Nai Baat:
2025-04-25@03:04:06 GMT

عمرانی خط و کتابت کی باتیں سب چالیں ہیں

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

عمرانی خط و کتابت کی باتیں سب چالیں ہیں

ترک صدر پاکستان کا دورہ کرکے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔ انہوں نے صدر مملکت، وزیراعظم پاکستان سے ملاقاتیں کیں۔ دوطرفہ تعلقات کے مثبت انداز پر اطمینان کا اظہار کیا۔ جاری تعلقات کو سٹرٹیجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اسی دورے کے دوران پاکستان ترکیہ 24معاہدوں، ایم او یوز پر دستخط بھی کئے گئے، سب سے اہم بات، تجارتی حجم 5ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ 169سے زائد دنیا کے ممالک میں ترکیہ واحد ملک ہے جہاں پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانیوں کی تھوڑی بہت عزت کی جاتی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ مشہور زمانہ آر سی ڈی معاہدے کے تحت بھی جڑے رہے ہیں۔ ترکیہ حقیقت میں پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے۔ طیب اردوان کے دور حکمرانی میں دو برادر اسلامی ممالک کے تعلقات میں اور بھی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ادوار حکمرانی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ پاک، ترک تعلقات موثر بنیادوں اور محبت کے رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ترکیہ کے صدر کا حالیہ دورہ اس کا عملی اظہار ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ یہ وفد اس بات کا جائزہ لینے کے لئے آیا ہے کہ پاکستان نے کیا معاہدے کے مطابق، معاہدے کی طے کردہ شقوں پر کس حد تک عملدرآمد کیا ہے۔ وفد نے بجٹ یوٹیلائزیشن مزید بہتر بنانے کے مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ وفد نے یہ تجویز ڈویلپمنٹ سیکٹر کیلئے بجٹ ریلیز سٹرٹیجی اور مانیٹرنگ سسٹم پر بریفنگ کے دوران دی۔ ویسے تو یہ بات اچھی ہے کہ بجٹ کے استعمال میں وہ تمام قواعد و ضوابط بروئے کار لائے جانے چاہئیں جو مروج ہیں اور ان کے نتائج بھی معلوم ہیں اور مصدقہ ہیں۔ ہمارے ہاں بجٹ دستاویز کو وہ تقدس حاصل نہیں ہے جو عموماً ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ بجٹ کیا ہے؟ تخمینہ ہے آمدنی و اخراجات کا۔ حکومت یہ طے کرتی ہے کہ آنے والے بارہ مہینوں یا 365دنوں میں آمدنی کتنی ہوگی اور کہاں سے حاصل کی جائے گی؟ اخراجات کیا ہوں گے اور کن کن مدات پر خرچ کئے جائیں گے۔ یہ دستاویز بڑی عرق ریزی اور مہارت سے تیار کی جاتی ہے پھر اسے پارلیمان میں عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس پر بحث و تمحیص ہوتی ہے۔ اس میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ مسودے میں تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں بالآخر حتمی مسودہ کی منظوری کے بعد بجٹ تجاویز، ایک مقدس دستاویز کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جس پر آنے والے سال کے 365دنوں میں عمل کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس دستاویز ”بجٹ ڈاکومنٹ“ کو وہ عزت نہیں دی جاتی ہے جو مہذب اور جمہوریت معاشروں میں دی جاتی ہے۔ بجٹ دستاویز بنانے اور اسے منظور کرنے والی خود ہی اس کی مخالفت میں لگ جاتے ہیں۔ حکمران اپنے سیاسی مفادات کی خاطر طے کردہ معاملات، بجٹ ایلوکیشنز میں حسب منشا ردوبدل کر دیتے ہیں۔ ادھر کے فنڈ ادھر لگا دیئے جاتے ہیں۔ آمدنی کے لئے لگائے گئے ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کر دیا جاتا ہے۔ منی بجٹ لائے جاتے ہیں، کئی دفعہ تو منی بجٹ لانے کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا ہے اور تبدیلیاں کر دی جاتی ہیں۔ ایسی ہی روایات کے خاتمہ کے لئے آئی ایم ایف نے بجٹ کے استعمال کو مزید بہتر بنانے کے لئے مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ بجٹ دستاویز میں جو کچھ لکھا گیا ہے جو کچھ اسمبلی نے پاس کیا ہے، اس پر عملدرآمد کو مانیٹر کیا جا سکے۔ یہ سب کچھ اس لئے بھی ہے کہ ہم قرض لیتے وقت آئی ایم ایف کے ساتھ جو وعدے وعید کرتے ہیں، جو کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کے جو وعدے کرتے ہیں ان پر عملدرآمد ہوتا دیکھ سکے۔ آئی ایم ایف اپنے فنڈز کا منصفانہ استعمال یقینی بنانا چاہتا ہے وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتا ہے کہ قرض لینے والا ملک (پاکستان) قرض واپس بھی کر سکے۔ طے شدہ اقساط کی واپسی کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف بجٹ دستاویز میں درج اقدامات پر من و عن عمل کیا جائے بلکہ فنڈز کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی شرائط پر بھی عملدرآمد ہو۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر معاملات گڑبڑ ہو جاتے ہیں۔ ویسے پاکستان نے آج تک اپنے تمام عالمی معاہدوں پر عملدرآمد کیا ہے۔ وعدے پورے کئے ہیں اس لئے ہمارا ریکارڈ اچھا ہے مثبت ہے اس پر کسی قسم کے داغ دھبے نہیں ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہم معاشی طور پر نہ صرف عدم استحکام کا شکار ہیں بلکہ ہماری معیشت سے مستحکم و پائیدار بنیادوں پر استوار نہ ہونے کے باعث کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں۔ عالمی ادارے براہ راست مداخلت کاری کے ذریعے معاہدوں پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہیں۔ آئی ایم ایف ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کیوں کر رہا ہے، وہ ہمارے قاضی القضاہ سے کیوں مل رہا ہے، بات یہ ہے کہ وہ ہمارا قرض خواہ ہیں، ہم قرض دار ہیں۔ قرض دار کو جھکنا ہی پڑتا ہے۔ اب ذرا تھوڑی سی بات عمران خان کی خط و کتابت کے بارے میں کر لیں۔ مجھے اس بارے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عمران خان افتراق و انتشار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ 1996ءمیں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر جیل یاترا تک، اس نے اپنا کلیدی فرض کبھی نہیں بھلایا۔ اس کا ہر ایک قدم،
اس کی ہر ایک چال، اس کی ہر موو اور اس کے بیانات، اسی مرکزی و محوری مقصد کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ عمرانی سیاست نے پاکستان میں فکری انتشار اور عملی انارکی پھیلائی ہے۔ معاشرہ تقسیم ہو گیا ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ، ہر شعبہ، ہر ادارہ اسی تفریق کا شکار نظر آتا ہے۔ ویسے تو ریاست نے عمرانی سیاست کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کی شیطانی حرکات کو محدود کر دیا ہے لیکن کیونکہ وہ تخریب کاری اور انتشار پر مامور ہے اس لئے وہ جیل میں بیٹھ کر بھی کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے مقصد کے حصول کے لئے کاوشیں کرتا رہتا ہے۔ خط و کتابت کا سلسلہ اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ حال ہی میں اس نے آرمی چیف کے نام تیسرا کھلا خط سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے جس میں آرمی کو ہی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ خط کے مندرجات پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو اس میں اس مقصد کے حصول کی جستجو نظر آتی ہے جس کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا ہے۔ ویسے آرمی چیف نے اس کا جواب خوب دیا ہے۔ ویسے انہیں خط ابھی ملا نہیں ہے لیکن انہوں نے خوب کہا ہے کہ ”خط کی باتیں سب چالیں ہیں آیا تو پڑھوں گا نہیں وزیراعظم کو بھجوا دوں گا“ کیا خوب جواب ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بجٹ دستاویز آئی ایم ایف جاتے ہیں جاتی ہے جاتا ہے گیا ہے کے لئے کیا ہے

پڑھیں:

مکار ،خون آشام ریاست

دنیا نے دہشت گردی کے بے شمار واقعات دیکھے ہوں گے، لیکن ایسا کوئی ملک نہیں جو خود اپنے شہریوں کو قتل کرکے الزام دشمن پر تھوپنے کی مہارت رکھتا ہو — سوائے بھارت کے۔ یہ وہ ریاست ہے جو اپنے فالس فلیگ آپریشنز سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن خطرے میں ڈال چکی ہے۔ کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر ممبئی کی سڑکوں تک، جہاں کہیں خون بہا، وہاں بھارت کی بزدل، مکار اور منافق حکومت کا ہاتھ نظر آیا۔فالس فلیگ بھارت کی پرانی اور شرمناک روائت ہے ، جو ایک بار پھر 26بے گناہوں کا خون پی گئی ۔ بھارتی درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، ابھی کل کی بات ہے ، جب ابھی نندن کو چپیڑیں پڑی تھیں ، وہ بھی ایک فالس فلیگ ہی کا نتیجہ تھا ، یعنی پلوامہ کا حملہ جب فروری 2019 میںچالیس سے زائد بھارتی فوجی مارے گئے۔ مودی حکومت نے چند گھنٹوں میں الزام پاکستان پر تھوپ دیا۔ بعد ازاں خود بھارتی فوج کے سابق افسران اور ماہرین نے اشارہ دیا کہ یہ “اندرونی سازش” تھی تاکہ انتخابات سے قبل ہمدردی حاصل کی جائے۔ مودی نے اس کا خوب سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اڑی حملہ،ستمبر 2016،خود ہی ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا، الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کیا۔ مگر بعد میں بی بی سی سمیت کئی بین الاقوامی ادارے اس حملے کی مشکوک نوعیت پر سوال اٹھاتے رہے۔بدنام زمانہ ممبئی حملے 26/11 – 2008، بھارت نے اسے بھی پاکستان سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن کئی سوالیہ نشان اٹھتے رہے، بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی؟ حملہ آوروں کے داخلی نیٹ ورکس؟ یہاں تک کہ معروف بھارتی افسر “ہیمنت کرکرے” جو ان حملوں کی آزاد تحقیق کر رہے تھے، انہیں بھی مشکوک انداز میں قتل کر دیا گیا۔ سمجھوتا ایکسپریس آتش زدگی 2007، یہ وہ واقعہ ہے جو بھارت کے لیے سب سے بڑا طمانچہ بنا۔ 68 افراد، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی، کو زندہ جلا دیا گیا۔ ابتدائی الزام پاکستان پر لگا، مگر بعد میں کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ اور دیگر انتہاپسند ہندو رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ یعنی یہ خالصتاً اندرونی بھارتی دہشت گردی تھی، جس میں بھارتی عدالتوں نے ثابت کیا کہ بھارتی فوج کے حاضر ڈیوٹی افسران خود ملوث تھے ، ابھی کل کی بات ہے ، خون آشام مودی نے ان تمام دہشت گردوں کو عام معافی دے کر رہا کیا ۔ اسی پر بس نہیں ، ڈانڈلی (کشمیر) میں خودساختہ حملے، بھارتی افواج نے خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروائے تاکہ تحریک آزادی کو بدنام کیا جا سکے۔
بھارت کا سب سے بڑا فالس فلیگ نہ پلوامہ تھا، نہ اڑی، بلکہ سب سے خطرناک فالس فلیگ وہ ہے جو آج بھی مسلسل کشمیر کی گلیوں میں جاری ہے،’’ریاستی دہشت گردی کا نام جمہوریت رکھ کر دنیا کو دھوکہ دینا‘‘۔مقبوضہ کشمیر میں ہر روز بے گناہ نوجوان لاپتہ ہوتے ہیں، ان کے جسم جعلی انکاؤنٹر میں گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے ہیں، اور پھر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ’’دہشت گرد‘‘ تھے۔ ان کے جنازے بھی گھر والوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا یہی سیکولر ازم ہے؟ کیا یہی وہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ہے جس کے نعرے سے بھارت دنیا کو دھوکہ دیتا ہے؟
سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر مغربی طاقتیں، بھارت کے ان جرائم پر خاموش ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے؟ یا اس لیے کہ بھارت نے تہذیب” کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے؟ لیکن یہ لبادہ خون آلود ہے، اس کے اندر وہ درندہ چھپا ہے جو اپنے فائدے کے لیے اپنے ہی شہریوں کی لاشوں پر سیاست کرتا ہے۔ہر وہ وقت جب کوئی امریکی یا یورپی وفد بھارت آتا ہے، بھارت ایک جعلی دہشت گرد حملہ کروا کر خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے — اور الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کرتا ہے۔پاکستان نے ہر بار بھارت کی فریب کاریوں کا مؤثر جواب دیا، مگر ہمیشہ اخلاقی دائرے میں رہ کر۔ پاکستان نے کبھی بچوں کی لاشوں پر سیاست نہیں کی، کبھی اپنے لوگوں کو مار کر الزام دوسروں پر نہیں لگایا۔ لیکن بھارت؟ وہ ایک ایسا شیطانی ذہن رکھتا ہے جو اپنے ہی خون سے اپنے چہرے کو دھو کر اسے دشمن کا رنگ دیتا ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ، عسکری قیادت اور سفارتی اداروں کے لئے اب مزید خاموشی کی گنجائش نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان فالس فلیگ حملوں کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے۔ ہر جعلی حملے کی بین الاقوامی نگرانی میں انکوائری ہو تاکہ بھارت کی ننگی حقیقت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو۔
بھارتی میڈیا، جو کبھی صحافت تھا، اب محض جنگی پروپیگنڈے کا آلہ بن چکا ہے۔ “ریپبلک ٹی وی”، زی نیوز”، اور “ٹائمز ناؤ” جیسے چینلز اپنے سٹوڈیوز میں بیٹھ کر پاکستان پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں۔ ان کے اینکرز صحافی نہیں، غصے سے چیختے سپاہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے پلوامہ جیسے حملے کو فلمی اسکرپٹ بنا کر پیش کیا، اور بھارتی عوام کو جنگ کے جنون میں مبتلا کر دیا، جواب میں جب پاکستان نے بھارتی وکاس کو دھو کر رکھ دیا تو میڈیا کو چپ لگ گئی ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جو پاکستان کی معاشی بحالی اور اپنی کٹھ پتلیوں کی ناکامی پر انگاروں پر لوٹ رہاہے ، کیا آگے چپ رہے گا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے ۔ وہ ایک بار پھر فالس فلیگ سازشوں کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ کشمیر میں حالیہ سیاحوں پر حملہ اسی شیطانی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت اس وقت بلوچستان میں اپنی پراکسیز کے خاتمے، ایران میں نیٹ ورک کی بے نقابی، اور افغانستان میں رسائی ختم ہونے سے سخت بوکھلایا ہوا ہے۔ ان تمام محاذوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی نیا ڈرامائی حملہ” خارج از امکان نہیں۔ حالیہ حملہ جس میں غیر ملکی سیاح مارے گئے، اس بات کا عندیہ ہے کہ بھارت اب عالمی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ ایک سفاک حکومت کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ ہر فالس فلیگ آپریشن کا مکمل فیکٹ فائل تیار کرے، جس میں واقعات، مشکوک پہلو، انٹیلی جنس رپورٹس، میڈیا پراپیگنڈا اور بھارتی بیانات کو جمع کر کے اقوام متحدہ، او آئی سی، ہیومن رائٹس کونسل اور انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے رکھا جائے۔ ہر پاکستانی سفارت خانے کو یہ ہدف دیا جائے کہ وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر ایک ایک رپورٹ متعلقہ ملک کے دفتر خارجہ، تھنک ٹینکس، اور میڈیا ہاؤسز کو فراہم کرے۔دوسری جانب یہ بھی لازم ہے کہ ہمارے ادارے جو پہلے ہی چوکس ہیں ، ریڈ الرٹ پر آجائیں ، متحرک اور متحد ہو کر بھارت کی ہر ممکنہ چال پر نظر رکھیں، پیشگی وارننگ اور پروف کے ساتھ دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت کیا کرنے والا ہے، اور اگر ابھی نندن جیسی کوئی دوسری حماقت کرے تو پھر یہ اس کی آخری حماقت ہونی چاہئے ۔
بھارت ایک بار پھر چالاکی، سازش اور ظلم کا جال بُن رہا ہے — مگر ہم جاگ رہے ہیں۔ ہمیں ایک قوم بن کر، ایک مؤقف کے ساتھ، ایک آواز میں دنیا کو بتانا ہوگا:
ہم خاموش ضرور ہیں، مگر کمزور نہیں۔
ہم امن چاہتے ہیں، مگر بزدل نہیں۔
ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھو —
کیونکہ جب پاکستان بولتا ہے، دنیا سنتی ہے۔
اور جب ہم وار کرتے ہیں،
دشمن کی سانسیں بند ہو جاتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • بھارت ہمیشہ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور جج بن جاتا ہے
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • ایک تاریخی دستاویز۔۔۔۔۔۔ ماہنامہ پیام اسلام آباد کا "ختم نبوت نمبر"
  • مکار ،خون آشام ریاست
  • پانی‘ پانی اور پانی
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی عمرانی ہاؤس آمد ، سردار غلام رسول عمرانی کے چچا کے انتقال پر تعزیت و فاتحہ خوانی کی
  • کینالز کے معاملے کو وفاق اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہا جتنا اس کو لینا چاہیئے، شرمیلا فاروقی
  • حکومت نے ججز تبادلوں سے متعلق تمام خط و کتابت سپریم کورٹ میں جمع کرا دی