’’نازیبا سوال‘‘ کا معاملہ؛ سمے رائنا اور رنویر الہ آبادیہ کے گرد قانونی گھیرا تنگ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
بھارتی کامیڈین کے یوٹیوب شو ’’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘‘ میں نازیبا سوال کے معاملے پر مہاراشٹر سائبر سیل نے یوٹیوبر سمے رائنا کو دوسری بار طلب کرلیا ہے۔
سمے رائنا کے یوٹیوب شو ’’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘‘ کے دوران کامیڈین رنویر الہ آبادیہ کے متنازع سوال پر ہونے والے تنازعے کے بعد تحقیقات جاری ہیں۔
سمن جاری ہونے پر سمے رائنا نے بتایا کہ وہ فی الحال امریکا میں ہیں اور 17 مارچ کو واپس لوٹیں گے، جس کے بعد وہ سائبر سیل کو جواب دیں گے۔
اس واقعے کے پس منظر کے مطابق سمے رائنا کے شو ’’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘‘ میں کامیڈین رنویر الہ آبادیہ نے حریف سے والدین کے بارے میں انتہائی نازیبا سوال پوچھا تھا۔ یہ سوال سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور اس پر شدید تنقید ہوئی تھی۔
بعد ازاں رنویر الہ آبادیہ نے ایک ویڈیو میں معافی مانگتے ہوئے اسے ’’غلطی‘‘ قرار دیا، لیکن تنازع ختم نہیں ہوا۔ حالانکہ سمے رائنا نے شو کے تمام اقساط کو یوٹیوب سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ وہ تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے۔
ممبئی پولیس نے اس معاملے میں سات افراد کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، جن میں سوشل میڈیا انفلوئنسر اپوروا مخیجا بھی شامل ہیں۔ رنویر الہ آبادیہ کو بھی ایک دو دن میں پولیس کے سامنے پیش ہونے کےلیے کہا گیا ہے۔ مہاراشٹرا سائبر ڈپارٹمنٹ نے 40 سے زائد افراد کو طلب کیا ہے، جن میں شو کے شرکا اور ججز شامل ہیں۔
پولیس نے رنویر الہ آبادیہ اور چار دیگر افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا ہے اور ممبئی میں ایک ٹیم تحقیقات کررہی ہے۔
یوٹیوب پروگرام میں اس متنازع سوال کا معاملہ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی پہنچ گیا جب شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ نریش مہاسکے نے اسے اٹھایا اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کےلیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا۔
مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کہا کہ انہوں نے متنازع کلپ نہیں دیکھا، لیکن انہوں نے آزادی اظہار کی حدود کے بارے میں خبردار کیا۔ انہوں نے کہا ’’ہر کسی کو آزادی اظہار کا حق ہے، لیکن ہماری آزادی اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب ہم دوسروں کی آزادی پر تجاوز کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ اصول بنائے گئے ہیں، اگر کوئی انہیں توڑتا ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘
علاوہ ازیں قومی کمیشن برائے خواتین (NCW) نے رنویر الہ آبادیہ، سمے رائنا، اپوروا مخیجا، جسپریت سنگھ، اشیش چنچلانی، اور شو کے پروڈیوسر تشار پجاری اور سوربھ بوترا کو 17 فروری کو نئی دہلی میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
معاہدے کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ، پاکستانیوں کے بیلاروس جانے کا معاملہ تعطل کا شکار
لاہور:پاکستان اور بیلاروس کے مابین ایک لاکھ 50 ہزار تربیت یافتہ ہنرمند پاکستانیوں کو روزگار فراہمی کا معاہدہ تعطل کا شکار ہوگیا، معاہدے کی آڑ میں غیرقانونی طریقوں سے سرحد پار کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا انکشاف ہوا ہے جس پر حکومت نے معاہدہ کی تفصیلات طے ہونے تک پاکستانیوں کو بیلاروس کے سفر سے گریز کی ہدایت کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان اور بیلاروس کے مابین اپریل میں ہوئے روزگار کی فراہمی حالیہ معاہدے سے متعلق پائے جانے والے ابہام کے باعث یکم جنوری سے دو اکتوبر تک کے عرصے میں بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر آٹھ ممالک کے باشندوں کی جانب سے غیر قانونی طورپر سرحد پار کرنے کی پندرہ ہزار کوششیں سامنے آئی ہیں جن میں پاکستانی سرفہرست ہیں۔
یہ صورتحال وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ بیلاروس میں کیے گئے دوطرفہ معاہدہ کے برعکس ہیں جس کے تحت ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہنرمند پاکستانیوں کو آئی ٹی، صحت، تعمیرات اور انجینئرنگ سمیت مختلف شعبوں میں ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا تاہم پانچ ماہ گزرنے کے باوجود یہ معاہدہ تاحال عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
ذرائع کے مطابق، بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے اب تک کوئی باضابطہ ہدایات جاری نہیں کیں اور نہ ہی بیلاروس کی حکومت یا منظور شدہ ریکروٹنگ ایجنسیوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر افرادی قوت کو بیرونِ ملک بھیجنے کے لیے کوئی فیزیبلٹی رپورٹ یا لاگت و فائدے کا تجزیہ بھی سامنے نہیں آیا۔
ذرائع کے مطابق قانونی اور منظم روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی کے باعث کئی افراد خطرناک راستوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ پولینڈ کے حکام نے رواں سال اب تک 150 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے جو غیر قانونی سرحد پار کرانے میں ملوث پائے گئے، جس سے انسانی اسمگلنگ اور علاقائی سلامتی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ بیلاروس پر عالمی پابندیاں ہیں اور اس کی معیشت کمزور ہے۔ بیلاروس میں فی کس اوسط ماہانہ تنخواہ 670 سے 700 ڈالر ہے، جو پاکستان کی اوسط تنخواہ 150 سے 170 ڈالر سے کہیں زیادہ ہے تاہم مجوزہ کم از کم تنخواہ گیارہ سو ڈالر کی پیشکش پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا بیلاروس اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی ملازمین کو اس تنخواہ پر برداشت کر سکتا ہے یا نہیں۔
دوسری جان بیلاروس جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، حتیٰ کہ اسلام آباد میں موجود بیلاروس کے قونصل خانے نے درخواستوں کی وصولی عارضی طور پر بند کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق یورپی یونین کی سرحدوں کی کڑی نگرانی کے باعث غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی کوششیں نہ صرف پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ ان افراد کی جان و صحت کو بھی شدید خطرات لاحق کر رہی ہیں۔
اسی لیے حکام نے بیلاروس کے خودساختہ سفر سے گریز کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کی تفصیلات طے ہونے تک کوئی بھی انفرادی طور پر سفر نہ کرے۔