڑھیں:

آزاد کشمیر: تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے پا گیا، نمبر پورے ہیں، وزیر قانون میاں عبدالوحید

آزاد کشمیر کے وزیر قانون میاں عبدالوحید کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے ہوگیا ہے، جو ایک ہفتے میں قانون ساز اسمبلی میں پیش کردی جائے گی۔

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے میاں عبدالوحید کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کو درپیش چلینجز سے نمٹنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے جاری مشاورت کے باعث تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں تاخیر ہورہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم آزاد کشمیر کے نام کا اعلان اسلام آباد سے نہیں بلکہ کشمیر سے ہوگا، بلاول بھٹو

’ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل جاری ہے، نمبر ہمارے پاس پورے ہیں، نئی حکومت اپنی متوقع ذمہ داریوں کے حوالے سے متعلقہ افراد کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے جلد مشاورت مکمل کرلی جائے گی۔‘

وزیرقانون کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سے بھی بات چیت مکمل ہوچکی ہے، جنہوں نے حمایت کے ساتھ ساتھ ووٹ دینے کا بھی کہا ہے، مگر وہ حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھیں: اس وقت آزاد کشمیر میں حکومت بنانا بڑا چیلنج، تحریک عدم اعتماد اسی ہفتے آ جائےگی، راجا فیصل ممتاز راٹھور

دوسری جانب آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل راجا فیصل ممتاز راٹھور کا کہنا ہے کہ اسی ہفتے آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اپنی حکومت قائم کرلیں گے۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے فیصل ممتاز راٹھور کا کہنا تھا کہ اب مزید تاخیر نہیں ہوگی، موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی حکومت نہیں بنانے جا رہی بلکہ جوا کھیلنے جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں:آزاد کشمیر اسمبلی کے نئے قائد ایوان کا نام تحریک عدم اعتماد جمع کراتے وقت سامنے لایا جائے گا، پیپلز پارٹی

انہوں نے کہا کہ 29 ستمبر کو شروع ہونے والی عوامی ایکشن کمیٹی کی احتجاجی تحریک کے باعث ہم نے یہ فیصلہ کیاکہ ہمیں اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی حکومت بنانی چاہیے۔

ان کے مطابق پیپلز پارٹی سے بہتر کوئی اور جماعت مذاکرات نہیں کر سکتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آزاد کشمیر پیپلز پارٹی تاخیر تحریک عدم اعتماد جیو نیوز راجا فیصل ممتاز راٹھور عوامی ایکشن کمیٹی قانون ساز اسمبلی میاں عبدالوحید وزیر اعظم پاکستان وزیر قانون ووٹ

متعلقہ مضامین

  • کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!
  • 14نومبر کوحیدر آبا ئی پاس پرتاریخی جلسہ ہوگا‘تحریک تحفظ آئین
  • تحریک انصاف نے  27ویں آئینی ترمیم کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کرلیا
  • 27ویں ترمیم کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا، پیپلزپارٹی ٹوپی ڈرامہ کررہی ہے، اسد قیصر
  • سماجی ترقی کا خواب غزہ میں نسل کشی کو نظرانداز کرکے پورا نہیں ہوسکتا، صدر مملکت کا دوحہ کانفرنس سے خطاب
  • انتظامیہ نے حکومت کی ایماء پر کوئٹہ میں جلسے کی اجازت نہیں دی، تحریک تحفظ آئین
  • آزاد کشمیر: تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے پا گیا، نمبر پورے ہیں، وزیر قانون میاں عبدالوحید
  • تحریک انصاف ،پنجاب لوکل گورنمنٹ بل ہائیکورٹ میں چیلنج کرنیکا اعلان
  • تحریک انصاف کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • نومبر 1984ء میں سکھوں کی نسل کشی بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب ہے