Express News:
2025-07-27@04:42:27 GMT

یوم سیاہ بمقابلہ یوم تعمیر و ترقی

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

پاکستان میں عام انتخابات کو ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ ایک سال مکمل ہونے پر حکومت کی جانب سے یوم تعمیرو ترقی منایا گیا جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے یوم سیاہ منایا گیا۔ اب اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ یوم سیاہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب رہا یا یوم تعمیر و ترقی زیادہ کامیاب رہا۔

سب سے پہلے یوم سیاہ کو دیکھتے ہیں۔ یوم سیاہ کے سلسلے میں تحریک انصاف نے پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ لیکن عملی طور پر صوابی جلسہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ ویسے تو تحریک انصا ف نے لاہور مینار پاکستان میں بھی جلسہ کا اعلان کیا تھا۔

لیکن شاید تحریک انصاف کو خود بھی معلوم تھا کہ مینار پاکستان میں جلسہ کی اجازت نہیں ملنی۔ اس لیے انھوں نے اس کے لیے کوئی خاص ضد بھی نہیں کی۔ اس دن لاہور میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ تھا۔ ویسے بھی عالمی ٹیمیں لاہور پہنچ گئی تھیں۔

اس لیے لاہور میں جلسہ کی اجازت کیسے مل سکتی تھی۔ تاہم تحریک انصاف اگر جلسہ کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو کسی اور شہر کا انتخاب کر سکتی تھی۔ انھوں نے بھی لاہور کی اجازت ہی مانگی، نہیں ملی تو پھر نہ ملنے پر چپ بیٹھ گئے۔آپ کسی اور شہر میں بھی جلسہ کر سکتے تھے جہاں میچ نہ ہوتا، جہاں کوئی ٹیم نہ ہوتی۔ لیکن لگتا ہے کہ تحریک انصاف بھی پنجاب میں احتجاج سے بس راہ فرار ہی چاہتی تھی۔ اس لیے تحریک انصاف نے بھی اجازت نہ ملنے پر عافیت ہی جانی۔

 جہاں تک صوابی جلسہ کی بات ہے تو کے پی میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ وہاں وہ انتخابات جیتے ہوئے ہیں، وہاں جلسہ کرنے کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں تھی۔ اگر آپ کا بیانیہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو آپ وہاں احتجاج کرتے جہاں دھاندلی ہوئی ہو۔

جہاں آپ جیتے ہیں، جہاں کے انتخابی نتائج آپ کو قبول ہیں وہاں احتجاجی جلسہ کرنے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آتا۔ اس لیے صوابی جلسہ کی میرے نزدیک نہ تو کوئی سیاسی اہمیت تھی اور نہ ہی اس کاکوئی جواز تھا۔ صوابی جلسہ کے لیے پورے کے پی سے قافلوں کو بلایا گیا۔

ہر ایک کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ سب نے بندے لے کر آنے ہیں۔ اب جلسہ کے بعد یہ لڑائی موجود ہے کہ کون کم بندے لے کر آیا ہے۔ پنجاب کے شمالی دس اضلاع کو بھی صوابی پہنچنے کی ہی ہدایت کی گئی تھی ۔

اب اگر کے پی کا حکومتی آشیر باد اور کے پی میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھیں تو صوابی کا جلسہ چھوٹا ہی نظر آئے گا۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں نے دس سے پندرہ ہزار لوگوں کا تخمینہ دیا ہے جو بہت کم ہے۔ اس لیے تحریک انصاف میں صوابی جلسہ کی ناکامی کو لے کر ایک بحث جاری ہے۔ احتساب کی بات کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر گروہ بندی کو اس کی ایک وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ویسے پورے ملک میں صوابی کے علاوہ کہیں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔ کسی شہر میں بھی پانچ سو لوگ نہیں نکلے۔ کیسا یوم سیاہ تھا کہ لوگ ہی نہیں نکلے۔ تحریک انصاف کے لیڈر چند موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ایک ریلی کی وڈیواپ لوڈ کرتے رہے۔

کسی ریلی میں چند موٹر سائیکل سوار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ بات خود تحریک انصاف کی قیادت بھی مان رہی ہے کہ لوگ نہیں نکلے۔ شاید لوگ احتجاج سے تنگ آگئے ہیں اور اب مزید احتجاج نہیں چاہتے۔ تحریک انصاف کی قیادت کہتی ہے کہ اجازت نہیں ملی اس لیے لوگ نہیں نکلے۔

پھر یہ سوال اہم ہوگا کہ یہ کیسا احتجاج ہے جو حکومتی اجازت کا محتاج ہے۔ باتیں آپ ملک کو ڈھاکا اور سری لنکا بنانے کی کریں اور لوگ نہ نکلنے پر کہیں کہ اجازت نہیں ملی۔ کیا ڈھاکا اور سری لنکا میں لوگ حکومت کی اجازت سے نکلے تھے۔

لوگ خود نکلتے ہیں اور وہ حکومتی اجازت کے محتاج نہیں ہوتے۔ لوگ کسی کال کے بھی محتاج نہیں ہوتے۔ اس لیے تحریک انصاف کی یہ منطق سیاسی طور پر قبول نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بھی تحریک انصاف کی پنجاب کی بڑی قیادت بھی صوابی میں نظر آئی۔ انھوں نے بھی پنجاب میں اپنے علاقوں میں احتجاج کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اب جہاں تک یوم تعمیر و ترقی کا تعلق ہے تو بنیادی طور پر حکومت نے انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر اپنی ایک سال کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی۔اگر میں یہ کہوں کہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی مرکزی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی ہے۔

کیونکہ سندھ اور بلوچستان کی حکومت نے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے نہیں رکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں حکومت کو ہر سال ہر موقع پر اپنی کارکردگی عوا م کے سامنے رکھنی چاہیے۔ جمہوریت کی بنیاد ہی یہی ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ اور جوابدہی کی بہترین شکل کارکردگی ہے۔

مرکزی حکومت نے عوام کو بتایا کہ ایک سال میں انھوں نے مہنگائی کم کی ہے۔ شرح سود کم کی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نے ریکارڈ ترقی کی ہے، ڈالر کی قدر کنٹرول رہی ہے، اسمگلنگ کو روکا گیا ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا گیا ہے۔

ملک کو ڈیفالٹ کے خطرہ سے باہر کر دیا گیا ہے۔ معاشی میدان میں کافی بہتری لائی گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یوم تعمیر و ترقی پر اپنے خطاب میں کہا کہ ملکی معیشت کو کافی حد تک مستحکم کر دیا ہے۔ اب ترقی کا سفر شروع ہوگا۔

عوا م کو ریلیف بھی دیا جائے گا۔ کاروبار کو ترقی بھی دی جائے گی۔ پہلے سال ملکی معیشت کو بھنور سے نکالنے کے لیے کافی سخت فیصلے بھی کیے گئے۔ عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔اس ایک سال میں حکومت نے بجلی قیمت کو کم کرنے کے لیے آئی پی پی کے معاہدے منسوخ کیے ہیں۔

جو ایک بہت مشکل کام تھا۔ لیکن اس میں بھی بہت کامیابی ہوئی ہے۔ اشیاء ضرورت کی چیزوں کی قیمت کو کافی حد تک کنٹرول رکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ پہلے افغانستان چینی اسمگل ہوتی تھی لیکن موجودہ حکومت نے اسمگلنگ پر قابو پایا تو افغانستان کی حکومت نے باقاعدہ پاکستان سے کئی ملین ڈالر کی چینی امپورٹ کی ہے۔

جس سے پاکستان کو زر مبادلہ بھی حاصل ہوا ہے اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہے۔اسی طرح پنجاب حکومت نے بھی ایک سال میں ریکارڈ منصوبے شروع کیے ہیں جن کی عوام میں پذیرائی نظر آرہی ہے۔

اب اگر یہ جائزہ لینا ہے کہ یوم سیاہ کامیاب رہا کہ یوم تعمیر و ترقی کامیاب رہا۔ میں سمجھتا ہوں یوم تعمیر و ترقی کامیاب رہا۔ لوگوں کو کارکردگی میں زیادہ دلچسپی نظر آئی، لوگ حکومت کی کارکردگی سے زیادہ مطمئن بھی نظر آئے ۔

مجھے کارکردگی کے گرد بحث زیادہ نظر آئی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہی تب ہوگی جب ہم بیانیوں کے چکر سے نکل کر کارکردگی پر بات کریں گے۔ جب یہ بات ختم ہو جائے گی کہ بیانیہ بکتا ہے۔ بیانیہ بیچنا کارکردگی کے نہ ہونے کا اعلان ہے۔

جب آپ کی کوئی کارکردگی نہ ہو تو آپ بیانیہ بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ کے پاس کارکردگی ہو تو آپ بیانیہ کے محتاج نہیں ہوتے۔ کارکردگی خود بہت بڑا بیانیہ بن جاتا ہے۔ ہمیں تحریک انصاف سے بھی کے پی کی کارکردگی پوچھنی چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صوابی جلسہ میں گالم گلوچ کے بجائے عوام کو کارکردگی بتائی جاتی اور کارکردگی مقابلہ ہوتا۔ تو آج میں بھی دونوں کی کارکردگی کا موازنہ کر رہا ہوتا۔ لیکن جب بیانیہ اور کارکردگی کا مقابلہ ہوگا تو میرا ووٹ کارکردگی کی طرف ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یوم تعمیر و ترقی میں تحریک انصاف تحریک انصاف کی عوام کے سامنے پاکستان میں کی کارکردگی کامیاب رہا صوابی جلسہ نہیں نکلے کی اجازت انھوں نے حکومت نے یوم سیاہ حکومت کی ایک سال میں بھی جلسہ کی ترقی کا کے لیے اس لیے نے بھی لوگ نہ گیا ہے رہی ہے

پڑھیں:

قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما، سینٹ میں پارلیمانی پارٹی لیڈر اور خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان کے بیٹے قاسم اور سلمان اگر پاکستان آنا چاہتے ہیں تو خوشی سے آئیں اور احتجاج کے جو طریقے انہوں نے برطانیہ میں دیکھے ہیں ان کے مطابق بیشک احتجاج بھی کریں اور پی ٹی آئی کو بھی سکھائیں۔حکومت کو پی ٹی آئی کی کسی تحریک میں دلچسپی نہیں، نہ کوئی خوف ہے، اسی لئے 5 اگست کے حوالے سے حکومت نے کوئی میٹنگ بھی نہیں بلائی۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے پہلے بھی سنجیدہ نہیں تھی۔ ہمارے دروازے مذاکرات کیلئے کھلے ہیں لیکن ہم چھت پر چڑھ کر انہیں آوازیں نہیں لگائیں گے۔پی ٹی آئی، ان سے بات کرنا چاہتی ہے جو اس سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کسی طرح کا کوئی سیاسی بحران نہیں، ریاست کا کاروبار پُرامن طریقے سے چل رہا ہے اور تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سیاستدان بہادری سے جیل کاٹتے ہیں، شکایتیں اور مطالبے نہیں کیا کرتے۔ جیل میں جتنی سہولتیں عمران خان کو حاصل ہیں، کبھی کسی قیدی کو حاصل نہیں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت کئی رہنماؤں نے جیلیں کاٹی ہیں لیکن کبھی کسی نے اس طرح شکایتیں نہیں کیں۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو دفاعی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملے جرم تھے تو مجرموں کو سزائیں بھی ملنی چاہییں۔پی ٹی آئی کے جن لوگوں کو سزائیں ہو رہی ہیں ان کے پاس اپیلوں کے کئی فورم موجود ہیں، نواز شریف کے کیس تو سپریم کورٹ سے شروع ہوتے اور سپریم کورٹ میں ہی ختم ہو جاتے تھے، نہ کوئی اپیل ہوتی تھی نہ دلیل۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، بلا وجہ بیان بازی اور تشہیر ان کا شیوہ نہیں، وقت آنے پر وہ متحرک سیاسی کردار ادا کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ طالبان گڈ ہیں یا بیڈ، انہیں افغانستان سے نکال کر کون یہاں لے کر آیا؟ٹی ٹی پی سمیت 40 ہزار طالبان عمران خان یہاں لے کر آئے تھے جس کی وجہ سے آج ہمیں دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ امور کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہے، یہ کام گنڈاپور صاحب کا نہیں۔ وہ اپنے صوبے میں امن و امان اور اربوں روپے کی کرپشن پر نظر رکھیں۔ مسلم لیگ (ن) کو خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت گرانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی 12 سالہ حکومت اور وفاق میں عمران خان کی 4 سالہ حکومت کے کسی ایک بھی بڑے عوامی، فلاحی اور ترقیاتی منصوبے کا حوالہ نہیں دے سکتے۔اے پی سی میں شمولیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ محمود اچکزئی صاحب کے بیان کے مطابق یہ کانفرنس موجودہ حکومت کے خاتمے کیلئے بلائی جا رہی ہے، ہم کسی ایسی سازش کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں؟

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • تحریک انصاف شدید مالی بحران کا شکار، سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کمی
  • پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خطرہ نہیں، سازشوں کا حصہ نہیں بنیں گے: سینیٹر عرفان صدیقی
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کا نو تعمیر شدہ کینسر ہسپتال مظفر آباد کا دورہ
  • حکومت کی پی ٹی آئی تحریک میں دلچسی نہ کوئی خوف: عرفان صدیقی
  • پی ٹی آئی کی تحریک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عرفان صدیقی
  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں، سینیٹر عرفان صدیقی
  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں،سینیٹر عرفان صدیقی
  • قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان