پہلے لیڈر اور نظریے کی گاڑی چلاتا تھا اور اب مریم کی گاڑی چلانے کیلئے بہت سارے لوگ ہیں: کپٹن صفدر کا وی لاگ میں سوال کا جواب
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی اعزاز سید نے اپنے وی لاگ میں انکشاف کیاہے کہ کیپٹن صفدر نے مریم نواز کی گاڑی نہ چلانے کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں پہلے ایک لیڈر اور نظریے کی گاڑی چلاتا تھا ، اب مریم کی گاڑی چلانے والے بہت سارے ہیں ، وہ ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اعزاز سید نے بتایا کہ کیپٹن صفدر نے ایک یوٹیوب چینل ’ ہل ٹاکس‘ کو انٹرویو دیاہے جس میں انہوں نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے ، کیپٹن صفدر کا تعلق مڈل کلاس سے ہے ، اس کی شادی ایک بڑے گھر میں ہوئی، یہ بہت ہی سیدھی بات کرنے والا شخص ہے اور وفادار بھی ہے ، انہوں نے کلثوم نواز کے ساتھ جیل کاٹی، ووٹ کو عزت دو کی تحریک میں نوازشریف کا ساتھ دیا اور گرفتاریاں دیں، اس وقت بہت واضح نظر آتے تھے آج کل نظر بھی نہیں آتے ۔
عمران خان کو دس سال قید نہیں بلکہ آرٹیکل 6 کے تحت عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے: نجم ولی خان کا تجزیہ
انٹرویو کے دوران کیپٹن صفدر سے سوال کیا گیا کہ پہلے آپ مریم نواز کی گاڑی چلاتے تھے اب نہیں چلاتے ؟جس پر کیپٹن صفدر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں پہلے ایک لیڈر اور ایک نظریے کی گاڑی چلاتا تھا ،( یعنی لیڈر نوازشریف، اور نظریہ نوازشریف اور مریم نواز مراد ہے )، اب مریم کی گاڑی چلانے والے بہت سارے ہیں، وہ ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
اعزاز سید کا کہناتھا کہ اگر پوچھا جائے تو ان کے اردگرد کے لوگ کہیں گے کہ وہ مریم سے ناراض نہیں ہیں اور نہ ہی غصے کا اظہار کر رہے ہیں، ارد گرد کے لوگ بھی تو مریم نے ہی منتخب کیئے ۔ جب نوازشریف وزیراعظم تھے اور نوازشریف کے سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر فواد حسن فواد تھے ، تو کیپٹن صفدر نے ان کے خلاف ہی پوری تقریر کر دی تھی ۔
9 مئی واقعہ شریف،زرداری اور عاصم رجیم کی بنیاد تھی، معید پیرزادہ
کپٹن صفدر مریم نواز سے ناراض، کہا مریم کی گاڑی چلانے والے اب بہت سے ہیں، میں پہلے ایک لیڈر اور نظریے کی گاڑی چلاتا تھا، کیپٹن ر صفدر نے مریم نواز سے ناراضگی کا اظہار کر دیا، اعزاز سید pic.
مزید :
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: مریم کی گاڑی چلانے کیپٹن صفدر نے کا اظہار کر مریم نواز لیڈر اور پہلے ا
پڑھیں:
مریم نواز شریف، ریکھا گپتا اور اسموگ کا عذاب
ہمارے حکمرانوں کو عوام کی صحت اور تعلیم بارے کتنی فکر ہے، اِس کا اندازہ ہمیں صوبائی اوروفاقی بجٹوں میں صحت اور تعلیم کے لیے مختص کی گئی رقوم ہی سے ہو جاتا ہے ۔اِس کے برعکس مغربی حکمران اور ممالک صحت اور تعلیم کواوّلین حیثیت دیتے ہیں ، جب کہ ہمارے ہر قسم کے چھوٹے بڑے حکمران سیاست کو اوّلین درجے پر رکھ کر اپنے اقتداری اور اعلیٰ سرکاری سہولتی ایام گزارنا چاہتے ہیں ۔
ہمارے اخبارات میں بھی صحت اور تعلیم کی خبریں فرنٹ پیج کی بجائے اندرونی صفحات پر جگہ پاتی ہیں ۔ یہ طرزِ صحافت بھی ہمارے اجتماعی رویئے کا عکاس ہے ۔حکمرانوں اورمیڈیا کے اِس مجموعی اندازِ حیات سے وطنِ عزیز میں صحت اور تعلیم کے سرکاری اداروں میں جو درگت بن رہی ہے، یہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ آج ہمارے سینے میں صحت بارے جو درد اُٹھا ہے ، اِس کی ایک بڑی وجہ پنجاب کے کئی شہروں میں اسموگ (Smog) کے اُمنڈتے مہلک طوفان ہیں ۔ جوں جوں سرما کے روز و شب نزدیک تر آتے جارہے ہیں، خصوصاً پنجاب کے کئی بڑے شہروں میں اسموگ کے سبب صحت کو خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں ۔
عجب بات ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر ٹی ٹی پی ، ٹی ٹی اے اور بی ایل اے کے دہشت گردوں (جنہیں بِلا شبہ بھارت کی شہ اور مالی اعانت میسر ہے) کے پھیلائے خوف کے سائے چھائے ہیں اور پاکستان کی مشرقی سرحد پر اسموگ کے سیاہ سایوں نے عوام میں خوف پھیلا رکھا ہے۔ مشرقی سرحد کے اِس پار ہماری اولو العزم وزیر اعلیٰ پنجاب، محترمہ مریم نواز شریف، اسموگ کے خلاف جنگ جیتنے کی تیاریاں کررہی ہیں ، اور اُدھر سرحد سے پار دہلی کی خاتون وزیر اعلیٰ(ریکھا گپتا) بھی اسموگ سے دو دو ہاتھ کرتی نظر آ رہی ہیں ۔
صحت کے عالمی ادارے بہرحال یہ اعلان کر چکے ہیں کہ لاہور اور دہلی دُنیا کے آلودہ ترین شہر ہیں کہ اسموگ نے اِن تاریخی شہروں کو اپنی سیاہ گرفت میں لے رکھا ہے ۔ سردیاں اُترتے ہی دونوں شہروں کی خوفناک آلودگی میں اسموگ کئی گنا اضافہ کر دیتی ہے۔عجب بات یہ بھی ہے کہ لاہور اور دہلی کے حکمران ہمیشہ مسموم اسموگ کے حوالے سے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ لاہور اور دہلی کی آلودہ فضائیں ایک دوسرے سے دُور بھی نہیں ہیں ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز شریف، نے جس طرح پنجاب کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بیک وقت کئی ایک پراجیکٹس شروع کررکھے ہیں ، اِسی طرح اُنھوں نے اسموگ کے مہلک موسم کے تدارک کے لیے بروقت اور جانفشانی سے کئی اقدامات شروع کیے ہیں ۔
اِن اقدامات کو اُن کا وِژن کہہ لیں یا پنجاب کے عوام کی صحت کے لیے فکر مندی کا نام دے لیں یا اُن کی انتظامی مجبوریاں، جو بھی ہے وہ اسموگ کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے میدانِ عمل میں ہیں ۔ اِس بارے اُن کا شروع کردہ ائر کوالٹی ناپنے کا نیا منصوبہ(Air Quality Index Forecasting) قابلِ تحسین ہے ۔ اِس منصوبے کے بروئے کار آنے سے فوری طور پر عوام الناس کے علم میں یہ لایا جانا سہل ہو گیا ہے کہ اُن کے ارد گرد فضا کی کوالٹی کیسی ہے اور اس کی وجہ سے اسموگ سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔
اسموگ کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے محترمہ مریم نواز شریف کے حکم یا تجویز پر پنجاب کی سینئر وزیر ، محترمہ مریم اورنگزیب، بھی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں ہیں ۔ اِس ضمن میں اُنہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے پوری رہنمائی میسر ہیں؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسموگ کے خلاف پنجاب میں گرینڈ آپریشن بھی جاری ہیں اور اِس سلسلے میں ڈرونز کے ذریعے نگرانی بھی کی جارہی ہے ۔
اسموگ گنز اور اینٹی اسموگ مشینری کے نئے اور جدید طریقے بھی متعارف کروائے گئے ہیں (اگرچہ اِن طریقوں کے خلاف پی ٹی آئی کےKey Warriersحسبِ سابق پنجاب کی مقتدر نون لیگ کے خلاف پوری طرح متحرک ہو کر اِن اقدامات میں کیڑے بھی نکال رہے ہیں) ۔ پنجاب حکومت مگر اِن ہتھکنڈوں سے گھبرائے بغیر اسموگ کے خلاف اپنے مقررہ اہداف کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگلے روز محترمہ مریم اورنگزیب نے لاہور کے ایک معروف گرلز کالج میں جو مفصل خطاب کیا ہے، اِس کے مندرجات بھی ہمیں بتاتے ہیں کہ خود وزیر موصوفہ اور اُن کی باس ، وزیر اعلیٰ پنجاب، اسموگ کی ضرر رسانیوں سے عوام کو بچانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہی ہیں ۔ یہ کوششیں مگر اُس وقت ہی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتی ہیں جب عوام کا کثیر حصہ بھی سنجیدگی اور تندہی سے حکومتی اقدامات کا ساتھ دے ۔
عوام جب تک حکومت سے تعاون نہیں کریں گے ، اسموگ کے عذاب سے مکمل نجات نہیں ملے گی کہ اسموگ کا عذاب انسانوں کی بیہودگیوں، غلطیوں اور بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہے ۔ مثال کے طور پر اگر عوام (1)فصلوں کی باقیات کو نذرِ آتش نہ کریں (2) چھوٹی صنعتوں میں ٹائروں کو آگ نہ لگائیں (3) دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو سڑکوں پر نہ لائیں (4) بھٹہ خشت میں وہ طریقہ استعمال نہ کریں جس بارے حکومت نے منع کررکھا ہے۔
اسموگ کا جو عذاب پاکستانی پنجاب کے دارالحکومت اور پاک بھارت سرحد کے آس پاس واقع پنجاب کے کئی دیگر پاکستانی شہروں کو درپیش ہے ، ویسا ہی عذاب بھارتی دارالحکومت اور بھارتی پنجاب کے کئی دیگر شہروں کو بھی درپیش ہے ۔ گویا’’ لہندا تے چڑھدا پنجاب‘‘ اسموگ کے حوالے سے یکساں مسائل سے دوچار ہیں ۔ بھارتی پنجاب سے پاکستانی پنجاب کی جانب اُمنڈتی اسموگ زدہ ہوائیں ہمیں زیادہ نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ بھارتی پنجاب اور نئی دہلی پاکستان سے تعاون کرنے سے دانستہ گریزاں ہے۔
واقعہ مگر یہ ہے کہ دہلی اور بھارتی پنجاب کی کروڑوں کی آبادی بھارتی بھٹہ خشت ، بھارتی کسانوں کی جانب سے فصلوں کو لگائی گئی آگ ، فیکٹریوں اور بے پناہ ٹریفک کے پیدا کردہ زہریلے دھوئیں سے اُسی طرح شدید متاثر ہو رہی ہے جس طرح لاہور ، فیصل آباد ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، ملتان وغیرہ متاثر ہو رہے ہیں ۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ( بھگونت سنگھ مان) اور نئی دہلی کی خاتون وزیر اعلیٰ(ریکھا گپتا) دونوں ہی اسموگ کے عذاب سے نمٹنے کے لیے ہاتھ پاؤں تو مار رہے ہیں ، مگر فی الحال کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہے۔ لاہور اور دہلی کے کئی علاقوں میں اسموگ کی شدت 350اور500کے درمیان ناپی جارہی ہے اور یہ مہلک شدت صحت کے عالمی پیمانوں سے25فیصد زیادہ ہے ۔ لاہور اور دہلی کا AQI(ائرکولٹی انڈیکس) انسانی صحت کی بربادی کے لیے کافی ہو چکا ہے ۔
چند روز قبل ریکھا گپتا نے نئی دہلی اور اس کے آس پاس بسنے والے تین کروڑ نفوس کو اسموگ کے سیاہ اور ہلاکت خیز عذاب سے بچانے کے لیے مصنوعی بارش برسانے کا تجربہ کیا ہے ۔ یہ تجربہ ایک چھوٹے سیسنا طیارے کے ذریعے کیا گیا ۔اِس تجربے کو Cloud Seedingکہا گیا ہے ۔ بھارتی پنجاب اور نئی دہلی کے وزرائے اعلیٰ کا کہنا ہے کہ مخصوص نمک اور مخصوص کیمیکل کا چھڑکاؤ بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر (بطورِ تجربہ) کیا گیا ہے ۔مبینہ طور پر یہ تجربہ مثبت ثابت ہُوا ہے ۔ جس طرح وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف کو سینئر صوبائی وزیر محترمہ مریم اورنگزیب کی صورت میں ایک بہترین ساتھی میسر ہے، اِسی طرح نئی دہلی کی وزیر اعلیٰ، ریکھا گپتا، کو بھی منجندر سنگھ سرسہ کی شکل میں ایک اچھا وزیر ملا ہُوا ہے ۔
منجندر سنگھ ہی نئی دہلی اور مشرقی پنجاب کو اسموگ کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے سرگرم ہیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ سردیاں عروج کو پہنچنے پر ہماری وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف اور سینئر صوبائی وزیر محترمہ مریم اورنگزیب اسموگ پر غالب آتی ہیں یا ریکھا گپتا اور منجندر سنگھ سرسہ۔ یہ بھی دعا اور توقع ہے کہ سرحد کے آر پار واقع پنجاب کے دونوں حصوں کے وزرائے اعلیٰ اسموگ کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں ۔