بھارتی کامیڈین کے یوٹیوب شو ’’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘‘ میں نازیبا سوال کے معاملے پر مہاراشٹر سائبر سیل نے یوٹیوبر سمے رائنا کو دوسری بار طلب کرلیا ہے۔

سمے رائنا کے یوٹیوب شو ’’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘‘ کے دوران کامیڈین رنویر الہ آبادیہ کے متنازع سوال پر ہونے والے تنازعے کے بعد تحقیقات جاری ہیں۔

سمن جاری ہونے پر سمے رائنا نے بتایا کہ وہ فی الحال امریکا میں ہیں اور 17 مارچ کو واپس لوٹیں گے، جس کے بعد وہ سائبر سیل کو جواب دیں گے۔

اس واقعے کے پس منظر کے مطابق سمے رائنا کے شو ’’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘‘ میں کامیڈین رنویر الہ آبادیہ نے حریف سے والدین کے بارے میں انتہائی نازیبا سوال پوچھا تھا۔ یہ سوال سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور اس پر شدید تنقید ہوئی تھی۔

بعد ازاں رنویر الہ آبادیہ نے ایک ویڈیو میں معافی مانگتے ہوئے اسے ’’غلطی‘‘ قرار دیا، لیکن تنازع ختم نہیں ہوا۔ حالانکہ سمے رائنا نے شو کے تمام اقساط کو یوٹیوب سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ وہ تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے۔

ممبئی پولیس نے اس معاملے میں سات افراد کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، جن میں سوشل میڈیا انفلوئنسر اپوروا مخیجا بھی شامل ہیں۔ رنویر الہ آبادیہ کو بھی ایک دو دن میں پولیس کے سامنے پیش ہونے کےلیے کہا گیا ہے۔ مہاراشٹرا سائبر ڈپارٹمنٹ نے 40 سے زائد افراد کو طلب کیا ہے، جن میں شو کے شرکا اور ججز شامل ہیں۔

پولیس نے رنویر الہ آبادیہ اور چار دیگر افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا ہے اور ممبئی میں ایک ٹیم تحقیقات کررہی ہے۔

یوٹیوب پروگرام میں اس متنازع سوال کا معاملہ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی پہنچ گیا جب شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ نریش مہاسکے نے اسے اٹھایا اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کےلیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا۔

مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کہا کہ انہوں نے متنازع کلپ نہیں دیکھا، لیکن انہوں نے آزادی اظہار کی حدود کے بارے میں خبردار کیا۔ انہوں نے کہا ’’ہر کسی کو آزادی اظہار کا حق ہے، لیکن ہماری آزادی اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب ہم دوسروں کی آزادی پر تجاوز کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ اصول بنائے گئے ہیں، اگر کوئی انہیں توڑتا ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘

علاوہ ازیں قومی کمیشن برائے خواتین (NCW) نے رنویر الہ آبادیہ، سمے رائنا، اپوروا مخیجا، جسپریت سنگھ، اشیش چنچلانی، اور شو کے پروڈیوسر تشار پجاری اور سوربھ بوترا کو 17 فروری کو نئی دہلی میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

’صحت مند ماحول انسانی حق ہے‘،بین الاقوامی عدالت انصاف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں بدھ کو اپنی مشاورتی فیصلے میں کہا ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے والے ممالک پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے طرزعمل کو تبدیل کرنا، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دینا یا ماحول کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑ سکتا ہے۔

عدالت کے صدر یوجی ایواساوا نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا، ’’گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی واضح طور پر وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، اور ان کے اثرات سرحدوں سے پار جا پہنچتے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورت حال ’’ماحولیاتی تبدیلی سے لاحق شدید اور وجودی خطرے کی عکاسی کرتی ہے۔" ایواساوا کے مطابق ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی قومی ماحولیاتی حکمت عملیوں میں بلند ترین اہداف مقرر کریں۔

پیسیفک آئی لینڈز اسٹوڈنٹس فائٹنگ کلائمیٹ چینج کے ڈائریکٹر وشال پرساد، نے اس فیصلے کو بحر الکاہل کے عوام کے لیے ’’زندگی کی امید‘‘ قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا،’’آج دنیا کے سب سے چھوٹے ممالک نے تاریخ رقم کی۔ آئی سی جے کا فیصلہ ہمیں اس دنیا کے قریب لے آیا ہے جہاں حکومتیں اب اپنی قانونی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑ سکتیں۔

‘‘

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق سربراہ میری رابنسن نے اس فیصلے کو ’’انسانیت کے لیے ایک مؤثر قانونی ہتھیار‘‘ قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا،'’’یہ بحرالکاہل اور دنیا کے نوجوانوں کی طرف سے عالمی برادری کے لیے ایک تحفہ ہے، ایک قانونی موڑ جو ہمیں زیادہ محفوظ اور منصفانہ مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔

‘‘ بین الاقوامی عدالت انصاف کی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ

عدالت سے یہ رائے بحرالکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک وینوآتو نے مانگی تھی اور اس کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے والے طلبہ کے ایک گروہ نے کام شروع کیا تھا جن کا تعلق بحر الکاہل میں جزائر پر مشتمل ممالک سے ہے۔

ان طلبہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور اس حوالے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

وینوآتو کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں 29 مارچ 2023 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے دو سوالات پر قانونی مشاورتی رائے دینے کو کہا گیا۔

پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ تحفظ ماحول یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔

جبکہ دوسرے سوال میں عدالت سے رائے لی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کے اقدامات سے ماحول کو نقصان پہنچے تو ان ذمہ داریوں کے تحت اس کے لیے کون سے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔

وانواتو کے وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی رالف ریگنوانو نے عدالت کے اس فیصلے کو ''ماحولیاتی اقدام کے لیے سنگ میل‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ آئی سی جے نے ماحولیاتی تبدیلی کو براہ راست انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

‘‘

عدالت نے گزشتہ دسمبر میں تقریباً 100 ممالک اور 12 بین الاقوامی اداروں کے بیانات سنے۔ انٹیگوا اور باربودا کے وزیر اعظم گاسٹن براؤن نے عدالت کو بتایا کہ ''بے لگام اخراج‘‘ کے باعث ان کے جزیرے کی سرزمین سمندر کی نذر ہو رہی ہے۔

اس دوران، امریکہ جیسے بڑے اخراج کرنے والے ممالک نے مؤقف اختیار کیا کہ 2015ء کا پیرس معاہدہ پہلے ہی ریاستوں پر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کی قانونی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔

تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس تاریخی معاہدے سے علیحدہ کر دیا تھا۔

ماحولیاتی قانون کی ماہر جوئے چودھری نے کہا،’’پیرس معاہدہ اہم ہے، لیکن یہ واحد قانونی طریقہ نہیں۔ مختلف قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ مسئلہ وسیع ہے۔‘‘

’کھوکھلے وعدوں کے دور کا اختتام‘

وانواتو نے عدالت سے یہ بھی وضاحت مانگی کہ اگر کوئی ملک اخراج کو روکنے کی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کے قانونی نتائج کیا ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین جیسے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک، جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر چکے ہیں، انہیں سب سے زیادہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔

چودھری نے کہا، ’’اب تک کے اخراج سے کافی نقصان ہو چکا ہے اور اس کی تلافی ضروری ہے۔‘‘

غریب ممالک، جو ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جھیل رہے ہیں، طویل عرصے سے امیر ممالک سے نقصانات کا ازالہ مانگتے رہے ہیں۔

عدالت نے انتباہ دیا کہ ’’عالمی درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی نقصان اور تباہی میں اضافہ کرے گا۔" اگر ریاستیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو متاثرہ ممالک قانونی چارہ جوئی کے ذریعے معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں ’’نقصان و تلافی فنڈ‘‘ قائم کیا گیا تھا، لیکن اب تک صرف 700 ملین ڈالر کے وعدے ہوئے ہیں، جبکہ ماہرین کے مطابق 2030 تک نقصانات سینکڑوں ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔

چودھری نے کہا،’’یہ معاملہ درحقیقت جواب دہی کا ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ خالی وعدوں کا دور ختم ہونا چاہیے۔‘‘

فیصلے کے ممکنہ اثرات

آئی سی جے کا یہ مشاورتی فیصلہ ان تین فیصلوں میں سے ایک ہے جو حالیہ مہینوں میں ملکوں کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں جاری کیے گئے ہیں۔

اسی ماہ انٹر-امریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس نے بھی ایک رائے دی کہ ممالک شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ماحول اور آب و ہوا کو محفوظ بنائیں۔

اگرچہ مشاورتی آراء ملکوں کے لیے قانونی طور پر لازمی نہیں ہوتیں، لیکن ان کی اخلاقی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دنیا بھر میں ماحولیاتی مقدمات کو تقویت دے سکتا ہے۔ اب تک 60 ممالک میں تقریباً 3,000 مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔

یہ آئی سی جی کے روبرو آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس پر 91 ممالک نے تحریری بیانات داخل کیے اور 97 زبانی کارروائی کا حصہ ہیں۔

لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ ماہر جوانا سیٹزر نے کہا ’’یہ فیصلہ ایک اہم موڑ ہے۔ عدالت نے جو قانونی تشریح پیش کی ہے، وہ عالمی، قومی عدالتوں اور وکلا کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بنے گی۔‘‘

چودھری نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ نومبر میں برازیل میں ہونے والی ماحولیاتی مذاکرات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ اب کچھ معاملات پر قانونی وضاحت موجود ہے۔

انہوں نے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک واضح قانونی خاکہ دے گا جس کی مدد سے متاثرہ ممالک اور عوام آلودگی پھیلانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکیں گے۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

لوسیا شولٹن نے ہیگ، میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے رپورٹنگ میں تعاون کیا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ  وزیراعظم  وزراء کو نوٹس بھیجنے کا معاملہ لٹک گیا
  • ’صحت مند ماحول انسانی حق ہے‘،بین الاقوامی عدالت انصاف
  • عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ رُک گیا
  • لندن ہائیکورٹ: آئی ایس آئی پر مقدمہ نہیں، معاملہ صرف عادل راجا اور بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے درمیان ہے
  • رجب بٹ کے گھر فائرنگ کا معاملہ، پولیس کارروائیوں کے بعد ٹک ٹاکرز میں صلح
  • کوئٹہ میں دوہرے قتل کا معاملہ: نامزد سردار شیر باز ساتکزئی انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش
  • پہلے لیڈر اور نظریے کی گاڑی چلاتا تھا اور اب مریم کی گاڑی چلانے کیلئے بہت سارے لوگ ہیں: کپٹن صفدر کا  وی لاگ میں سوال کا جواب
  • ’لارڈز ٹیسٹ میں انگریز اوپنرز 90 سیکنڈ لیٹ آئے‘، بھارتی کپتان نے چالاکی پر سوال اٹھادیا
  • سی ڈی اے ملازمین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • پیپر لیک معاملہ: قائمہ کمیٹی نے کیمبرج امتحانات کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی سفارش کردی