ایران اور ترکمانستان کا ٹرانزٹ ٹریڈ 20 ملین ٹن تک پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
نقل و حمل اور ٹرانزٹ کے ماہر حسن کریم نیا نے کہا ہے کہ ایرانی بندرگاہوں بالخصوص شہید رجائی بندرگاہ اور امیر آباد بندرگاہ باہمی تجارت کو فروغ دینے، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان نقل و حمل اور ٹرانزٹ کی سہولت کے لیے ایک قابل اعتماد تجارتی راستے کے طور پر اہم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بین الاقوامی اور علاقائی تجارت کے لئے بہترین جغرافیائی محل وقوع کی بدولت ایران اور ترکمانستان کا ٹرانزٹ ٹریڈ 20 ملین ٹن تک پہنچ گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے پاس دوطرفہ ٹرانزٹ تعاون بڑھانے کا امکان موجود ہے جو خطے میں اقتصادی تعلقات اور تجارتی عمل کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد الگ ہونیوالے خشکی سے گھرے وسطی ایشیائی ممالک کو اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے جنوب کے گرم پانیوں تک رسائی کی ضرورت تھی۔ ایران، خلیج فارس اور بحیرہ عمان کے ذریعے کھلے پانیوں تک رسائی کے ساتھ اور ترکمانستان، ایران سے گزرنے والے شمال جنوب اور مشرق مغرب راہداریوں پر اپنی موجودگی اور بحیرہ کیسپین پر ساحلی پٹی کے ساتھ، سامان کی نقل و حمل کے لیے متنوع تجارتی راستے کھول سکتا ہے۔
ترکمانستان شمال-جنوب کوریڈور کی دو مشرقی (وسطی ایشیا) اور وسطی (کیسپین سمندر) شاخوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جو ایرانی بندرگاہوں کے ذریعے مغربی ایشیا، برصغیر پاک و ہند کے کھلے پانیوں اور دنیا کے دیگر حصوں سے منسلک ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب ترکمانستان، چین اور یورپ کے درمیان زمینی رابطے میں کردار ادا کر سکتا ہے اور ایران اور ترکمانستان کے درمیان ریل رابطہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی راہ ہموار کرے گا۔ ترکمانستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ راشد مردوف کی سربراہی میں وفد نے نیشنل ٹرانسپورٹ اینڈ ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر کمپنی کے حکام اور عہدیداروں سے ملاقات کی ہے۔ ایران کے ٹرانسپورٹ کے نائب وزیر، شاہراہوں اور شہری ترقی کے وزیر اور پورٹس اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن کے سربراہ سعید رسولی کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدوں، خاص طور پر ٹرانزٹ صلاحیتوں کے استعمال پر بات چیت ہوئی، جس کا دونوں وفود نے خیرمقدم کیا۔
انکا کہنا تھا کہ اس میٹنگ کے دوران ریل ٹرانسپورٹ میں حصہ بڑھانے کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئی ہیں، ٹرانزٹ کا حصہ بڑھانے سے روڈ ٹرانسپورٹیشن اور روڈ فلیٹ ٹریفک کو آسان بنانے کے حوالے سے فیصلے کیے گئے، ترکمانستان اور ایران کے درمیان براہ راست پروازوں کے روٹس کے قیام پر بھی بات چیت ہوئی، جس پر سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی طرف سے عمل کیا جا رہا ہے۔ مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے، بندرگاہوں اور میری ٹائم آرگنائزیشن کے سربراہ نے بتایا کہ ترکمن باشی بندرگاہ اور امیر آباد بندرگاہ کے درمیان بحری تعاون کو فروغ دینے کے بارے میں بات چیت بھی ایک موضوع تھا، جس کی متعلقہ ورکنگ گروپس میں پیروی کی جائے گی۔
انہوں نے 2025 کے آخر تک 20 ملین ٹن سامان کی نقل و حمل کے ہدف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بہتری لانے اور مطلوبہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کیا گیا ہے۔ ریلوے نیٹ ورک، شاہراہوں کا جال اور سمندری تجارت کے امکانات ایران اور ترکمانستان دونوں ممالک کے اہداف کے حصول میں معاون ثابت ہونگے۔ نقل و حمل اور ٹرانزٹ کے ماہر حسن کریم نیا نے کہا کہ ایرانی بندرگاہوں بالخصوص شہید رجائی بندرگاہ اور امیر آباد بندرگاہ باہمی تجارت کو فروغ دینے ایران اور وسطی ایشیائی ممالک اور دیگر علاقائی اور عالمی منڈیوں کے درمیان نقل و حمل اور ٹرانزٹ کی سہولت کے لیے ایک قابل اعتماد تجارتی راستے کے طور پر اہم ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران اور ترکمانستان نقل و حمل اور ٹرانزٹ دونوں ممالک کے کے درمیان کے لیے
پڑھیں:
فضل الرحمٰن کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے لاہور، کراچی، کوئٹہ میں ملین مارچ کا اعلان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور حیثیت ایک قابض ملک کی ہے، جمعیت علمائے اسلام فلسطین کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ملک بے گناہ عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا ہے، کیا کبھی ملک دفاعی طور پر بے گناہ شہریوں کو شہید کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 اپریل کو لاہور میں بہت بڑا ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں گے اور ایک قوت بن کر سامنے آئیں جو امت مسلم کی آواز ہوگی، 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں غزہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملین مارچ ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستانی عوام خاص طور پر تاجر برادری مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں، سیاسی طور اس جہاد میں عوام کی پشت پر کھڑا ہوں گا، ہم ان کی آزادی کے لیے اپنی جنگ اور جدوجہد جاری رکھیں گے۔
’عوام مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں پر بھی حکومتی رٹ نہیں ہے اور مسلح گروہ دنداتے پھر رہے ہیں اور عام لوگ نہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں اور نہ مزدوری کرسکتے ہیں جب کہ کارباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ ان سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، وہ کسی قسم کا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، ہماری جماعت اس مسئلے کو بھی اجاگر کررہی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
’وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں‘
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں چاہے وفاق میں ہو یا صوبے میں، وہ عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور 2024 کے الیکشن پر بھی ہمارا وہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، اس بات پر زور دے رہے ہیں، قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر مسلسل عوام کی رائے کو مسترد کیا جاتا ہے اور من مانی نتائج سامنے آتے ہیں اور سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اہم اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
’اپوزیشن کا باضابطہ کوئی اتحاد موجود نہیں‘
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں رہے گی، البتہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی جماعتوں یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سے ملکر اشتراق عمل کی ضرورت ہو، اس کے لیے جمعیت کی شوریٰ حکمت عملی طے کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اب تک کوئی باضابطہ کوئی موثر اتحاد موجود نہیں لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی جوائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے راستے کھلے ہیں اور فضا ہموار ہے۔
’مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترد کرتے ہیں‘
انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل خیبرپختونخوا میں پیش کیا جانا ہے اور بلوچستان میں پیش کیا جاچکا ہے اور شاید پاس بھی ہوچکا ہے، جمعیت علمائے اسلام کی جنرل کونسل نے اس کو مسترد کردیا ہے، بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا ہے اگر ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔