یمن: حوثیوں کی زیر حراست ڈبلیو ایف پی اہلکار کی ہلاکت کی تحقیقات کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے یمن میں حوثیوں (انصاراللہ) کے زیرحراست 'ڈبلیو ایف پی' کے اہلکار کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ملک میں ادارے کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے اس واقعے پر افسوس اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے متوفی کے اہلخانہ اور ساتھیوں سے تعزیت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے، تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ متوفی اہلکار کی موت کیسے حالات میں ہوئی تاہم، اقوام متحدہ حوثی حکام سے اس بارے میں فوری وضاحت لے رہا ہے۔ اس واقعے کی بلاتاخیر، شفاف اور مفصل تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داروں کا محاسبہ یقینی بنایا جانا چاہیے۔ Tweet URLاحمد نامی اہلکار کو حوثیوں نے 'ڈبلیو ایف پی' (عالمی پروگرام برائے خوراک) کے سات دیگر لوگوں کے ساتھ 23 جنوری سے حراست میں لے رکھا تھا۔
(جاری ہے)
تاحال ان کی موت کا سبب معلوم نہیں ہو سکا۔انسانی امداد کی فراہمی معطلاس واقعے کے بعد سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے تمام اداروں کو شمال مغربی یمن کے علاقے صعدہ میں امدادی پروگراموں اور وسائل کی فراہمی کو روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس غیرمعمولی اور عارضی اقدام کا مقصد اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور اس کے شراکت داروں کی سلامتی اور تحفظ یقینی بنانا ہے۔
ادارے دیگر اہلکاروں کی ناجائز حراست بھی ناقابل قبول ہے۔ حوثیوں کو چاہیے کہ وہ انہیں فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کریں۔ اقوام متحدہ اس صورتحال کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اپنے عملے کے ارکان کی سلامتی اور تحفظ یقینی بنانے کے اقدامات اٹھا رہا ہے جو یمن کے لوگوں کو مدد کی فراہمی کے لیے کوشاں ہیں۔یاد رہے کہ حوثیوں نے چند برس سے اقوام متحدہ کے درجنوں اہلکاروں، قومی و بین الاقوامی این جی اوز کے عملے، سول سوسائٹی کے ارکان اور سفارتی عملے سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کو حراست میں لے رکھا ہے۔
بلاجواز گرفتاریاں'ڈبلیو ایف پی' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مکین نے اس واقعے کو المناک نقصان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ متوفی نے یمن کے لوگوں کو غذائی امداد کی فراہمی کے لیے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے اہلکاروں کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں۔ حوثی تمام زیرحراست اہلکاروں کو فوری طور پر رہا کریں۔
یمن میں حوثیوں اور سعودی عرب کے زیرقیادت علاقائی اتحاد کی حمایت یافتہ حکومت کے مابین ایک دہائی سے جاری لڑائی کے نتیجے میں ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
'ڈبلیو ایف پی' اپنے پرواگراموں کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو خوراک مہیا کرتا ہے جس میں جنگ سے متاثرہ خاندانوں کو ضروری غذائی اشیا اور سکولوں کے بچوں کے لیے کھانے کے فراہمی کے علاوہ خواتین اور بچوں کو غذائیت پہنچانا بھی شامل ہے۔ یہ خدمات اندرون ملک بے گھر ہو جانے والے لوگوں کی پناہ گاہوں میں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے کی فراہمی اس واقعے لوگوں کو
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز
غزہ(آئی پی ایس )اردن اور جرمنی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پلان کے تحت فلسطینی پولیس کی معاونت کے لیے متوقع بین الاقوامی فورس کو اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔
یہ نام نہاد بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی جبکہ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔
تاہم اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا، الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزر خارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نا صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے، جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے۔اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو اس وقت لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی سابق قیادت کا حکومتی وزرا اور فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا فیصلہ شاہ محمود قریشی سے سابق رہنمائوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی پاکستان کے بلال بن ثاقب دنیا کے بااثر ترین کرپٹو رہنما ئوں میں شامل اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم