راولپنڈی: تشدد سےکم عمر ملازمہ کی موت، ہسپتال منتقل کرنے والی خاتون بھی ’پلانٹڈ‘ نکلی
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
راولپنڈی کے تھانہ بنی کے علاقہ اصغر مال سکیم میں مالکان کے تشدد کا شکار ہونے والی 12 سالہ گھریلو ملازمہ اقراء زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں دم توڑ گی، بچی کو ہسپتال منتقل کرنے والی خاتون بھی مبینہ طور پر میاں بیوی کی پلانٹیڈ نکلی پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
رپورٹ کے مطابق تھانہ بنی کے علاقے میں مالکان کے بہیمانہ تشدد کا شکار ہوکر ہسپتال منتقل کی جانے والی 12 سالہ گھریلو ملازمہ اقرا سر اور جسم کے مخلتف حصوں پر آنے والی شدید چوٹوں کے باعث زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں ہی دم توڑ گی۔
اس پر پولیس نے بچی کے والد ٹنا اللّٰہ جسکا تعلق منڈی بہاوالدین کی تحصیل پھالیہ سے ہے کی مدعیت میں بچی کو حبس بیجا میں رکھ کر تشدد کرکے قتل کیے جانے و سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔
مقدمے میں بچی کے والد نے بتایاکہ محنت مزدوری کرتا ہوں پانچ بچے ہیں 12 سے 13 سالہ بیٹی راولپنڈی میں میاں راشد شفیق کے گھر ایک سال دس ماہ سے 8 ہزار روپے ماہانہ پر گھریلو ملازمہ ہے، تین ماہ قبل بیٹی سے مل کر گیا، 10 دن قبل بیٹی نے فون کرکے بتایا کہ مالکان راشد شفیق اور ا نکی اہلیہ ثنا تشدد کرتے ہیں، مجھے مار دیں گے۔
اس میں کہا گیا کہ غربت کے باعث پنڈی نہ آسکا، بیٹی کو تسلی دی آج پتا چلا کہ بیٹی ہولی فیملی ہسپتال میں ہے، یہاں پہنچا تو ڈاکٹرز نے بتایا کہ بچی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا ہے جس سے اس کی کافی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، راشد شفیق اور اسکی اہلیہ مسماتہ ثنا نے بیٹی پر تشدد کرکے شدید زخمی کیا، پھر اسکا علاج کرانے کے بجایے حبس بیجا میں رکھ کر سخت زیادتی کی ہے۔
پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کی، پولیس حکام کے مطابق ابتدائی تفیتیش میں پتا چلا ہے کہ راشد شفیق گارمنٹس کی دکان پر کام کرتا ہے، دونوں میاں بیوی کے آٹھ بچے ہیں اور انھوں نے 12 سالہ اقراء کو 8 ہزار روپے گھریلو ملازمہ رکھا ہوا تھا کہ چند دن قبل راشد کی بیٹی نے والدہ کو شکایت کرتے ہوئے اقراء پر الزام عائد کیا کہ اس نے چاکلیٹس چرا لی ہیں، یہ معصوم بچی پر تشدد کی وجہ بنی۔
پولیس کے مطابق ابتداہی تفتیش مین پتہ چلا کہ مالکن مسماتہ ثنا راشد نے روٹی پکانے والے بلین سے اقراء کو تشدد کا نشانہ بنایا جس سے بچی کے سر اور جسم کے مخلتف حصوں پر شدید چوٹیں آئیں، اس دوران اسی حالت میں بچی کو باندھ کر بھوکا پیاسا بھی رکھا گیا تاہم علاج نہ ہونے پر سر اور جسم کے دیگر حصوں پر چوٹیں بگڑتی چلی گئیں تو بچی پر بے ہوشی طاری ہوگی جس پر خاتون بچی کو لیکر ہسپتال پہنچی جہاں بچی پر تشدد کیے جانے کی تصدیق ہوئی۔
پولیسں حکام کا کہنا تھاکہ بچی کو ہسپتال منتقل کرنے والی خاتون کا کردار بھی مشکوک ہے اور بظاہر وہ راشد شفیق اور اسکی اہلیہ کہ پلانٹنڈ لگتی ہے کیونکہ ہسپتال میں اس کا ابتدائی بیان کہ بچی کا والد ایک ماہ قبل فوت ہوچکا ہے اور والدہ عدت میں ہے حقائق سے ہٹ کر پایا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا تھاکہ میاں بیوی اور مزکورہ خاتون مسماتہ روبینہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے جنہیں عدالت مین پیش کیا جایے گا۔
سی پی او راولپنڈی خالد ہمدانی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ویژن کے مطابق بچوں پر تشدد کسی صورت قابل برداشت نہیں، ایسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف زیرو ٹالیرنس پالیسی ہے، بچی پر تشدد میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی۔
چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے بھی کمسن گھریلو ملاذمہ اقرا پر تشدد کے واقعہ کا نوٹس لیا چائلڈ پروٹیکشن بیورو راولپنڈی کی ٹیم ڈسڑکٹ آفیسر چائلڈ پروٹیکشن بیورو راؤ خلیل احمد کی سربراہی میں ہسپتال پہنچی اور وہاں بچی کی دیکھ بھال کرتی رھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہسپتال منتقل ہسپتال میں راشد شفیق کے مطابق تشدد کا بچی پر بچی کو
پڑھیں:
پولیس اسٹیٹ
سیلاب نے وسیب کے علاقے کو تباہ کردیا۔ احمد پور شرقیہ کا علاقہ بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے نہیں بچ سکا۔ عرفان بلوچ کی عمر 15 سال تھی۔ وہ احمد پور شرقیہ میں اپنے والدین کے ساتھ مل کر مزدوری کرتا تھا۔ جب سیلاب نے روزگار کے دروازے بند کیے تو عرفان اپنے تین دوستوں کے ساتھ بس میں سوار ہو کر کراچی چلا آیا۔ کراچی کے علاقے بفرزون کی بی آر سوسائٹی میں اس کے ایک چچا رہتے ہیں۔
عرفان بدھ 22 اکتوبر کو اپنے دوستوں ناصر اور سلیمان کے ساتھ ناشتہ کرنے عائشہ منزل گیا جہاں وہ اور اس کے دوست ٹک ٹاک بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ کراچی پولیس کے انویسٹی گیشن یونٹ کے اہلکار اس علاقے میں ’’ شکار‘‘ کی تلاش میں تھے۔ ان اہلکاروں کو یہ تینوں نوجوان شکار کی صورت میں نظر آگئے۔ پولیس اہلکاروں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو استعمال کیا اور ان تینوں نوجوانوں کو زبردستی پولیس وین میں دھکیلا۔ ان کے موبائل فون چھین لیے گئے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں اور کسی نامعلوم سیف ہاؤس میں انھیں منتقل کردیا گیا۔ پھر ان بے گناہ نوجوانوں پر تھرڈ ڈگری تشدد کا آغاز ہوا۔
پتہ نہیں یہ پولیس والے ان نوجوانوں سے کتنے ناکردہ جرائم کا اقرار کروانا چاہتے تھے مگر 15 سالہ عرفان پولیس کے بیہمانہ تشدد کو برداشت نہ کرسکا اور جان کی بازی ہار گیا۔ عرفان کے ایک ساتھی نے رپورٹر کو بتایا کہ اگرچہ عرفان زندگی کی بازی ہار چکا تھا مگر یہ پولیس والے لاش پر بھی تشدد کرتے رہے۔ پولیس والوں نے اپنی مرضی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی، پولیس والے عرفان کی موت کو دل کا دورہ کی وجہ قرار دے رہے تھے مگر ڈاکٹر میں انسانیت موجود تھی لہٰذا پولیس والے اپنے مقصد میں ناکام رہے۔
پولیس سرجن نے مجسٹریٹ کی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کرنے پر زور دیا اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عرفان کی موت بیہمانہ تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے۔ عرفان کے چچا اور رشتے دار عرفان اور اس کے دوستوں کو تھانوں اور اسپتالوں میں تلاش کرتے رہے مگر کسی تھانے میں انھیں کوئی جواب نہ ملا۔ پولیس افسران نے 18 گھنٹوں بعد عرفان کے چچا کو تھانے بلایا اور عرفان کی موت کی اطلاع دی۔ پولیس افسران نے اس کے ساتھ عرفان کے دوستوں کی آنکھوں سے کالی پٹیاں اتار کر انھیں تھانے سے جانے کی اجازت دیدی۔ عرفان کے لواحقین نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سہراب گوٹھ کے قریب عرفان کی میت کے ساتھ احتجاج کیا۔
کچھ لمحہ بعد پولیس فورس فوراً موقع پر پہنچی اور ٹریفک کو متبادل راستوں پر منتقل کیا۔ عرفان کے لواحقین کئی گھنٹوں تک احتجاج کرتے رہے لیکن کوئی وزیر یا پولیس کا افسر ان کی داد رسی کے لیے نہیں آیا، صرف پولیس افسران نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور آخر پولیس حکام مجبور ہوئے کہ وہ کئی سپاہیوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کریں۔
اس سے پہلے پولیس حکام نے اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کے لیے صدر تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کی تھی جس میں اسلحہ کی برآمدگی کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ممنوعہ مقامات کی وڈیو بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر دیگر نوجوانوں کی رہائی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ ایف آئی آر جھوٹی تھی۔ ناصر اور سلیمان نے بتایا کہ ہم تو عائشہ منزل کے پل کے نیچے ٹک ٹاک بنا رہے تھے، وہاں تو کوئی ممنوعہ مقام موجود نہیں۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تشدد میں ملوث کئی سپاہی گرفتار ہوگئے ہیں اور اب یہ مقدمہ مزید تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کے سپرد کردیا گیا ہے ، یوں اب ایف آئی اے کے افسران کا امتحان کا وقت آگیا ہے۔ سپریم کورٹ کو تھانے میں عرفان کے قتل کا نوٹس لینا چاہیے۔ عدالت کی مداخلت سے ہی ان ملزمان کو قرار واقعی سزا مل سکتی ہے، مگر عرفان پہلا فرد نہیں ہے جو بے گناہ تھا اور پولیس کے تشدد سے جان سے گیا۔
ایسے سیکڑوں افراد ہیں جو گزشتہ کئی برسوں میں پولیس کے تشدد کا شکار ہوئے۔ گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں میرپور خاص کے محکمہ صحت کے ڈاکٹر شاہنواز کو پولیس نے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا۔ انھیں کراچی سے تھرپارکر لے جایا گیا جہاں ایک نام نہاد پولیس مقابلے میں ڈاکٹر شاہنواز کو قتل کردیا گیا۔ بعد میں ایک ہجوم نے ان کی میت کو نذرآتش کیا، اس مقدمے کا پوری دنیا میں چرچا ہوا۔ سندھ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس واقعے کا نوٹس لینا پڑا۔ ڈاکٹر شاہنواز کے قتل میں ڈی آئی جی کی سطح کے افسران شامل تھے۔
ان پولیس والوں کو گرفتار کیا گیا۔ یہ مقدمہ ابھی تک زیرِ سماعت ہے مگر اب مقدمہ میں ملوث پولیس افسران کو ان کے عہدوں پر بحال کردیا گیا ہے۔ 2018 میں عرفان جیسا ایک نوجوان نقیب اللہ محسود پولیس کے تشدد کا شکار ہوا۔ نقیب اللہ جس کا تعلق وزیرستان سے تھا سہراب گوٹھ کے علاقے میں مقیم تھا۔ اس علاقے میں پولیس کا اسپیشل یونٹ متحرک تھا۔ راؤ انوار اس یونٹ کی سربراہی کررہے تھے۔ یہ نوجوان بھی پولیس تشدد کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گیا۔ پولیس کے اسپیشل یونٹ نے اس وقت نقیب اللہ محسود کو طالبان دہشت گرد قرار دیا۔ مگر نقیب اللہ محسود کی برادری نے سپرہائی وے پر دھرنا دے دیا۔
یہ دھرنا کئی دن تک جاری رہا۔ پھر یہ دھرنا شمالی وزیرستان تک پھیل گیا۔ منظور پشتین نے اس دھرنے کی قیادت سنبھال لی۔ اس قتل کی تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ نقیب اللہ محسود ایک غریب شخص تھا جو شاید روزگار کے حصول کے لیے کراچی آیا تھا۔ اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت کئی پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ راؤ انوار اپنی گرفتاری قبل از وقت ضمانت کے لیے سپریم کورٹ تک گئے، بہرحال پولیس افسروں کے خلاف مقدمہ تو چلا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی سرد پڑگیا۔
اسی واقعے کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران پختون تحفظ موومنٹ PTM قائم ہوئی۔ اس تحریک نے خیبر پختون خوا میں طالبان دہشت گردی کے خلاف عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جرائم کی بیٹ پر کام کرنے والے ایک سینئر صحافی کہتے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو یہ ہے کہ پولیس بے گناہ افراد کو پکڑتی ہے، ان پر تشدد کر کے ان کے لواحقین سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس دوران پولیس بدترین تشدد اس لیے کرتی ہے کہ وہ کسی جرم کا اقرار کر لیں، یوں زبردستی اقرارِ جرم کرانے کی کوشش میں کمزور افراد جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
پولیس ان افراد کا انکاؤنٹر کرتی ہے جو معروف مجرم سمجھے جاتے ہیں۔ پولیس والوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ عدالتوں سے انھیں سزا نہیں ہوسکتی، اس بناء پر پولیس کو خود ان افراد کو قتل کرنا چاہیے۔ یہ صورتحال پورے ملک کی ہے مگر گزشتہ ایک سال سے پنجاب میں یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن HRCP کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اس سال کے 9 ماہ کے دوران پنجاب میں 500 سے زائد افراد پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس صورتحال پر سخت تشویش ہے۔