پاکستانی سیاست میں فحش گوئی، ناشائستہ زبان کا استعمال اور کردار کشی
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
پاکستانی سیاست میں اخلاقی اقدار کی گراوٹ ، بدزبانی اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر ذاتی زبانی و جسمانی حملے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ سیاسی بیانات میں گالم گلوچ، جنسی نوعیت کے فقرے، مخالفین کی کردار کشی، اور خواتین سیاستدانوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کا عمل نہ صرف سیاسی ماحول کو آلودہ کر رہا ہے بلکہ عوامی شعور پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ محض ایک وقتی رجحان نہیں بلکہ اس کی جڑیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیوست ہیں، جہاں اقتدار کی جنگ میں اخلاقی حدود کو بارہا پامال کیا گیا۔
پاکستان کی سیاست میں ناشائستگی اور فحش گوئی کی تاریخ پرانی ہے، مگر جیسے جیسے میڈیا اور سوشل میڈیا کا دائرہ وسیع ہوا، یہ رویے مزید نمایاں ہو گئے۔ اس رویے کی جڑیں ابتدا ہی سے موجود تھیں، جب مادر ملت فاطمہ جناح کو 1965 میں ایوب خان کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے پر نشانہ بنایا گیا۔ ایوب خان کے حامیوں نے کراچی اور گوجرانوالہ میں فاطمہ جناح کی توہین کے لیے ایک کتیا کو دوپٹہ اور لالٹین پہنا کر گلیوں میں گھمایا۔اور اسے محترمہ کی ذات سے موسوم کیا گیا۔ ان حامیوں میں موجودہ دور کے اہم سیاستدانوں کے بزرگ بھی شامل تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی خاتون سیاستدان کو اس قدر ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعے نے پاکستانی سیاست میں ناشائستگی کے ایک خوفناک رجحان کو جنم دیا، جس کے اثرات آنے والے عشروں میں مزید شدت اختیار کرتے گئے۔
ضیاءالحق کے دور (1977-1988) میں خواتین کو دبانے کے لیے قوانین متعارف کرائے گئے، جن میں حدود آرڈیننس شامل تھے، جنہیں عورتوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی، بینظیر بھٹو کے خلاف 1988 کے انتخابات میں نازیبا مہم چلائی گئی، جس میں انہیں "پیلی ٹیکسی” جیسے نعروں کے ذریعے، عوام میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ "کوکا کولا پیپسی، بینظیر ٹیکسی” جیسے الفاظ عام کیے گئے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان شیخ رشید نے خاص طور پر اس مہم کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
مسلم لیگ) نواز شریف( کے حامیوں نے بینظیر اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کی ایڈیٹ شدہ فحش تصاویر چھاپ کر عوام میں تقسیم کیں، یہاں تک کہ ہیلی کاپٹروں سے یہ تصاویر پھینکی گئیں تاکہ ان کی سیاسی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کیا جا سکے۔
1990 کی دہائی میں بھی اسی نوعیت کے حملے جاری رہے، جب بینظیر بھٹو نے اپنے مخالفین کو "باسٹرڈ” کہہ کر مخاطب کیا، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ ناشائستگی اور فحش گوئی کا دائرہ کار صرف مرد سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ مجموعی سیاسی ماحول پر اثرانداز ہو چکا تھا۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ کو انگریز ہونے کی بنیاد پر غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا گیا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔
سیاسی عدم برداشت پاکستانی سیاست میں ایک عام رویہ بنتا جا رہا ہے، جہاں نظریاتی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔چند برس قبل سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کےرکن اسمبلی خواجہ آصف نواز نے شیریں مزاری کو قومی اسمبلی میں "ٹریکٹر ٹرالی” جیسے توہین آمیز الفاظ سے پکارا، جو نہ صرف خواتین کے خلاف نفرت کا اظہار تھا بلکہ یہ اس بات کا بھی عکاس تھا کہ کس طرح پارلیمنٹ میں بھی غیر مہذب زبان معمول بن چکی ہے۔ جس کے بعد شریں مزاری نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھالیکن عدالت نے شیریں مزاری کی درخواست خارج کر دی ۔
اسی طرح مریم نواز کو عمران خان کی جانب سےجلسے میں سرعام طنزیہ انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ بار بار میرا نام لے کر اپنے شوہر کو ناراض کر رہی ہیں، جو کہ ایک انتہائی ذاتی نوعیت کی غیر شائستہ تنقید تھی۔ بلاول بھٹو کو "مرد” ہونے کے باوجود "میڈم” کہہ کر پکارا گیا، اور شیخ رشید جیسے سیاستدانوں نے ان کی جنس پر نازیبا تبصرے کیے۔
یہی رویہ حالیہ برسوں میں مزید شدت اختیار کر گیا جب عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بارے میں عدت کی مدت کے متعلق تنازع کھڑا کیا گیا، اور سوشل میڈیا پر انہیں نہایت بے ہودہ اور غیر شائستہ طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی شرمیلا فاروقی اور متعدد مخالفین مریم نواز کوبھاگ کر شادی کرنے کا طعنہ مسلسل دیتے رہے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے ان کے مخالفین ان کے مبینہ معاشقوں اور شادیوں کے حوالے سے بھی ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں، سیاستدانوں کے خلاف سیکس ٹیپس اور آڈیو لیکس کو بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا۔ عمران خان کے حوالے سےعائلہ ملک کے ساتھ مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آئیں، جس کے بعد یہ سلسلہ تیزی سے بڑھتا گیا۔
یہی طریقہ کار 2023 میں بھی دہرایا گیا، جب مختلف سیاستدانوں کی نجی گفتگو یا ویڈیوز کو ایڈٹ کر کے عوام میں بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔جن میں سابق گورنر سندھ اور پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمینٹرین محمد زبیر کی ایڈٹ شدہ ویڈیوز شامل ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمنٹرین رانا تنویر حسین نے اسمبلی میں عمران خان کی والدہ اور اہلیہ پر نازیبا تبصرے کیے.
یہ تمام عوامل پاکستانی معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ایک جانب نوجوان نسل کے لیے سیاست گالی گلوچ اور غیر مہذب بیانات کا کھیل بن چکی ہے، جبکہ دوسری جانب جمہوری روایات متاثر ہو رہی ہیں۔ جب عوامی سطح پر سیاسی مباحثہ اخلاقی اقدار سے خالی ہو جائے تو لوگ سیاست سے متنفر ہونے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔
خواتین سیاستدانوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کے سبب، خواتین خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین کو ہر وقت کردار کشی کے خطرے کا سامنا ہو، وہاں صنفی مساوات ممکن نہیں رہتی۔
اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو سدھارنے کے لیےسخت قانون سازی ضروری ہےتا کہ سیاسی تقاریر میں ناشائستہ زبان کے استعمال پر سخت قوانین نافذ کیے جائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں۔سیاسی جماعتیں اپنے ارکان کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کریں تاکہ وہ مخالفین پر ذاتی حملے کرنے کے بجائے مہذب انداز میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ غیر مہذب زبان استعمال کرنے والے سیاستدانوں کو پروموٹ کرنے کے بجائے، مہذب اور بامقصد بحث کو فروغ دے۔ عوام کو سیاسی اخلاقیات کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ ایسے سیاستدانوں کا انتخاب کریں جو مثبت اور سنجیدہ گفتگو کے قائل ہوں۔سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر اور کردار کشی کو روکنے کے لیے سخت ضابطے نافذ کیے جائیں۔
اگر اس رجحان کو روکا نہ گیا تو معاشرہ مزید انتشار اور عدم برداشت کی طرف بڑھے گا۔ سیاسی قیادت، قانون، میڈیا، اور عوام سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ پاکستان میں ایک مثبت، باوقار اور شائستہ سیاسی کلچر پروان چڑھ سکے۔
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستانی سیاست میں مسلم لیگ کیا گیا کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
پرائم استعمال کرنے والے صارفین کے اکاؤنٹس خطرے میں، ایمازون نے خبردار کردیا
دنیا بھر میں ایمازون پرائم کے کروڑوں صارفین ایک نئی قسم کے آن لائن فراڈ کا شکار بن رہے ہیں، جس میں اسکیمرز جعلی پیغامات کے ذریعے ذاتی معلومات اور مالی تفصیلات چرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق ایمازون پرائم نے اپنے 220 ملین عالمی پرائم صارفین کو خبردار کیا ہے کہ اسکیمرز (فراڈ کرنے والے) ایمازون کے اہلکاروں کا روپ دھار کر پرائم صارفین کو جعلی ای میلز اور فون کالز کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ ان کی لاگ اِن تفصیلات، بینک معلومات، اور حتیٰ کہ سوشل سیکیورٹی نمبرز بھی چرائے جا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: زیرو سے شروع کرنیوالے ایمازون سے ماہانہ کتنا کماتے ہیں؟
ان حملوں میں اضافے کے بعد ایمازون اور سائبر سیکیورٹی ماہرین نے اپنے سبسکرائبرز کو الرٹ جاری کیے ہیں۔ جبکہ ہزاروں جعلی ویب سائٹس اور فون نمبرز بند کیے جا چکے ہیں۔
ایمازون نے اس مہینے کے شروع میں ایک ای میل الرٹ میں کہا کہ صرف 2024 میں، ایمازون نے 55,000 سے زائد فِشِنگ سائٹس اور 12,000 فون نمبرز کو ہٹایا جو فراڈ میں ملوث تھے۔ زیادہ تر اسکیمز جعلی آرڈر کنفرمیشن یا اکاؤنٹ کے مسائل کے بارے میں پیغامات پر مشتمل ہوتی ہیں جن کا مقصد صارفین سے حساس معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔
کچھ جعلی ای میلز میں صارفین کو غیر متوقع چارجز سے خبردار کیا جاتا ہے اور صارفین کو کہا جاتا ہے کہ ان کی پرائم سبسکرپشن مہنگے نرخوں پر خودبخود تجدید ہو رہی ہے۔ ان پیغامات میں اکثر ایک لنک ہوتا ہے جس پر لکھا جاتا ہے ’سبسکرپشن منسوخ کریں‘ جو کہ ایک جعلی ایمازون لاگ ان صفحے پر لے جاتا ہے۔ وہاں لاگ اِن معلومات دینے والے صارفین نہ صرف اپنے ایمازون اکاؤنٹ کا رسک لیتے ہیں بلکہ دیگر اکاؤنٹس بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں اگر ان کے پاسورڈز ایک جیسے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: کیلیفورنیا میں خاتون کا گھر اَن چاہے ایمازون پارسلز سے بھر گیا
ایمازون کے نائب صدر برائے سیلنگ پارٹنر سروسز دھرمیس مہتا نے نیو یارک پوسٹ کو بتایا کہ ایمازون کا روپ دھارنے والے اسکیمرز صارفین کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دھوکہ دہی ہماری سائٹ کے باہر ہوتی ہے لیکن ہم صارفین کے تحفظ اور آگاہی پر مسلسل سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
ایمازون نے اسکیمز کی پانچ عام اقسام کی نشاندہی کی ہے جس میں پرائم ممبرشپ اسکیمز، اکاؤنٹ معطلی الرٹس، جعلی آرڈر کنفرمیشنز، ٹیک سپورٹ فراڈ اور جعلی نوکری کی آفرز ہیں۔
ایمازون کے مطابق وہ کبھی بھی فون یا ای میل پر ادائیگی کی معلومات یا گفٹ کارڈز طلب نہیں کرتا۔ اب وہ جی میل اور یاہو ان باکسز میں ویری فائیڈ لوگو آئیکنز جیسے نئے فیچرز بھی لا رہا ہے تاکہ اصلی ای میلز کی پہچان آسان ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: چولستان کے امام مسجد کا بیٹا ایمازون سے کروڑوں روپے کیسے کمانے لگا؟
ایمازون کے صارفین کو محفوظ رہنے کے لیے چند ہدایات بھی دی گئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ صرف ایمازون کی ایپ یا آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے لاگ ان کریں۔ ایمازون کے میسج سینٹر میں اصلی پیغامات چیک کریں۔ سیکیورٹی سیٹنگز میں ٹو-اسٹیپ ویریفیکیشن آن کریں اور مشتبہ پیغامات فوراً ایمازون کو رپورٹ کریں۔
فوربس کی رپورٹ کے مطابق، صرف ٹیکسٹ پر مبنی ’ریفنڈ اسکیمز‘ میں ہی گزشتہ دو ہفتوں میں 50 گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکہ اور یورپ میں ان حملوں کی شدت اب ’قابو سے باہر‘ ہو چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایمازون ایمازون پرائم سائبر حملہ