پتوکی:چندہ چور مسجد کے غلے میں چھوڑےکرنٹ سے مارا گیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
ملک محمد اکمل: پتوکی کے نواحی گاؤں جودھ سنگھ میں مسجد کے غلے سے چندہ چوری کرنے والا ایک شخص کرنٹ لگنے سےجاں بحق ہوگیا۔پولیس نے امام اور مسجد انتظامیہ کے 6 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
پولیس کے مطابق پتوکی کے نواحی گائوں جودھ سنگھ کی مسجد کے غلے سے چندہ کی روزانہ چوری سے تنگ امام مسجد نے غلے میں خفیہ طور پر کرنٹ چھوڑ دیا تھا جو دن کو اتار لیا جاتا اور رات کو چلا دیا جاتا تھا۔ وقوعہ کے روز ایک شخص نے غلے سے پیسے چوری کرنے کی غرض سے جب ہاتھ ڈالا تو کرنٹ لگنے اس کی موت واقع ہو گئی۔ مرنیوالے شخص کی شناخت تنویر کے نام سے ہوئی ہے، وہ نشہ کا عادی تھا اور جودسنگھ کا ہی رہائشی تھا۔
قدیم اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن
پتوکی پولیس نے اطلاع ملنے پر موقع پر پہنچ کر کاروائی شروع کردی،تھانہ صدرپتوکی میں مقدمہ درج ہوگیا ہے امام اور مسجد انتظامیہ کے چھ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔تاہم مرنیوالے شخص کے ورثا نے کاروائی نہ کرنے کا بیان حلفی کا اشٹام دے دیا ہے۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
لاپتہ طالبہ کی لاش ایک ماہ بعد ملی، اسکول ٹیچر گرفتار
بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ضلع بیربھوم میں ایک دل خراش واقعے نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک مقامی اسکول کی طالبہ، جو گزشتہ ایک ماہ سے لاپتہ تھی، کی لاش ایک ویران علاقے سے بوری میں بند حالت میں ملی ہے۔ پولیس نے طالبہ کے ایک استاد کو گرفتار کرلیا ہے، جس پر اغوا اور قتل کا الزام ہے۔
طالبہ 22 اگست کو حسب معمول اسکول کے لیے نکلی تھی لیکن واپس گھر نہ پہنچی۔ اہل خانہ اور مقامی افراد نے کئی دنوں تک اس کی تلاش جاری رکھی، مگر کامیابی نہ ملی۔ بالآخر منگل کی شب کالی ڈانگا گاؤں کے مضافات میں واقع ایک سنسان مقام سے ایک بوری برآمد ہوئی، جس میں طالبہ کی لاش موجود تھی۔
متاثرہ لڑکی کے والدین نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ استاد اس سے قبل بھی نازیبا رویہ اختیار کرتا رہا تھا، اور طالبہ نے اس حوالے سے اپنی والدہ کو آگاہ بھی کیا تھا۔ اسی بنیاد پر پولیس نے استاد کو حراست میں لیا، جس نے تفتیش کے دوران جرم کا اعتراف کرلیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی مزید چھان بین جاری ہے، اور یہ بھی جانچ کی جا رہی ہے کہ قتل سے قبل کسی قسم کی زیادتی تو نہیں کی گئی۔ لاش کو فارنزک تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔
یہ واقعہ معاشرے میں بچوں کے تحفظ، تعلیمی اداروں کی نگرانی، اور متاثرہ خاندانوں کی فوری داد رسی کے حوالے سے کئی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔