Express News:
2025-07-26@04:48:03 GMT

غالب پر کچھ گفتگو

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

اردو ادب میں تین شعرا نے اپنے آپ کو خوب منوایا ہے۔ان میں سب سے پہلے میر تقی میر ہیں۔ میر اپنے عہد کے تمام شعراء سے بڑے اور قادرالکلام شاعر تھے۔ان کی عظمت کے خود غالب بھی معترف تھے۔

اسد اﷲ خان غالب تو اسم ِ با مسمیٰ اپنے عہد میں بھی سب پر بھاری تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا شاعرانہ قد بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔اردو ادب کے تیسرے بڑے شاعر حضرت علامہ محمد اقبال ہیں۔وہ دورِحاضر کے بجا طور پر سب سے بڑے شاعر ہیں۔ان تینوں میں سے دو یعنی غالب اور اقبال اردو کے ساتھ فارسی کے بھی بہت بڑے شاعر تھے۔ان دونوں کے کلام کا بڑا حصہ فارسی میں ہے۔چونکہ ہم فارسی سے ناطہ توڑ بیٹھے ہیں اس لیے ان دونوں شعرا کا بہت جاندار فارسی کلام عام طور پر سامنے نہیں آتا۔ حال ہی میں کراچی میں غالب پر ایک نشست ہوئی جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

 میں چراغِ سحر ہوں یا آفتابِ سرِ کوہسار،غالب ہر چیز میں انفرادیت پیدا کر لیتے تھے۔غالب نے یہ جو کہا ہے کہ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی، چمن زنگار ہے آئینہء بادِ بہاری کا۔اس شعر میں غالب نے ایک بڑی پتے کی بات کی ہے۔عام طور پر لطیف اور خالص ہی کی مانگ ہوتی ہے لیکن لطافت کوئی بڑا تاثر پیدا نہیں کر سکتی۔ہاں اس میں تھوڑی سی کثافت ملا لی جائے تو بہت اعلیٰ نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔لطافت بے کثافتEthereal(غیر مرئی،لطیف) ہوتی ہے۔

آپ برگِ گل پر پڑے شبنم کے قطرے کو دیکھئے ،اس کے سحر میں کھو جائیے لیکن آپ اسے چھو نہیں سکتے۔  جونہی آپ نے اسے چھوا،یہ تحلیل ہو کر اپنی ہستی فنا کر بیٹھتا ہے۔جناب میر تقی میر کے بہت اعلیٰ اشعار اسی Etherealنوعیت کے ہیں۔میر کے بارے میں خود غالب نے کہا ہے کہ،آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں،اور غالب کا میر کی استادی کے بارے میں یہ شعر تو ہر ایک کی زبان پر ہے۔ریختے کہ تمہیں استاد نہیں ہو غالب،کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا۔اس سب کے باوجود میر کے بہت اعلیٰ اشعار آپ کو چپ لگا دیتے ہیں،جھنجھوڑتے نہیں۔غالب کے اشعار اپنے باڈی آئیڈیاCrustکی وجہ سے سب سے زیادہ اقتباسیت کے حامل ہوتے ہیں،سب سے زیادہ ان کے حوالے دیے جاتے ہیں۔

غالب کے اشعار کا ایک خارجی اورٹھوس پیکر بھی ہوتا ہے اور یہی خارجی پیکر ان کے اشعار کو ایک جسم دیتا ہے۔رنگِ گل،بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں،کیا قافلہ جاتا،تو ہی تو چلا جائے۔یہ شعر اتنا لطیف ہے کہ اس کی تشریح ممکن نہیں جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا،اس کو سمجھایا نہیں جا سکتا۔یہ وہ لطافت ہے جس میں کثافت بالکل نہیں۔البتہ غالب کے خیال میں لطافت میں ہلکی سی کثافت ڈال دی جائے تو شعر بہتر طور پر وصول ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے کہ میر کا شعر اگربرگِ گل پر شبنم کا قطرہ ہے تو غالب کا شعر ایک چمکدار موتی کی مانند ہے اور اقبال کے اشعار ان خوبصورت موتیوں کو لڑی میں پرو کر ایک خوبصورت اور قیمتی مالا ہیں۔

غالب کے اشعار کے لفظی درو بست میں کئی رعائیتیں چھپی ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی قادرالکلامی انتہا درجے کی ہے ۔ وہ ایک کلاسیکی شاعر ہیں۔یوں تو کلاسیک کی کئی تعریفیں ہیں لیکن ان میں سے ایک بہت اہم ہے ۔کلاسیکی ادب وہ ادب ہے جو اپنے آپ کو منوا کر مقام پیدا کر چکا ہو۔وہ بیان جو بچپن سے بڑھاپے تک یکساں ساتھ دے اور عمر کے ہر حصے میں نئے پہلو دریافت کروائے۔لڑکپن اور نوجوانی میں غالب کے اشعار کا بیرونی ظاہری پیکر بہت اپیل کرتا ہے۔

ان کے اشعار کے اندر چھپے معانی دریافت کیے بغیر قاری سحر میں گم ہوجاتا ہے لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ان کے اشعار کا لفظی درو بست اور اس میں پنہاں رعائیتیں آشکار ہوتی جاتی ہیں۔مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں،اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہلِ دہر کا،سمجھتا ہوں دل پذیر متاعِ ہنر کو میں۔ان مصروں میں تخلیق کارکا درد چھپا ہے کہ اسے بہت دیر سے پہچانا جاتا ہے۔اپنے دور میں جو عزت و شرف اور قدر ہونیچاہییوہ نہیں ہوتی لیکن بعد کی نسلوں میں نام ابھرتا چلا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ غالب ابھی بھی پورے پہچانے نہیں گئے۔

غالب کے ابتدائی زمانے کے اشعار میں انتہائی مشکل اسلوب ہے۔ایسے مشکل اسلوب کے حامل اشعار میں اردو کے ایک دو لفظ کے علاوہ باقی سارا شعر فارسی میں ہوگا۔اپنے ایک خط میں غالب نے لکھا کہ ابتدائی دور میں ایسے اشعار بھی کہے کہ ان میں بعض تو اب اپنی سمجھ میں بھی آنے مشکل ہیں۔بہر حال بڑھتی عمر کے ساتھ ان کا اسلوب سادہ ہونے لگا اور آخری دور میں غالب سہلِ ممتنع کی طرف چلے گئے۔

سہلِ ممتنع کی تعریف ایک عربی شاعر نے یوں کی ہے کہ جب کوئی شاعر ایسا شعر کہتا ہے تو ہر کوئی کہتا ہے کہ میں بھی ایسا کہتا ہوں لیکن جب کوئی ایسا کہنے کا قصد کرتا ہے تو عاجز محسوس کرتا ہے۔دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے،آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود،پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔غالب کے ایسے اشعار ان کی بڑی عمر کے اشعار ہیں اور سہلِ ممتنع کی بہت عمدہ مثال ہیں۔

یہ اسلوب غالب نے زندگی بھر کی پیچیدہ بیانی کے بعد اختیار کیا۔اس بارے میں بھی انھوں نے خود لکھا ہے کہ دہلی والوں کی جو رواں زبان ہے،اسی میں شعر کہناچاہیے، اب تو ہمارا یہی خیال ہو گیا ہے۔ایک زمانے میں میرزا بیدل ، غالب کے لیے ایک نمونہ تھے اور بیدل بہت پیچیدہ بیان شاعر تھے۔غالب کو بیدل بہت پسند تھے،اسد ہر جا سخن طرح باغِ تازہ ڈالی ہے ،مجھے رنگِ بہاری جادیء بیدل پسند آیا۔اسی لیے غالب نے کہا ،طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا،اسد اﷲ خان قیامت ہے۔بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ روزمرہ زبان میں ہی بیان کرنا اچھا اور مفید ہے۔

غالب کو اپنی فارسی پر بہت ناز تھا۔وہ کہا کرتے تھے کہ فارسی کا ترازو میرے اپنے ہاتھ میں ہے۔فارسی میری طبیعت میں یوں جا گزین ہے جیسے فولاد میں جوہر ہوتا ہے۔ان کے پسندیدہ فارسی شعراء میں طالب،عرفی،نذیری اور ظہوری ہیں۔انھوں نے اپنے فارسی دیوان پر بہت توجہ دی۔کہا جاتا ہے کہ اردو دیوان کی طرف انھوں نے توجہ ہی نہیں کی۔دوسروں نے انتخاب کر کے اردو دیوان چھاپ دیا۔دیوان وہ ہوتا ہے جس میں الف سے لے کر ،ی،تک ہر ردیف پر اور شاعری کی ہر صنف میں اشعار ہوں۔غالب کا فارسی دیوان ایسا ہی ہے۔غالب کی اردو شاعری میں ہجو نہیں ملے گی لیکن فارسی دیوان میں دیوان کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ہجو کے کچھ اشعار بھی ہیں۔

غالب نے اپنے فارسی دیوان میں کہا ہے کہ میں نے اپنے اشعار میں کئی مے خانے پنہاں کر دئے ہیں۔میرے دور میں خریداروں کی کمی کی وجہ سے،میرے اشعار کا بھاؤ نہیں لیکن وقت آئے گا جب میرے کلام کی پذیرائی ہوگی۔غالب نے اردو نثر اس مرحلۂ زندگی میں لکھی جب وہ پیرانہ سالی اور نقاہت کے سبب بہت محنت و مشقت نہیں کر سکتے تھے۔ان کی نثر فطری انداز میں لکھی گئی ہے۔اردو میں اتنی اعلیٰ نثر موجود نہیں۔اپنی نقاہت و بیماری کے بارے میں یوں لکھا،میں اب اتنی دیر میں اُٹھتا ہوں جتنی دیر میں ایک قدِ آدم دیوار اٹھے۔شاعر اور ادیب صرف اور صرف اس صورت میں بڑا بنتا اور آفاقی طرزِ بیان کا حامل ٹھہرتا ہے جب وہ دکھ، درد اور غم و اندوہ کو مزاح میں یعنی Pathos کو Humourمیں ملفوف سامنے لائے۔

جب وہ اپنے درد و کرب پر پہلے خود ہنسے، اور پھر اپنے سامع و قاری کو اسی واردات سے گزارے۔ غالب کے فن کا ایک پہلو یہ ہے اور یہ سب سے اہم پہلو ہے کہ وہ درد و الم کو ہنستے ہنستے کہہ جاتے ہیں۔دہلی کے اجڑنے اور چھوڑے کا دکھ یوں بیان کرتے ہیں۔خاکِ دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی۔آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار۔اپنے بچے مرے اور پھر لے پالک بھی مر گیا تو نوحہ کناں ہوتے ہوئے کہا۔ناداں ہو جو کہتے ہو کیوں جیتے ہو غالب،قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کچھ دن اور۔باقی آیندہ۔انشاء اﷲ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غالب کے اشعار فارسی دیوان اشعار کا انھوں نے میں غالب جاتا ہے نے اپنے میں بھی غالب نے ہوتا ہے کے ساتھ ہے کہ ا نہیں ا اپنے ا

پڑھیں:

دبئی میں بطور ویٹرس کام کرنے والی لڑکی مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کیسے بنی؟

 ’مجھے نہیں پتہ تھا میں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر رہی ہوں۔ میں تو بس جینے کی کوشش کر رہی تھی‘ یہ الفاظ تھے 24 سالہ ریچل کے جنہوں نے دبئی کے ایک ریستوران میں بطور ویٹرس کام شروع کیا لیکن جلد ہی وہ ٹک ٹاک اسٹار اور مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار بن گئیں۔

یہ کہانی کیمرے کے پیچھے ایک ایسی عورت ہے جو مس یونیورس فلپائنز 2025 میں خود ہی اپنا میک اپ اور بال بناتی تھی، جو بغیر کسی اسٹائلسٹ یا ٹیم کے فلپائن واپس گئی، اور جس نے لپ اسٹک کا رنگ اپنے بھائی کی رائے پر چنا۔ وہ مس یونیورس فلپائنز کے مقابلے میں اورینٹل مندورو کی نمائندگی کر رہی تھیں، جو منیلا سے 140 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ایک صوبہ ہے۔

ریچل نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دسمبر 2022 میں جب وہ پہلی بار دبئی آئیں، تو اُن کا مقصد شہرت، تاج یا ٹک ٹاک فالوورز حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے والد کے کووڈ کے دوران انتقال کے بعد صرف اپنے خاندان کا سہارا بننا چاہتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل تھا۔ میں سورج کی گرمی میں لمبے وقت تک کام کرنے کی عادی نہیں تھی۔ لیکن مجھے پتہ تھا کہ کچھ کرنا ہوگا۔

وہ کہتی ہیں جب وہ گلف نیوز کے دفتر آئیں اس وقت وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کی یہ محنت، صبر، اور خاموش خواب ایک دن انہیں وائرل فیم اور مس یونیورس فلپائنز 2025 جیسے بڑے مقابلے میں لے جائے گا۔ 13 سال کی عمر سے اب تک 170 سے زائد مقابلوں میں حصہ لینے والی ریچل بتاتی ہیں کہ میری سب سے پہلی دلچسپی حسن کے مقابلے رہے ہیں اور دبئی میں کام اور وطن کی یاد میں اس خواب کو دوبارہ جینا شروع کیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ انجوائمنٹ کے لیے ایک ویڈیو بنا کر دیکھتے ہیں، لیکن وہ ویڈیو اچانک وائرل ہو گئی جس سے میں حیران رہ گئی۔ یہ ویڈیو محض ایک مشغلے کے طور پر شروع ہوئی، لیکن جلد ہی ان کی زندگی بدل گئی۔ ریچل بتاتی ہیں کہ میں نے خود سے کہا کہ اگر لوگوں کو یہ پسند آیا ہے تو شاید میں اور بھی کر سکتی ہوں اور انہوں نے واقعی بہت کچھ کیا۔ آج ریچل کے صرف ٹک ٹاک پر 1.2 ملین سے زائد فالوورز ہیں لیکن ان کی کامیابی کسی ایک رات کی کہانی نہیں ہے۔

مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی، کوئی گلیم اسکواڈ نہیں۔ میں اپنے بھائی سے پوچھتی تھی آج کے ایونٹ کا کیا رنگ ہے اور پھر اپنا میک اپ ویسا کرتی،‘ وہ کہتی ہیں ’یہ تھکا دینے والا تھا، لیکن ناقابلِ فراموش تھا اس نے مجھے بہت کچھ سکھایا، دبئی نے مجھے شکر گزار ہونا سکھایا۔ میں نے سوچا تھا کہ یہاں تمام فلپائنی بس محنت سے کام کرتے ہیں اور پیسے گھر بھیجتے ہیں۔ مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کی کمیونٹی سے اتنی محبت ملے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: ‘مس یونیورس’ کا تاج 60 سالہ حسینہ نے سجا لیا

اپنی کامیابیوں کے بارے میں وہ مزید بتاتی ہیں کہ انہیں حیرت ہوئی جب متحدہ عرب امارات میں فلپائنی لوگ انہیں مالز اور ریستورانوں میں پہچان کر خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ اور جس ہفتے مس یونیورس کی کہانی لکھی، میرے بچوں کے اسکول کی 3 فلپائنی ماؤں نے کہا کہ وہ کتنی فخر محسوس کرتی ہیں، جس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ نے میرے دل کو چھو لیا ہے۔

اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے تاج نہیں جیتا لیکن جب لوگ میرے ٹاپ 12 میں نہ آنے پر رو رہے تھے تب میں نے جانا کہ میں ان کے دل پہلے ہی جیت چکی ہوں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ مکمل ہوں، جسم، چہرہ، جواب سب کچھ پرفیکٹ ہو لیکن میں ہمیشہ خود کو یاد دلاتی تھی کہ میں یہاں کیوں ہوں۔ میرا مقصد لوگوں کو متاثر کرنا تھا، صرف تاج جیتنا نہیں۔

ریچل کا کہنا تھا کہ ’میں خود کو خودساختہ اس لیے کہتی ہوں کیونکہ میں نے یہ سب خود بنایا۔ نہ کوئی مینیجر، نہ کوئی ٹیم۔ بس میں خود تھی‘۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگرچہ انہیں مشہور ہونے سے بہت مواقع ملے، لیکن وہ سوشل میڈیا کے نقصانات سے بھی واقف ہیں۔ ’لوگ سمجھتے ہیں وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ذاتی زندگی تو جیسے ختم ہو گئی۔ اس لیے کبھی کبھار میں بریک لیتی ہوں۔ سوشل میڈیا ڈیٹاکس واقعی ضروری ہے‘۔

ٹک ٹاکر کہتی ہیں کہ اگر میں اپنے خاندان کی مدد کر سکی، اور کسی ایک شخص کو بھی خوابوں کے پیچھے بھاگنے کی ہمت دے سکی، تو یہی میری کامیابی ہے۔ اپنے خواب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’نہ بیوٹی پیجینٹس، نہ ٹک ٹاک، میں فنکار بننا چاہتی تھی اور یہی میرا پہلا خواب تھا میں ٹی وی پر آنا چاہتی تھی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی موقع ملا، تو میں تیار ہوں۔ ڈرامہ، ہارر، کچھ بھی۔ بس خود کو ظاہر کرنے کا موقع ہو اور اگر کسی فلم کی آفر آئی تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹک ٹاکر مس یونیورس فلپائنز 2025

متعلقہ مضامین

  • غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں
  • صفر المظفر 1447 ہجری کا چاند نظر نہیں آیا، یکم صفر 27 جولائی کو ہوگی
  • کمبوڈیا کیساتھ جھڑپیں، تھائی لینڈ نے اپنے 8سرحدی اضلاع میں مارشل لا نافذ کردیا
  • پرنس جارج کی بورڈنگ اسکول منتقلی کے فیصلے پر کیٹ مڈلٹن شدید ذہنی دباؤ کا شکار
  • بانی پی ٹی آئی نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اپنے حق میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
  • ہم نے ایران کیخلاف اسٹریٹجک گفتگو شروع کر رکھی ہے، غاصب صیہونی وزیر خارجہ کا دورہ کی اف
  • دبئی میں بطور ویٹرس کام کرنے والی لڑکی مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کیسے بنی؟