حکومت کی معاشی اصلاحات کے مثبت نتائج؛ تمام پروپیگنڈے غلط ثابت
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
حکومت کی معاشی اصلاحات کے مثبت نتائج نے اس حوالے سے کیے گئے ہر پروپیگنڈے کو غلط ثابت کردیا ہے۔
مختلف حلقوں کی جانب سے میکرو اکنامک استحکام اور آئی ایم ایف پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ غربت، مالیاتی امور، صنعتوں کے زوال ، غریبوں پر ٹیکس کے بوجھ ، حکومتی فضول خرچیوں کو معیشت کی تباہی سے منسوب کیا جا رہا ہے۔
ملک میں افراط زر اور عوام کی قوت خرید، قرضوں کو بحران اور معاشی اصلاحات کو فضول قرار دیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط سے آگے بڑھ کر جامع اصلاحات کی ہیں جن میں توانائی کے شعبے کی تنظیم نو، ٹیکس کی بنیاد میں توسیع اور انسداد بدعنوانی کی کوششیں شامل ہیں۔
ملک میں سبسڈی اصلاحات ناگزیر تھیں، مگر حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سماجی تحفظ کو بڑھایا، جس میں 25فیصد اضافہ کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت بڑھنے کی وجہ آئی ایم ایف پروگرام نہیں بلکہ عالمی اقتصادی بحران ہیں جیسے کرونا وبا اور دیگر عوامل نے دنیا بھر کو متاثر کیا ہے۔ عالمی سطح پر مسائل کی وجہ سے پاکستان کا صنعتی شعبہ متاثر ہوا۔
بحرانوں سے نکلنے کے لیے حکومت نے توانائی کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ اور نئے اقدامات کیے۔ اسی طرح ایس آئی ایف سی کے ذریعے صنعتی بحالی کی بھی کوششیں جاری ہیں۔ یہ اقدامات زراعت، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دے رہے ہیں۔
حکومت نے اشرافیہ پر زیادہ انکم ٹیکس اور بینکوں پر ونڈ فال ٹیکس جیسے ترقی پسند اقدامات متعارف کرائے ہیں اور غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے غیرسودی اخراجات میں 32 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومت نے ضرورت سے زیادہ اخراجات کو درست کیا، جیسے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا تاکہ برین ڈرین کو روکا جا سکے۔
حکومتی اقدامات کے نتیجے میں سخت مانیٹری پالیسی اور عالمی قیمتوں میں کمی کی بدولت افراط زر میں کمی آئی، جو کہ معاشی استحکام کی علامت ہے۔ روپے کے استحکام اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری نے قیمتوں کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
حکومت نے گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کے لیے توانائی کے شعبے میں ٹیرف ریشنلائزیشن، سرکاری اداروں کی نجکاری اور قرضوں کے انتظام میں بہتری کے بھی اقدامات کیے ہیں۔ ان اصلاحات سے پاکستان کے قرضوں کی صورتحال میں بہتری آئی ہے اور بحران سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات کیے گئے ہیں ۔
حکومت نے اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی ، تاہم حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کے نتائج کے حصول کے لیے وقت درکار ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
برطانیہ کی اکثریت اسرائیل کیخلاف پابندیوں کی خواہاں ہے، سروے
برطانیہ میں ہونیوالے ایک نئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ برطانوی عوام کی اکثریت غزہ میں جاری سفاک اسرائیلی رژیم کے سنگین جنگی جرائم کے جواب میں تل ابیب کیخلاف اقتصادی و اسلحہ جاتی پابندیاں عائد کرنے سمیت اسرائیل کیساتھ تجارتی معاہدے کی معطلی کی بھی خواہاں ہے! اسلام ٹائمز۔ "62 فیصد برطانوی، اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے خواہاں ہیں جبکہ 65 فیصد اس کو ہتھیاروں کی فروخت روکنا چاہتے ہیں اور 60 فیصد برطانوی شہری، اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدے کو بھی معطل کر دینا چاہتے ہیں" یہ اعداد و شمار برطانیہ میں ہونے والے یونڈر کنسلٹنگ (Yonder Consulting) نامی شماریاتی ادارے کے ایک نئے سروے کے نتائج پر مبنی ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی عوام کی اکثریت قابض صیہونی رژیم کی جنگی مشین کو روکنے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں بالترتیب صرف 11، 11 اور 13 فیصد برطانوی ہی تل ابیب کے خلاف مجوزہ ان فیصلہ کن اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے اپنے ایک پیغام کے ساتھ اس سروے کے نتائج کو منسلک کرتے ہوئے برطانوی رکن پارلیمنٹ رچرڈ برگن (Richard Burgon) نے اطلاع دی کہ اسرائیل پر پابندیوں سے متعلق بل، کہ جسے پیش کرنے کا میں ارادہ رکھتا ہوں، ان اقدامات پر بھی مشتمل ہو گا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ (برطانوی) حکومت ابھی اور اسی وقت قدم اٹھائے!