جماعت اسلامی پیکا جیسے کالے قانون کو کبھی تسلیم نہیں کریگی،حافظ طاہر مجید
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
حیدرآباد: جماعت اسلامی حیدرآباد کے امیر حافظ طاہر مجیدپیکا ایکٹ کے خلاف لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ میںشریک ہوکر اظہار یکجہتی کررہے ہیں
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ کی سیاسی، قوم پرست، مذہبی جماعتوں،وکیلوں اور صحافیوں نے پیکا ایکٹ ایوبی، ضیائی اور مشرف کی مارشل لاء سے بھی زیادہ خطرناک پارلیمانی مارشل لاء قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی، عدل، انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کی آواز دبانے کے لیے پیکا ایکٹ جیسا کالا قانون نافذ کیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہارانھوں نے پی یو ایف جے کی کال پرحیدرآباد یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے پیکا ایکٹ کے خلاف تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ کے تیسرے دن بھوک ہڑتالی کیمپ کے آخری دن خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی رہنما لالا رحمان سموں نے کہا کہ پیکا ایکٹ ایک کالا قانون ہے جس کے خلاف صحافیوں کا ملک گیر احتجاج جاری ہے اور اس احتجاج میں سیاسی اور سماجی جماعتیں بھی شامل ہیں انھوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ نافذ کرکے ہر شہری کے اظہار آزادی رائے کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے ،پہلے سوشل میڈیا کے لیے جتھے تیار کیے جاتے ہیں جو آگے چل کر انہی کے لیے مشکلات کا باعث بنے تو انھیں روکنے کے لیے پیکا ایکٹ نافذ کیا گیا ہے۔پاکستان فیڈرل یونیں آف جرنلسٹس کے مرکزی رہنما خالد کھوکھر نے کہا کہ پیکا ایکٹ کے خلاف پورے پاکستان کے صحافی سراپا احتجاج ہیں ہمیں امید ہے کہ سیاسی سماجی تنظیموں کے رہنما اور وکلاء برادری پیکا ایکٹ کے خلاف ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔جماعت اسلامی حیدرآباد کے امیر حافظ طاہر مجید نے کہا کہ پیکا ایکٹ آج کی کہانی نہیں یہ کہانی متحدہ ہندوستان کے دور سے چل رہی ہے ،حکمران عام کے ساتھ نہیں بلکہ بندوق کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ،جماعدت اسلامی اس کالے قانون کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گی۔سندھ ہاری کمیٹی کے مرکزی صدر ثمر جتوئی نے کہا کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں پیکا ایکٹ نافذ کرکے آمریت کا کردار ادا کررہی ہیں ،یہ جماعتیں سندھ، ملک اورعوام دشمن پارٹیاں ہیں اور عوام دشمن منصوبے بنارہی ہیں،سینئرکالم نگارقادر رانٹو نے کہا کہ ملک میں کبھی بھی حقیقی جمہوریت نہیں رہی، ماضی میں صحافی برادری و سیاسی رہنماؤں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی اور قید و بند برداشت کی ۔سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر امراء سموں نے کہا کہ جمہوری حکمرانوں نے ملک میں آمریت کے راستے اختیار کیے ہیں یہ حکمران نہیں چاہتے کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور میڈیا آزاد ہو،سندھ ترقی پسند پارٹی کے وائس چیئرمین حیدر شاہانی نے پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ بدترین واقعات سے بھری پڑی ہے صحافی برادری نے ایوب کی آمریت ضیائی مارشل لاء اور مشرف کی آمریت میں اظہار آزادی کی جدوجہد کی صحافی اس وقت بھی پیکا کے خلاف میدان عمل میں ہیں،سپریم کورٹ بار کے رہنما یوسف لغاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جدوجہد میں صرف صحافی برادری نہیں بلکہ سندھ سمیت ملک بھر کے تمام شہری بھی شامل ہیں،جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما مولانا تاج محمد ناہیوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ کے خلاف جے یو آئی پہلے دن سے میدان عمل میں موجود ہے اور سینیٹ میں ہمارے سینیٹر نے پیکا ایکٹ کی مخالفت کی، ہم سب کو پیکا کے خلاف ایک پیچ پر جمع ہونا پڑے گا،عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی رہنما بخشل تھلو نے کہا کہ پیکا ایکٹ کے ذریعے عوامی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ملک میں انسانی بنیادی حقوق کو روندا جارہا ہے۔ اس موقع پر سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر امراء سموں،سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما رمضان برڑو،ایچ یو جے صدر محمد وسیم خان جنرل سیکرٹری جام فرید لاکھو اور سینئر صحافی اقبال ملاح ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پیکا ایکٹ کے خلاف کے رہنما کے مرکزی ملک میں ا مریت کے لیے
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔
درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔