امریکہ کا پہلا اسپتال؛ جہاں مریضوں کو بھی عملے کا ہاتھ بٹانا پڑتا تھا
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک — یہ اس وقت کی بات ہے جب پینسلوینیا برطانوی سلطنت کے قبضے میں تھا۔ یہاں دو دوستوں نے ایک ایسے منصوبے پر کام شروع کیا جو تاریخ میں رقم ہونے والا تھا۔
ان دوستوں میں سے ایک بینجمن فرینکلن کئی علوم کے ماہر، موجد اور سیاست دان بھی تھے اور دوسرے دوست ڈاکٹر تھامس بانڈ اپنے وقت کے ممتاز معالج تھے۔
ڈاکٹر تھامس بانڈ کا خیال تھا کہ پینسلوینیا میں غریب، نادار اور بیمار لوگوں کے لیے ایک ادارہ ہونا چاہیے۔ پینسلوینیا کا شمار اس وقت شمالی امریکہ میں برطانیہ کی ان کالونیز میں ہوتا تھا جہاں بہت تیزی سے آبادی بڑھ رہی تھی۔
اس کی آبادی 1730 میں ساڑھے 11 ہزار تھی جو صرف 20 برس میں ساڑھے 17 ہزار تک جا پہنچی تھی اور ایسے کسی ادارے کی فوری ضرورت تھی جہاں لوگوں کی دیکھ بھال اور علاج ہوسکے۔
یہ وہ دور تھا جب شمالی امریکہ میں برطانیہ اور فرانس کے زیرِ تسلط نو آبادیات آزاد ہو کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ نہیں بنی تھیں۔
تھامس بانڈ نے ایک دن بینجمن فرینکلن کو مشورہ دیا کہ فلاڈیلفیا کی سڑکوں پر گھومنے والے بیماروں، غریبوں اور دماغی مسائل کے شکار افراد کے لیے ایک اسپتال ہونا چاہیے۔
فرینکلن کو یہ مشورہ پسند آیا اور انہوں نے پینسلوینیا کی اسمبلی سے اسپتال تعمیر کرنے کی منظوری لینے کے لیے ایک اپیل کا مسودہ تیار کرنا شروع کردیا اور کچھ دنوں بعد ہی اسے اسمبلی میں اپیل کے طور پر پیش کردیا۔ لیکن اسمبلی کے سبھی ارکان نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔
قیام کی منظوری
پینسلوینیا کی اسمبلی کے دیہی ارکان اس مںصوبے سے متعلق شبہات رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اسپتال صرف فلاڈیلفیا شہر کے لوگوں کے لیے ہوگا اس لیے انہوں نے اس کی حمایت سے قدم پیچھے ہٹا لیا تھا۔
اس اختلافِ رائے کی وجہ سے جب فرینکلن کو یہ محسوس ہوا کہ منصوبہ ٹال مٹول کا شکار ہو سکتا ہے تو انہوں نے یہ تجویز دی کہ اسپتال کے قیام کے لیے شہریوں سے دو ہزار پاؤنڈ چندہ جمع کیا جائے اور اگر اتنی رقم کا انتظام ہو جاتا ہے تو اسمبلی اس کے برابر رقم جاری کردے۔
امریکہ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ تھا جس میں سرکاری طور پر عوامی عطیات سے جمع ہونے والی رقم کے برابر فنڈز فراہم کیے گئے اور مئی 1751 میں اس کے لیے قانون سازی مکمل ہو گئی۔
مںظوری کے بعد 1752 میں ایک مکان میں عارضی اسپتال بنایا گیا تھا جس کے لیے رچرڈ پین اور تھامس نے زمین عطیہ کی تھی۔
پینسلوینیا میں قائم ہونے والے اس اسپتال نے سماجی ذمے داری کا جو تصور متعارف کرایا تھا اسے بعد میں دیگر جگہوں پر بھی اپنایا گیا۔
امریکہ کی جنگِ آزادی کے دوران بھی اس اسپتال نے ایک بڑا کردار ادا کیا اور علاج کرتے ہوئے برطانویوں اور دیگر فوجیوں میں کوئی تفریق نہیں کی۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ اسپتال طب کی تعلیم و تدریس اور تحقیق کا ادارہ بن گیا۔
اس طرح پینسلوینیا میں بننے والا یہ اسپتال امریکہ میں اپنی نوعیت کا ادارہ بن گیا۔ اسے بنانے والی ددنوں شخصیات میں سے فرینکلن سیاسی مدبر کی شہرت رکھتے تھے جب کہ ڈاکٹر تھامس بانڈ کو امریکہ میں بابائے طب بھی کہا جاتا ہے۔
ان دونوں کی کوششوں سے اس اسپتال کی تعمیر مکمل ہوئی اور انسائیکلو آف برٹینیکا کے مطابق اسے امریکہ کا پہلا اسپتال ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہاں 11 فروری 1753 کو پہلا مریض داخل ہوا۔
سن 1776 میں امریکہ کی آزادی کے بعد یہ اسپتال قائم رہا اور 1865 میں جب پینسلوینیا کالج کی بنیاد رکھی گئی تو اسپتال کو طب کی تدریس اور تربیت سے منسلک کردیا گیا۔بعدازاں اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔
پینسلوینیا یونیورسٹی کے مطابق اس اسپتال کا قیام طب ، علاج معالجے کے علاوہ امریکہ میں ایک سماجی سنگِ میل بھی تھا۔
قواعد و ضوابط
اس اسپتال کے انتظامات چلانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے یہاں داخلے اور علاج سے متعلق چند اصول بنائے گئے تھے۔
ان قواعد کے مطابق اسپتال میں کسی ایسے مریض کا داخلہ ممنوع تھا جسے کوئی ناقابلِ علاج مرض لاحق ہو۔ اسی طرح ذہنی جنون کا شکار افراد کو بھی اسپتال میں نہیں رکھا جاتا تھا۔
اسپتال میں خسرہ، خارش اور دیگر وبائی امراض کے مریضوں کو فوری داخلہ نہیں دیا جاتا تھا بلکہ ان کے لیے پہلے علیحدہ کمرہ تیار کیا جاتا تھا۔
اسپتال میں مریضوں کے ساتھ بچوں کو لانے کی اجازت نہیں تھی اور انہیں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال سے باہر خود اپنا انتظام کرنا ہوتا تھا۔
داخل ہونے والے غریب مریضوں کے علاج معالجے کا خرچ تو اسپتال برداشت کرتا تھا تاہم ایسے مریض جو اپنے ذاتی خرچ پر یہاں داخل ہوتے تھے انہیں اپنے مرضی کے معالجین سے علاج کرانے کی اجازت تھی۔
اسپتال کے لیے بعض دل چسپ قواعد بھی مقرر کیے گئے تھے۔ مثلاً کسی مریض کو تاش یا پانسے وغیرہ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔
اسی طرح ایسے زیرِ علاج مریض جو دوسروں کی مدد کے قابل ہوں انہیں نرسنگ اسٹاف کی مدد کرنے، کپڑے دھونے، صفائی اور دیگر کاموں میں ہاتھ بٹانے کا پابند بنایا گیا تھا۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل امریکہ میں تھامس بانڈ اسپتال میں کے لیے ایک اس اسپتال
پڑھیں:
ایڈز ہر منٹ ایک موت کا سبب اور امدادی کٹوتیاں مریضوں کے لیے مزید خطرناک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 جون 2025ء) 2024 کے بعد ایڈز سے متعلقہ اموات اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں لیکن طبی مقاصد کے لیے درکار امدادی وسائل کی قلت کے باعث اس بیماری پر قابو پانے کی کوششوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے جو ہر منٹ میں ایک انسان کی جان لے لیتی ہے۔
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں تین کروڑ سے زیادہ لوگ ایچ آئی وی کے علاج سے مستفید ہو رہے ہیں اور اس حوالے سے ایڈز کے خلاف اقوام متحدہ کے اقدامات کثیرفریقی طریقہ کار کی کامیابی کی واضح مثال ہیں۔
تاہم، وسائل کی کمی دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے خلاف طبی خدمات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ Tweet URLامینہ محمد نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے ایڈز کے خاتمے اور ایچ آئی وی کی روک تھام کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لیے جانے کے موقع پر کہی ہے۔
(جاری ہے)
کامیابیاں ضائع ہونے کا خدشہنائب سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ایچ آئی وی/ایڈز پر قابو پانے کے لیے کیے گئےوعدے پورے نہیں ہو رہے اور گزشتہ دہائیوں میں اس بیماری کے خلاف حاصل کی جانے والی تمام کامیابیاں ضائع ہو جانے کا خدشہ ہے۔ مالی مدد میں کمی آںے کے نتیجے میں بہت سی جگہوں پر کلینک بند ہو رہے ہیں اور علاج معالجے کا سامان ختم ہونے لگا ہے۔
ایسے حالات میں نوعمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے اس بیماری سے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔امریکہ کی حکومت کے اقدام 'پیپفار' کی بدولت افریقہ میں ایچ آئی وی کی روک تھام میں نمایاں مدد ملی لیکن ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام (یو این ایڈز) نے خبردار کیا ہے اب اس پروگرام کو مستقل مالی کٹوتیوں کا خطرہ درپیش ہے۔
امداد کی متواتر فراہمی جاری نہ رہنے کے نتیجے میں 2029 تک ایڈز سے مزید 40 لاکھ اموات ہو سکتی ہیں اور مزید 60 لاکھ افراد کے اس مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔مالی وسائل کی ضرورتامینہ محمد نے کہا ہے کہ مختصر مدتی مالی کٹوتیوں کے باعث طویل مدتی پیش رفت ضائع ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے۔
مالی وسائل کے بحران کو ہنگامی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ذیلی صحارا افریقہ کے نصف ممالک قرضوں کی ادائیگی پر جس قدر رقم خرچ کرتے ہیں وہ ان کے ہاں طبی سہولیات کی فراہمی پر ہونے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے ممالک کو قرضوں میں سہولت دینے، ٹیکس اصلاحات اور بڑے پیمانے پر عالمی مدد کی ضرورت ہے۔
نائب سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک کو ایچ آئی وی کے خلاف پائیدار طور سے مالی وسائل کی فراہمی اور ایڈز کے خلاف جنگ میں ملکی سطح پر مضبوط قیادت درکار ہے۔
طبی خدمات سے محرومیانہوں نے انسانی حقوق پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پسماندہ سماجی گروہوں کے خلاف تادیبی قوانین، تشدد اور اظہار نفرت کے باعث ایڈز سے وابستہ بدنامی میں شدت آ رہی ہے اور لوگ ضروری طبی خدمات سے محروم ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحت کا تحفظ دراصل انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔
امینہ محمد نے بتایا ہے کہ مقامی سطح پر ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف کام کرنے والیب ہت سی تنظیمیں مالی وسائل نہ ہونے کے باعث بند ہو چکی ہیں جبکہ اس وقت ان کے کام کی اشد ضرورت تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کو اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے مدد کی ضرورت ہے۔ 2030 تک ایڈز کے پھیلاؤ کا خاتمہ ناممکن نہیں لیکن موجودہ حالات میں اس حوالے سے کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔