اسپتال میں مردہ قرار دیے گئے بچے کا سر کتے کھا گئے
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
بھارتی ریاست اتر پردیش میں کتوں کے نومود مردہ بچے کا سر کھانے کا دلخراش واقعہ سامنے آنے کے بعد تنازع کھڑا ہوگیا۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق منگل کو للت پور میڈیکل کالج میں کتوں کو بچے کے سر کو کھاتے ہوئے دیکھا گیا اور جب تک لوگ کتوں کو بھگانے کے لیے آئے، اس وقت تک وہ بچے کا سر کھا چکے تھے۔
اسپتال انتظامیہ نے افسوسناک واقعے کی ذمہ داری لینے سے انکار کرتے ہوئے بچے کے اہل خانہ پر غفلت کا الزام لگایا۔
9 فروری کو للت پور میڈیکل کالج اسپتال میں بچے کی پیدائش ہوئی، پیدائش کے وقت بچے کا وزن بہت کم تھا اور اسے اسپیشل نوبورن کیئر یونٹ میں داخل کرایا گیا۔
چیف میڈیکل آفیسرنے کہا کہ بچہ پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہوا، بچے کا سر مکمل نہیں تھا، اس کی ریڑھ کی ہڈی بھی نہیں تھی اور اس کا وزن 1.
ڈاکٹر کے مطابق شام کو بچے کی موت ہو گئی اور اس کی لاش لواحقین کے حوالے کر دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ بچے کی آنٹی نے لاش لی، ہمارے پاس خاتون کے انگوٹھے کے نشان کے ساتھ رسیونگ سلپ ہے۔"
منگل کی دوپہر ہسپتال انتظامیہ کو کتوں کے حملے کی خبر ملی، تحقیقات کرنے پر بچے کی سر بریدہ لاش ملی، ہسپتال انتظامیہ نے الزام لگایا کہ لواحقین لاش چھوڑ گئے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ یقین ہے کہ اہل خانہ نے بچے کی لاش کو پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر پھینکا۔ بچے کے قریب ہسپتال کا ٹیگ موجود تھا جس سے ہم اس کی شناخت کر سکتے ہیں۔
للت پور میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈی نے 4 ڈاکٹروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جسے 24 گھنٹے کے اندر نومولود سے متعلق مکمل تحقیقاتی رپورٹ ارسال کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔
تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔
اہم جماعتیں کون سی ہیں؟شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔
ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
(جاری ہے)
آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
یونس کی پوزیشن کیا ہے؟ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘
امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔
‘‘یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔
فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔
فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔
گروپ کیوں منقسم ہیں؟اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔
یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔
نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔
‘‘بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔
دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔
جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔
‘‘این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔
انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘
جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔
بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔
بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
‘‘یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔
آگے کیا چیلنجز ہیں؟عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔
عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔
انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔
ادارت: صلاح الدین زین