پنجاب میں طلباء کیلئے لیپ ٹاپ سکیم کے حوالے سے میرٹ مقرر
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 فروری 2025ء ) پنجاب حکومت نے صوبے میں طلباء کیلئے لیپ ٹاپ سکیم کے حوالے سے میرٹ مقرر کردیئے۔ وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات نے لیپ ٹاپ سکیم کے حوالے سے طلباء کو خوشخبری سناتے ہوئے میرٹ مقرر کیے ہیں ، اس حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم کی زیرصدارت لیپ ٹاپ سکیم کے اجراء سے متعلق اجلاس ہوا، جس میں سکیم کے حوالے سے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار پر غور کیا گیا، اجلاس میں پہلے مرحلے میں فرسٹ اور سیکنڈ سیمسٹر کے طالب علموں کو لیپ ٹاپ دینے کا فیصلہ ہوا جب کہ میرٹ کے تحت بی ایس کے طلبا کیلئے 65 فیصد اور میڈیکل سٹوڈنٹس کیلئے 80 فیصد میرٹ مقرر کیے گئے ہیں، میرٹ انٹرمیڈیٹ کے نمبرز کی بنیاد پر متعین کیا جائے گا۔
وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کا کہنا ہے کہ رواں سال پنجاب کے طلباء کیلئے خوشخبریوں کا سال ہے، تعلیم کے میدان میں جدید ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورسز کا اجراء بھی کیا جا رہا ہے، گوگل فار ایجوکیشن کے اشتراک سے پنجاب کے تعلیمی نظام کو ڈیجیٹل بنایا جائے گا، اس ضمن میں پبلک سکولز میں کروم بُکس کی فراہمی اور سمارٹ لیبز کا قیام عمل میں لانے کیلئے حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے، 50 ہزار اساتذہ کی تربیت اور گوگل جیمنی کے ذریعے طلباء کے لیے جدید تعلیمی سہولیات دی جائیں گی۔(جاری ہے)
انہون نے کہا کہ گوگل کلاؤڈ سسٹمز کے ذریعے ڈیجیٹل تعلیم کی بنیاد رکھ رہے ہیں، گوگل کلاؤڈ پلیٹ فارم کے ذریعے پنجاب کے سکولوں کو جدید تعلیمی نظام کے مطابق اپ گریڈ کرنے میں مدد ملے گی ، اساتذہ کے لیے بین الاقوامی معیار کے مطابق ٹریننگ اور گوگل ایجوکیشن سرٹیفیکیشن کے حصول کا بہترین موقع بھی میسر آئے گا، گوگل فار ایجوکیشن کے اشتراک سے طلباء کو گلوبل سٹینڈرڈ کی تعلیم دینے کی بنیاد رکھ دی ہے جس سے طلباء انٹرنیشنل سرٹیفیکیشن والے گوگل کورسز کر سکیں گے، 50 ہزار اساتذہ کیلئے گوگل کی ایل ون سرٹیفیکیشن بھی لا رہے ہیں اور پاکستان کی پہلی اے آئی پر مرکوز یونیورسٹی بنانے کا بھی عزم ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سکیم کے حوالے سے لیپ ٹاپ سکیم کے
پڑھیں:
کراچی بورڈ کا شفاف نتیجہ میرٹ کی فتح، دباؤ کی شکست
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میٹرک بورڈ کے حالیہ نتائج نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ برسوں سے یہ شکایات زبان زدِ عام تھیں کہ امتحانی نتائج میں شفافیت کی کمی ہے، سفارشیوں کے لیے رعایتیں کی جاتی ہیں، اور پیسوں کے عوض نمبر یا نتائج میں رد و بدل معمول کی بات بن چکی ہے۔ لیکن اس مرتبہ منظر نامہ بالکل مختلف تھا۔ اس تبدیلی کا سہرا چیئرمین بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی، محمد حسین سوہو کے سر جاتا ہے، جو نہ صرف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں بلکہ انتظامی امور میں بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ محمد حسین سوہو صاحب سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن ایف ڈی ای اسلام آباد، ڈائریکٹر NAVTTC، ڈائریکٹر STEVTA اور ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب رہ چکے ہیں۔ اس طویل پیشہ ورانہ سفر نے انہیں تعلیم اور امتحانی نظام کے ہر پہلو سے آگاہی بخشی، اور یہی تجربہ ان کے موجودہ کردار میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔ ان کی زیر نگرانی کراچی بورڈ نے وہ کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کی عوام کو برسوں سے آرزو تھی۔ اس بار کے میٹرک کے نتائج میں ایک روپے کی کرپشن کا بھی شائبہ نہیں پایا گیا۔ نہ کوئی سیاسی دباؤ کارگر ہوا، نہ ہی اندرونی سفارشات یا میڈیا کے دباؤ نے نتائج پر اثر ڈالا۔ چیئرمین صاحب نے ہر قسم کے دبائو کو رد کرتے ہوئے حقدار طلبہ کو ان کا جائز مقام دلایا۔ اس کامیابی میں چیئرمین صاحب کے ساتھ ساتھ ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامینشن، جو اس وقت ایکٹنگ کنٹرولر کے فرائض انجام دے رہے تھے، بھی بھرپور تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے دیانت داری اور غیر معمولی محنت سے اس سارے عمل کو شفاف بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چیئرمین کی قیادت اور ڈپٹی کنٹرولر کی عملی نگرانی نے مل کر ایک ایسا نتیجہ ممکن بنایا جو کئی برسوں بعد دیکھنے کو ملا۔
یہی شفافیت اس بات سے جھلکتی ہے کہ نتائج کی تیاری کے دوران بورڈ نے سخت غیرجانبداری اپنائی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مارکنگ اور رزلٹ کمپائلنگ میں انسانی غلطیوں کے امکانات نہ ہونے کے برابر کر دیے۔ پرچوں کی مارکنگ اور ری چیکنگ کے لیے دوہرا نظام رائج رہا تاکہ انصاف پر کوئی آنچ نہ آئے۔ مارکنگ کرنے والے اساتذہ کی مسلسل نگرانی اور جانچ پڑتال کی گئی اور انہیں پیشگی ورکشاپس کے ذریعے اس بات کی تربیت دی گئی کہ کس طرح ہر پرچے کا جائزہ خالص میرٹ پر لیا جائے۔ نتائج پر اعتراض کرنے والے طلبہ یا والدین کے لیے ایک باقاعدہ شکایتی نظام وضع کیا گیا، جہاں ان کی آواز کو سنجیدگی سے سنا گیا اور بروقت ازالہ کیا گیا۔ اس دوران سیکریسی سیکشن نے پرچوں کے کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کے عمل میں طلبہ کی شناخت کو مکمل طور پر مخفی رکھا تاکہ کسی بھی تعصب کا شائبہ تک نہ ہو۔ اگر کہیں کوئی تکنیکی یا انسانی غلطی سامنے آتی تو فوری اصلاح کا نظام موجود تھا، جو شفافیت کی ضمانت ہے۔ امتحانی مراکز میں نقل کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے گئے جس کا براہِ راست اثر نتائج پر پڑا اور محنتی طلبہ کی کامیابی سامنے آئی۔ رزلٹ کارڈز اور مارکس شیٹس کے اجرا میں ڈیجیٹلائزیشن نے نہ صرف بروقت فراہمی کو ممکن بنایا بلکہ جعلسازی کے تمام راستے بھی بند کر دیے۔ کمزور طلبہ کے لیے خصوصی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا اہتمام کیا گیا تاکہ وہ مایوس نہ ہوں اور آئندہ بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔
مزید یہ کہ نتائج کے بعد طلبہ کے مستقبل کی رہنمائی کے لیے بورڈ کی جانب سے کیریئر کونسلنگ کو بھی اہمیت دی گئی، تاکہ کامیاب طلبہ اگلی سطح کی تعلیم کے انتخاب میں درست فیصلے کر سکیں۔ بین الاقوامی تعلیمی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف رزلٹ سازی کی پالیسی اپنائی گئی بلکہ ان اساتذہ اور ممتحنین کو بھی سراہا گیا جنہوں نے ایمانداری اور بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس مقصد کے لیے بورڈ کی حکمت عملی یہ ہے کہ شفاف امتحانی عمل کو یقینی بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خاص طور پر نمایاں بات یہ رہی کہ اورنگی ٹاؤن جیسے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے دوسری پوزیشن حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ قابلیت اور محنت کی بدولت ہر مشکل کو شکست دی جا سکتی ہے۔ کم وسائل رکھنے کے باوجود اس طالبہ کی شاندار کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ شفاف نظام ہمیشہ محنت کرنے والوں کو آگے لے کر آتا ہے۔ اسی طرح دیگر پوزیشن ہولڈرز نے بھی یہ پیغام دیا کہ جب امتحانات میرٹ پر ہوں تو خواب حقیقت میں ڈھل جاتے ہیں۔
یہ سب اقدامات چیئرمین محمد حسین سوہو صاحب اور ایکٹنگ کنٹرولر کی مشترکہ قیادت کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے میڈیا، ادارہ جاتی اور داخلی دباؤ کو یکسر مسترد کر کے ایک ایسا شفاف رزلٹ پیش کیا ہے جو آنے والے برسوں کے لیے ایک معیار قائم کر گیا ہے۔ آج کے اس نتیجے نے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کی ساکھ میں اضافہ کیا ہے اور یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ جب قیادت نیک نیت اور پختہ عزم کے ساتھ کام کرے تو ادارے اپنی کھوئی ہوئی عزت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ محمد حسین سوہو صاحب، ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامینشن اور ان کی ٹیم کی یہ کاوش اس بات کی عملی مثال ہے کہ تعلیم اور امتحانی نظام کو درست کرنے کے لیے نیک نیتی، استقلال اور میرٹ سے جڑا ہوا رویہ سب سے اہم ہے۔ اگر یہی تسلسل قائم رہا تو وہ دن دور نہیں جب کراچی بورڈ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کا ایک مثالی تعلیمی ادارہ بن کر ابھرے گا۔