بی جے پی کی جھوٹی قوم پرستی ایک بار پھر بے نقاب ہوگئی، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
ملکارجن کھڑگے نے یہ بات ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہی جس میں کہا گیا ہے کہ انرجی پارک کیلئے سرحدی حفاظتی قوانین میں ہندوستان کی نرمی سے صنعتکار کو فائدہ ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے بی جے پی پر سخت تنقید کی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی جھوٹی قوم پرستی ایک بار پھر بے نقاب ہوگئی ہے۔ آپ نے چند ارب پتیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہماری سرحدوں پر قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس پوسٹ میں ملکارجن کھڑگے نے نریندر مودی سے کئی سوال پوچھے ہیں۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے کہا "آپ نے اپنے عزیز دوست کو پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کے قریب صرف 1 کلومیٹر کی قیمتی اسٹریٹجک زمین تحفے میں دی ہے"۔ انہوں نے کہا "کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ کی حکومت نے نہ صرف پاک بھارت سرحد پر بلکہ بنگلہ دیش، چین، میانمار اور نیپال سے ملحقہ زمین پر بھی قوانین میں نرمی کی ہے، جس سے ہماری سٹریٹجک اور سرحدی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے"۔
ملکارجن کھڑگے نے نریندر مودی سے کہا "یاد رکھیں یہ آپ ہی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ کوئی ہماری سرحد میں داخل نہیں ہوا"۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ بات اس وقت کہی جب لداخ میں چین سے لڑتے ہوئے ملک کے 20 بہادر سپاہیوں نے عظیم قربانی دی، اگر بارودی سرنگیں، اینٹی ٹینک سسٹم لگانے کی ضرورت پڑی تو کیا ہوگا۔ ملکارجن کھڑگے نے یہ بات ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہی جس میں کہا گیا ہے کہ انرجی پارک کے لئے سرحدی حفاظتی قوانین میں ہندوستان کی نرمی سے صنعتکار کو فائدہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے قابل تجدید توانائی پارک کے لئے راستہ بنانے کے لئے پاکستان کی سرحد پر قومی سلامتی کے پروٹوکول میں نرمی کی۔ انہوں نے کہا کہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پروجیکٹ گوتم اڈانی کے حوالے کیا گیا تھا، جو ہندوستان کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کے لئے
پڑھیں:
جھوٹے لوگ، جھوٹی محبت اورجھوٹی دعائیں
اب تو خیر ہم صرف اس ’’ سفر‘‘ کے ہوکر رہ گئے ہیں جو بقول رحمان بابا ، کہیں آئے جائے بغیر بیٹھے بیٹھے خود بخود طے ہورہا ہے ۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب آتش جوان تھا خلیل خان غلیل لے کر فاختہ اڑایا کرتا تھا اورحفیظ جالندھری ملکہ پکھراج کی آوازمیں گاتا تھا کہ ابھی تو میں ’’جوان‘‘ ہوں، ابھی تو میں ’’جوان ‘‘ ہوں۔ چنانچہ ہم بھی کبھی یہاں کبھی وہاں سفر میں مصروف رہتے تھے، مشاعروں کے لیے بیاہ شادیوں کے لیے تقریبات کے لیے اور بہت ساری فضولیات کے لیے خرافات اور واہیات کیلیے ۔ ان ہی دنوں ہمیں ایک دعوت ملی کسی عرب ملک میں پشتو مشاعرے کی ۔
ان دنوں یہ ہوا بہت زور سے چلی تھی ،شورسے چلی تھی، اور ٹنگ ٹکورسے چلی تھی کہ کچھ لوگ شاعروں، فنکاروں اورکلاکاروں یا مسخروں کے گروپ بنا کر ان ممالک میں جاتے تھے اور’’داد‘‘ پاتے تھے، یوں کہیے کہ خالی ہاتھ جاتے تھے اورجھولیوں، جیبوں اورنیفوں میں ریال، دینار اوردرہم بھر کر لاتے تھے ۔ لیکن ہم نے انکار کیا ، انھوں نے اصرار کیا اورتعجب کا اظہار کیا کہ لوگ تو ایسی دعوتیں خدا سے مانگتے ہیں ،ہماشما سے مانگتے ہیں اوراپنی رضا سے جاتے ہیں اورتم انکار کرتے ہو، نعمت احقار کرتے ہو ۔
تب ہم نے منہ کھولا، بات کو تولا اوران پر گولہ پھینک دیا۔ کہ ہمیں شرم آتی ہے ان لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے لجا آتی ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے بھگایا، دھتکارا ہے، وطن بدرکیا ہے، اپنے ملک میں ان پر سارے دروازے بند کیے ہیں جیسے کوئی کسی کو اپنے ہی گھر سے دھکے دے کر بھاگنے پر مجبور کرتا ہے ، رنجورکرتا ہے اورمفرورکرتا ہے کہ یہاں ہم نے ایک نہایت ہی ناہموار نظام بنایا ہے۔
مصنوعی اسلام بنایا ہے اور کھلے عام بنایا ہے کہ پندرہ فی صد چنے ہوئے چور اس میں چر رہے ہیں اورپچاسی فی صد لوگ بھوکوں مر رہے ہیں ، نہ ان کو روٹی ملتی ہے نہ کپڑا، نہ مکان، نہ روزگار ،نہ ہی جینے کا حقدار سمجھا جاتا ہے اورجہاں پچاسی فی صد وسائل پر پندرہ فی صد رذائل کا قبضہ ہوجاتا ہے تو ان کے گھائل بھاگ جاتے ہیں، کچھ لانچوں میں ڈوب جاتے ہیں، کچھ کنٹینروں میں دم گھٹنے سے مرجاتے ہیں، کچھ جیلوں میں سڑ جاتے ہیں یا کانوں میں زندہ درگور ہوجاتے ہیں ،جو باقی بچ جاتے ہیں اورکسی نہ کسی طرح ہزار ذلتیں اٹھا کر حقارتیں سہہ کر بہہ کر آتے ہیں توائیرپورٹ پر ہی اپنے ان پر جھپٹ پڑتے ہیں اورتب تک نوچتے ہیں، کھسوٹتے ہیں، لوٹتے ہیں جب تک ان کے لباس تارتار، بدن فگار اورذہن و دل غار غار نہیں ہوجاتے ۔
اوراب میں وہاں جاؤں ان کو جھوٹ بہلاؤں جھوٹی محبت سے پھسلاؤں کہ … ہمیں بھی دو کچھ ٹکڑے۔ کیا وہ نہیں سوچیں گے کہ کتنے ڈھیٹ ہیں، بے شرم ہیں کہ ہم بھاگے ہوؤں کے آگے ہاتھ پھیلائے یہاں بھی آگئے ۔
اس ملک نے ہم کو دیا کیا؟
اس ملک سے ہم نے لیا کیا
کچھ عرصہ پہلے ایک بابا جی ڈیموں والی سرکار نہ جانے کہاں سے آئے تھے، کہیں سے ٹپکے تھے یا ٹپکائے گئے تھے اور اس نے نہایت حاکم اعلیٰ بن کر پورے عوام کے مینڈیٹ پر، انتخاب پر اورمنہ پرتھپڑ رسید کر کے ایک جائز منتخب وزیراعظم کو پرائمری استاد کی طرح کان سے پکڑ کر کلاس سے باہر کیا تھا اوراپنی خیالی ریاست مدینہ کے امیرالمومنین کا راستہ ہموار کیاتھا ۔ پھر اس کے دماغ میں خود پورا ہیرو بننے کاخیال آیا تو ڈیم ڈیم فل کانعرہ لگایا اوران ہی راندہ درگاہ اوربھگائے ہوئے سوتیلے پاکستانیوں سے چندے مانگے جیسے ہم نے ان کو سفیر بنا کر ان کو وہاں بھیجا ہو اور وہاں ان کو خزانوں پر بٹھایا ہو ۔اور اب چند روزپہلے ریاست مدینہ کے بانی نے بھی ان سے کوئی اپیل کی تھی۔
کل ملا کر بات یہ بنتی ہے کہ ہم ان مفروروں، مجبوروں، مقہوروں، وطن سے دوروں بلکہ نکالے ہوؤں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی خون پسینے کی مرنے جینے کی کمائیوں سے ہمیں کچھ بھیجو تاکہ ہم یہاں ان موٹے پیٹوں ، سیڑھی دار گردنوں اورفربہ انداموں کو اورفربہ کریں اور خونخوار کریں اور بے رحم دل آزار بنائیں تاکہ وہ کچھ اورکالانعاموں کو لوٹ کر بے در، بے گھر اور بے زر کرکے بھگانے پر مجبور کریں، کرتے رہیں، وہ بیچارے بہت ہی سادہ ہی بھولے ہیں، معصوم ہیں، اگر مظلوم ہیں پھر بھی چپ ہیں کہ وہ سدا سدا کے بھولے تھے، بھولے ہیں اوربھولے رہیں گے ورنہ صاف صاف کہہ دیتے کہ ؎
تو نے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا
اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا
وہ جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں وہ بھی بہت ہے جو حکومتی ادارے ان کو نوچ نوچ کر لوٹتے ہیں، وہ بھی بس ہے۔ ارے ہاں یاد آیا۔ اس ملک کی حکومتوں نے ان کو توڑنے نچوڑنے اورککھوڑنے کے لیے ایک محکمہ بھی بنایا ۔اوورسیز بدبخت ،اس کے وزیر افسر، نمائندے الگ سے وہاں کے ’’دورے‘‘ کرتے ہیں ان کو جھوٹے دلاسے دیتے ہیں اور’’بھرے بھرائے ‘‘ آتے ہیں ۔
ٹھیک ہے وہ بھولے ہیں سادہ ہیں بلکہ احمق ہیں کہ محبت کرنے والے مخلص لوگ اس دنیا میں احمق ہی کہلاتے ہیں لیکن ان کو اس ظالم، جفاکار، ستم گار اور بے انصا ف وطن سے محبت کی کتنی سزائیں کب تک دوگے ۔ ٹھیک ہے اگر ان کا ایمان ہے کہ ؎
دل دیا ہے جان بھی دیں گے اے وطن تیرے لیے
تو اس کی اتنی زیادہ اورمسلسل سزائیں تو نہ دو کہ آرام کی ایک سانس بھی لینے نہ دو
شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
میں دورجاچکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
جو زہر پی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیاہے
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو