شاعر صدیقی بھی راہی ملک عدم ہوئے
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
پروفیسر زاہد رشید
11 جنوری کو شاعر و مبصر ابن عظیم فاطمی کا برقی پیغام موصول ہوا۔ ’’کیا شاعر صدیقی صاحب وفات پاگئے ہیں‘‘؟ رگ و پے میں ایک عجیب سی اُداسی دوڑ گئی۔ کیا والد محترم پروفیسر ہارون الرشید کے ایک اور دیرینہ ساتھی راہی ملک عدم ہوئے؟۔ میں نے اضطرابی کیفیت میں کئی اہل قلم سے خبر کی تصدیق چاہی مگر کسی سے اس خبر کی تصدیق نہ ہوسکی۔ میرے ذہن میں سفیر ادب شہزاد سلطانی کا نام آیا۔ ہاں یہ صاحب ِ ضمیر ہیں جو مرنے والوں سے محبت کا حق ادا کرتے ہیں۔ میں نے انہیں فون کیا۔ انہوں نے حیرت اور افسوس کا اظہار کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ فون بھی مسلسل کررہا ہوں فون بند ہے۔ انہوں نے دُکھ اور محبت سے کہا ’’زاہد بھائی! میں اُن کے گھر جا کر پتا کرتا ہوں‘‘۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
دو دن بعد ہی شہزاد سلطانی نے سفیر ادب لقب کا حق ادا کردیا۔ انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا ’’زاہد بھائی! میں شاعر صدیقی صاحب کے گھر موجود ہوں۔ وہ انتقال کرچکے ہیں۔ لیجیے بات کیجیے۔ پہلے بہو نے بڑی عقیدت سے اپنے سسر کی وفات سے آگاہ کیا پھر بیٹے نے دیگر تفصیلات بتائیں۔ تصدیق ہوگئی، 6 جنوری 2025ء کو شاعر صدیقی وفات پاگئے۔ اسی دن محمد شاہ قبرستان، نارتھ کراچی میں سپرد خاک کیے گئے۔ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
شاعر صدیقی کا اصل نام عبدالرزاق خان تھا۔ یکم فروری 1933ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ پروفیسر ہارون الرشید ’’اخلاق و کردار‘‘ کے عنوان سے ’’دبستانِ مشرقی پاکستان‘‘ میں لکھتے ہیں:۔ ’’شاعر صدیقی نے سخت جدوجہد کی زندگی گزاری۔ 1949ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا۔ 1950ء میں ہجرت کرکے ڈھاکا آگئے۔ وہاں سرکاری ملازمت کرلی۔ تعلیمی سلسلہ اور ادبی مشاغل بھی جاری رہے، ڈھاکا یونیورسٹی سے انٹر، بی اے، ایم اے (اردو) کیا۔ افسانہ نگاری اور شاعری کے ساتھ ادبی محفلوں میں شرکت بھی ہوتی رہی۔ متعدد ادبی انجمنوں کے سرگرم کارکن اور عہدے دار بھی رہے۔ جب مشرقی پاکستان میں اردو فلمیں بننے لگیں تو نغمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے ان کی مصروفیتیں بڑھ گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی سے بھی تعلق رہا۔ ان کا کلام تسلسل سے ہندوستان اور پاکستان کے ادبی جرائد میں شائع ہوتا رہا۔ سرکاری ملازمت بھی بغیر کسی تعطل کے جاری رہی۔ حیرت ہے کہ وہ اتنا سارا کام کیسے کرلیتے تھے۔ اتنی مصروفیتوں کے باوجود ان کی خوش مزاجی، خوش اخلاقی اور ملنساری ہمیشہ برقرار رہی۔ اس کے علاوہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے کام آنا ان کی ایک اضافی مصروفیت تھی۔
سقوطِ ڈھاکا کے بعد شاعر صاحب نے بہت تکلیفیں اُٹھائیں۔ 1974ء میں نیپال ہوتے ہوئے مع اہل عیال کراچی پہنچے۔ یہاں بھی مصروف تگ و دو رہے۔ اسٹینو کی حیثیت سے واپڈا کی ملازمت جاری رہی۔ شعر و شاعری، نثر نگاری، ریڈیو اور ٹی وی کے لیے نغمہ نگاری اور صحافت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ 1975ء میں ماہنامہ ’’شمع‘‘ کراچی کے مدیر معاون مقرر ہوئے اور طویل عرصے تک یہ ذمے داری بھی نبھائی۔ واپڈا کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو پرائیویٹ ملازمت کرلی۔ ایسے منکسر المزاج، بااخلاق، مخلص، ہمدرد اور نیک کردار شاعر و ادیب بہت کم ملتے ہیں۔ ان کے اس شعر پر یہ مضمون ختم کرتا ہوں:۔
اس حسیں وادی میں، نفرتوں کی آندھی میں
جل رہے ہیں ہم تنہا، پیار کا دیا بن کر
ان کے مقبول کلام میں مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا، کہاں ہو تم چلے آئو محبت کا تقاضا ہے، ہم تم جہاں ملے تھے پھولوں کی رہ گزر میں شامل ہیں۔
شاعر صدیقی کی حسب ذیل کتب شائع ہوئیں۔ آنکھوں میں سمندر، پانی کا ملک پتھر کے لوگ (المیہ مشرق پاکستان کے پس منظر میں)، بجھتے سورج نے کہا، جگر لخت لخت، سندر بن میں آگ اور کلیاتِ شاعر صدیقی۔
شاعر صدیقی نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔ اللہ ربّ العزت شاعر صدیقی کی مغفرت کرے۔ آمین۔ آخر میں نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے۔
دشت کو گھر بنا لیا ہم نے
ریت میں منہ چھپا لیا ہم نے
اپنی قسمت کی تیرگی کی قسم
دل کو سورج بنا لیا ہم نے
پاس جو کچھ تھا سب لٹا بیٹھے
اک ترا غم بچا لیا ہم نے
نام پر دوستی کے پھر شاعرؔ
زخم اک اور کھا لیا ہم نے
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لیا ہم نے
پڑھیں:
عافیہ صدیقی اور عمران خان کی جیل پر امریکہ میں اسحاق ڈار کی گفتگو
واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکہ میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے امریکی جیل میں موجودعافیہ صدیقی اور اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کا نام لیے بغیر ان سے متعلق گفتگو کی ہے ۔
امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹنک کونسل کو انٹریو میں اسحاق ڈار نے کہاکہ ""میرا خیال ہے کہ ہمیں کسی بھی چیز کو سیاست زدہ نہیں کرنا چاہیئے، مثال کے طورپر جب میں کہتا ہوں کہ عافیہ صدیقی کئی دہائیوں سے یہاں ہیں اور خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ کب تک یہاں (قید میں) رہیں گی،میں سوچتا ہوں کہ یہ غیر منصفانہ بات ہوگی ،اگر یہ قانونی کارروائی کے نتیجے میں ایکشن ہوا ہے تو میرا خیال ہے یہی فارمولہ سب پر لاگو ہوتا ہے۔
کسی کو کوئی استثنیٰ نہیں، اگر آپ ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ کو لائسنس مل گیا ہے کہ آپ ہتھیار اٹھائیں اور عوام کو اشتعال دلا کر ایک ملک کی فوجی تنصیبات پر حملہ کردیں،یہ غداری ہے،میں جج نہیں ہوں کہ کوئی فیصلہ کر سکوں"۔
چھوٹی نہر میں پڑنے والا شگاف ستھراپنجاب کے ورکرز کی مدد سے بھر دیاگیا، ویڈیو وائرل
View this post on InstagramA post shared by Suno Dekho Pakistan (@sunodekhopakistan)
مزید :