فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا  7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔

فوجی عدالت سے سزا یافتہ مجرم جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ لیاقت حسین کیس آرٹیکل 10 اے سے پہلے کاہےجبکہ1975  میں ایف بی علی کیس میں  پہلی دفعہ 2 ون ڈی ون کا ذکر ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر بنیادی حقوق دستیاب نہ ہوں اور کسی ایکٹ کے ساتھ ملا لیا جائے، تو کیا بنیادی حقوق متاثر ہوں گے، جس پر سلمان اکرم راجہ بولے؛ آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے اس میں کوئی بھی ترمیم ہوئی تو بنیادی حقوق ختم ہو جائیں گے۔

سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل  نے دریافت کیا کہ اگر آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے کوئی جرم کرتا ہے تو کیا اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا۔

مزید پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، تحریری حکمنامے میں کیا کہا گیا ہے؟

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے، اگر کوئی پنجاب میں گھر پر پتنگ اڑاتا ہے تو مقدمہ ملٹری کورٹ میں نہیں جائے گا، اس پر بھی سویلین والا قانون لاگو ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ سلمان اکرم راجہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ سلمان اکرم راجہ فوجی عدالتوں میں سلمان اکرم راجہ جسٹس جمال آرمی ایکٹ

پڑھیں:

عدالتوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے، چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کا انضمام محض جدیدیت نہیں بلکہ عدالتوں کو زیادہ قابل رسائی، شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے۔

قانون و انصاف کمیشن آف پاکستان کے زیراہتمام ’پاکستان کے عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کا استعمال: امکانات اور وعدے‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے سمپوزیم میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس سمپوزیم کو بروقت اور مستقبل بین قرار دیا، جو قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی (NJPMC) کے آئندہ اجلاس کے اصلاحاتی ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔

یہ بھی پڑھیں عدالتی نظام میں بہتری کے لیے چیف جسٹس کی کوششیں جاری

سمپوزیم میں اعلٰی عدلیہ کے جج صاحبان، بین الاقوامی ماہرین اور اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی تاکہ عدالتی اصلاحات کے مستقبل پر ڈیجیٹل تبدیلی کے تناظر میں غور کیا جا سکے۔

جسٹس شاہد وحید نے پاکستان کے عدالتی نظام میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی اور ارتقا کا جائزہ پیش کیا، جس میں حاصل شدہ سنگ میل اور موجودہ ڈھانچہ جاتی چیلنجز کو اجاگر کیا گیا۔

اس سمپوزیم میں بین الاقوامی ماہرین کی آراء بھی شامل تھیں جن میں چین کی سپریم پیپلز کورٹ سے تعلق رکھنے والی ماہر لی شیاؤہوئی نے چین کے عدالتی اصلاحاتی ڈیجیٹل سفر کو شیئر کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر حسن مندل، ریکٹر استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی ترکیہ نے عالمی تناظر میں عدالتوں میں ٹیکنالوجی کے اطلاق پر روشنی ڈالی، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر چیتن الماس، غازی یونیورسٹی ترکیہ نے عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت (AI) کے بڑھتے ہوئے کردار پر گفتگو کی۔

وفاقی سیکریٹری برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام ضرار ہشام خان نے پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے منصوبے بیان کیے اور عدالتی شعبے میں تبدیلی کے لیے ادارہ جاتی تعاون پر زور دیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس علی باقر نجفی (ججز سپریم کورٹ آف پاکستان/چیئرمین و ممبران نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی) اور قانون و انصاف کمیشن آف پاکستان (LJCP) کی قیادت کو سراہا۔

انہوں نے بین الاقوامی مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور چینی سپریم پیپلز کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ژانگ جن اور ترکیہ کی آئینی عدالت کے چیف جسٹس جسٹس قادر اوزکایا کا مسلسل تعاون اور عدالتی اشتراک پر شکریہ ادا کیا۔

اصلاحاتی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے چیف جسٹس نے حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے متعارف کردہ ڈیجیٹل اختراعات جیسے کہ ای فائلنگ، فیصلوں پر کیو آر کوڈز، ویڈیو لنک سماعتوں کی توسیع، شہری رائے کا پورٹل اور مقدمات کی نگرانی کے لیے ڈیٹا اینالٹکس کا استعمال کا ذکر کیا۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ڈیجیٹل خلیج، بدلتے قانونی ڈھانچے، اور سائبر سیکیورٹی کے خطرات اب بھی اہم چیلنجز ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ ٹیکنالوجی میں مزاحمت اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے اور ایک جامع قومی فریم ورک کی ضرورت ہے جو عدالتی ڈیجیٹل تبدیلی کی راہنمائی کرے، جس میں مضبوط سائبر سیکیورٹی پروٹوکولز، اے آئی کے استعمال کے لیے اخلاقی رہنما اصول اور اعلیٰ عدالتوں، عدالتی اکیڈمیوں، سرکاری اداروں، تعلیمی اداروں اور قانونی برادری کے درمیان تعاون کا کلچر شامل ہو۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ ٹیکنالوجی ادارہ جاتی اعتماد قائم کرنے، رسائی میں رکاوٹیں ختم کرنے اور انصاف کے معیار کو بہتر بنانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں عدالتی نظام پر اعتماد یا اسے ختم کرنے میں ضلعی عدلیہ کا کردار ہوتا ہے، چیف جسٹس پاکستان

انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل کی کہ وہ اتحاد اور عزم کے ساتھ آگے بڑھیں تاکہ ایسا عدالتی نظام تشکیل دیا جا سکے جو حال کی ضروریات کو پورا کرے اور آنے والی نسلوں کا اعتماد حاصل کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ٹیکنالوجی جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس پاکستان وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف ایکٹ 1995 کو چیلنج کرنے والی عرضی پر حکومت کو نوٹس جاری کیا
  • یہ تفتیش بدنیتی پر مبنی ،پہلے جو گواہ اور ثبوت انہوں نے پیش کئے وہ عدالتوں نے نہیں مانے،عمران خان کے وکیل کےضمانت کی درخواست پر دلائل
  • محبت میں ہار کر جیتنے کا تجربہ تو  آپ کا ہو سکتا ہے ،جسٹس جمال مندوخیل  کا وکیل سنی اتحاد کونسل   کو مسکراتے ہوئے جواب
  • سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں جسٹس جمال مندوخیل
  • عدالتوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے، چیف جسٹس پاکستان
  • ججزتبادلہ کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی ،اٹارنی جنرل دلائل دیں گے
  • آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا ، سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ، جسٹس جمال مندوخیل
  • سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس
  • سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، جسٹس جمال مندوخیل
  • سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں: جسٹس جمال خان مندوخیل