اسلام آباد:

ماہر قانون حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ بار ایسوسی ایشنز کے علاوہ بار کونسل بھی ہے، اس میں مین پاکستان بار کونسل ہے جو پورے پاکستان کے وکلا برادری کی نمائندہ ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ پارلیمان کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے انھوں نے وہ اختیار استعمال کیا اور اسی کے تحت یہ آگے سارا پراسیس اور امپلی مینٹیشن ہو رہی ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں اور آپ کو بھی اس کا ادراک یقیناً ہو گا کہ بار ایسوسی ایشنز اس ملک کے ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوشنز ہیں، اب اگر آپ نے کچھ کرنا ہے تو کیا طریقہ کار ہے؟ یقینی طور پراپنے منتخب نمائندوں سے بات کریں، سپریم کورٹ بار ہے،پاکستان بار کونسل ہے۔ 

ماہر قانون ریاست علی آزاد نے کہا کہ وکلا ایکشن کمیٹی کو آپ چھوڑ دیں وہ جس کی ہے اور جن کے نام آپ نے گنوائے ہیں، اس کی تو میں سب سے پہلے یہ وضاحت کر دوں کہ یہ بذات خود میں اپنی ذات کی بات کر رہا ہوں کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ شہر ہم نے بند نہیں کیا، حکومت نے کیا ہے، اگر ہمارے ساتھ لوگ نہیں تھے تو آپ نے پورے ریڈ زون کو کارڈن آف کیوں کیا؟، وہاں پر چڑیا کو پر مارنے کی اجازت نہیں تھی، پانچ صوبائی بار کونسلیں ہیں جن میں سے تین ایک سائڈ پر ہیں تو اکثریت کس طرف ہے؟۔ 

ماہر قانون رانا احسان احمد نے کہا کہ دو چیزیں بڑی امپورٹنٹ ہیں ایک امپورٹنٹ یہ ہے کہ کیا پاکستان کی پارلیمنٹ کی جو ایمنڈمنٹس جو ہیں وہ پارلیمنٹ واپس نہ لے یا سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ نہ کرے یہ لا آف دی لینڈ ہے اور کونسٹیٹیوشن کا حصہ ہے، اسے ہمیں ہر صورت ماننا پڑے گا، چاہے ہم ایز اے ہائیکورٹ کے جج ہیں، سپریم کورٹ کے جج ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان ہیں یا اس کے بعد یہ ہے کہ سیٹیزن آف پاکستان ہیں، ہاں کنسرنز ہو سکتے ہیں اور وہ کنسرنز صرف اور صرف جو ہے بار ایسوسی ایشنز کے یا سول سوسائٹی کے ہو سکتے ہیں وہ ججز کے کنسرنز نہیں ہو سکتے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا کہ

پڑھیں:

حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج

سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔

دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔

عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔

درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔

عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔

متعلقہ مضامین

  • مودی جی ڈرامہ بند کرو، اگر آپ انصاف نہیں دے سکتے تو کیاپاکستان سے مدد لیں؟ بھارتی فوجی کی دھائی
  • نیٹ ورک مسائل سے کاروبار کے تسلسل اور صارفین کے اعتماد کو خطرہ: کاسپرسکی
  • وزیر اعظم شہباز نے یوتھ لیپ ٹاپ سکیم 2025 کا آغاز کر دیا، اپلائی کرنے کا طریقہ یہ ہے
  • بھارت از خود انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل یا منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ،ماہرین
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • ن لیگ والے ضیا الحق کے وارث تو ہو سکتے ہیں پنجاب کے نہیں: پی پی رہنما
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • سندھ حکومت نے کمشنرز کو دکانیں اور کاروبار ڈی سیل کرنے سے روک دیا
  • پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف ایک اور آئینی درخواست دائر