رجب طیب اردوان پاکستان کی سر زمین پر
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
پاکستان اور ترکیہ کا رشتہ صدیوں پرانا اورگہرا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف تاریخی تعلقات ہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں بھی ایک مضبوط رشتہ قائم ہے۔ اس رشتے کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی باہمی دوستی نے نیا موڑ لیا۔
ان دونوں رہنماؤں کی ذاتی دوستی اور ان کے درمیان گہرے تعلقات نے نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت کو فروغ دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ان دونوں ملکوں کی ایک نئی شناخت بھی قائم کی ہے۔
رجب طیب اردوان کا سیاسی کیریئر ایک متاثر کن داستان ہے، وہ صرف ترکیہ کے صدر نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے رہنما ہیں جو اپنے ملک کو عالمی سطح پر ایک مضبوط مقام دلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اردوان کی شخصیت کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی جرات مندی اور فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے۔ انھوں نے ترکیہ کو ایک طاقتور اقتصادی اور سیاسی ملک بنانے کی بھرپورکوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
اردوان کی سیاست میں اس بات کی اہمیت ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات کے لیے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ ان کا کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کرنا اور عالمی فورمز پر پاکستان کی پوزیشن کا دفاع کرنا، اس بات کا غماز ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے رہنے کے لیے تیار ہیں۔ اردوان کی قائدانہ صلاحیتیں، ان کی سیاست میں صاف گوئی اور واضح موقف اور اپنے عوام کے ساتھ براہ راست تعلق کی کوششیں انھیں ایک منفرد رہنما بناتی ہیں۔
شہباز شریف، جو پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ایک کامیاب اور محنتی سیاستدان ہیں، ان کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی عملی سیاست اور زمینی حقیقتوں سے جڑے فیصلے ہیں۔ ان کی سیاسی حکمت عملی میں عوامی مسائل کا حل اور ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دینا نمایاں ہے۔ شہباز شریف کو ایک مؤثر منتظم اور منتظم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
انھوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر مختلف منصوبوں کی کامیاب تکمیل کی اور ترقیاتی شعبوں میں کئی اصلاحات کیں۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے عوام کے قریب رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مسائل کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہباز شریف کی سیاست میں شراکت داری، عملیت پسندی اور عوامی مفادات کو مقدم رکھنے کا عنصر واضح ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیادت میں پاکستان کی سیاسی منظرنامہ میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔
اردوان اور شہباز شریف کے تعلقات میں جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے تجربات اورکامیابیوں کا احترام کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے کئی بار اردوان کی قیادت اور ترکیہ کی ترقی کی تعریف کی ہے اور ان کے ساتھ تعاون کے امکانات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ دوسری طرف، اردوان نے بھی پاکستان کے معاشی چیلنجز میں اس کی مدد کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات کو بڑھانے کے لیے کئی مشترکہ منصوبے شروع کیے گئے ہیں، خاص طور پر دفاعی شعبے میں۔ ترک کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا اور اقتصادی تعلقات کی مزید مضبوطی دونوں رہنماؤں کی ایک اہم کوشش ہے۔ دونوں رہنماؤں کی ذاتی دوستی نے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ثقافتی تعلقات کو مزید فروغ دیا ہے۔ ترکیہ کے صدر کی پاکستان میں ثقافتی اور تاریخی اہمیت پر بات چیت اور دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تبادلوں نے عوامی سطح پر محبت اور احترام کو مزید بڑھایا ہے۔
پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکیہ صف اول میں شامل تھا جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تو ترک سفیرکی اسناد وصول کرتے ہوئے قائداعظم نے دونوں ممالک کے مابین موجود روحانی، جذباتی اور تہذیبی رشتوں کا بالخصوص ذکرکیا۔
ترکیہ دنیائے اسلام کا واحد ملک ہے جس سے ہمارے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ 70 برس سے تسلسل سے قائم ہیں۔ ترکیہ اور پاکستان میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954 میں وجود میں آیا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ’’ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔‘‘
وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان 2 روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مہمان خصوصی کو وفاقی کابینہ کے اراکین سے فرداً فرداً ملاقات بھی کروائی۔
بعد ازاں ترک صدر رجب طیب اردوان سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی ملاقات کی اور انھیں خوش آمدید کہا۔ رجب طیب اردوان کی پاک فوج سے محبت صرف ایک سیاسی رشتہ نہیں بلکہ ایک گہری عقیدت اور بھائی چارے کا مظہر ہے۔ ان کا ہمیشہ یہ پیغام رہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کے فوجی ایک دوسرے کے لیے بہادری، وفاداری اور حمایت کی علامت ہیں۔ یہ محبت دونوں ممالک کی قومی سیاست اور عوامی تعلقات کا ایک اہم جزو بن چکی ہے، جو نہ صرف دفاعی سطح پر بلکہ ثقافتی اور سماجی سطح پر بھی اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ اردوان کی پاک فوج کے ساتھ محبت اور احترام کا یہ رشتہ آیندہ بھی دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کی ضمانت بنے گا۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ خاص طور پر ترکیہ کے ساتھ دفاعی صنعتوں، انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے امکانات پر زور دیا۔ شہباز شریف کے دور میں پاکستان نے ترک کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے مدعو کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بڑھانے کے لیے مختلف تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان مختلف شعبوں میں کئی معاہدات ہوئے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، ثقافتی، دفاعی اور دیگر اہم تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کیے گئے ہیں۔
ترکیہ نے پاکستانی ثقافت، ادب اور فنون کو اپنے میڈیا اور تعلیمی اداروں میں فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ توانائی اور ماحولیاتی شعبے میں بھی دونوں ممالک نے اہم معاہدات کیے ہیں، جن میں قدرتی گیس، تیل اور بجلی کی فراہمی کے لیے تعاون اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدامات شامل ہیں۔
مجموعی طور پر، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان معاہدات کی تاریخ ایک گہری دوستی اور باہمی احترام پر مبنی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، دفاعی، ثقافتی اور سیاسی تعلقات کو مستحکم کرنے کی سمت میں کام کر رہے ہیں اور ان کا مقصد نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی تعاون بڑھانا ہے۔
اگر دونوں ممالک اس تعلق کو اسی طرح بڑھاتے رہیں، تو یہ دونوں کے لیے ایک فائدے مند شراکت داری ثابت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاک ترک دوستی کوکسی دشمن کی نظر نہ لگے قیامت تک جاری وساری دوستی رہے اور دن بدن ترقی کرے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سعودی عرب اور پاکستان میں دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) بدھ کے روز سعودی عرب اور پاکستان نے ایک اہم اور تاریخی اسٹریٹجک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے ذریعے دونوں ممالک نے اپنی دہائیوں پر محیط سکیورٹی شراکت داری کو مزید گہرا کر دیا۔
ریاض میں طے پانے والے اس معاہدے پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دستخط کیے۔
اس معاہدے میں دونوں ممالک نے اپنی سلامتی کو بڑھانے، خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے دفتر سے بدھ کی شب جاری بیان میں کہا گیا کہ اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور ''کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘یہ دفاعی معاہدہ اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد سامنے آیا ہے، کیونکہ خلیجی عرب ریاستیں امریکہ پر اپنے دیرینہ سکیورٹی ضامن کے طور پر انحصار کرنے کے حوالے سے مزید محتاط ہوتی جا رہی ہیں۔
سعودی پریس ایجنسی میں شائع ایک بیان کے مطابق معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ''کسی بھی ایک ملک پر جارحیت، دونوں پر جارحیت تصور کی جائے گی۔
‘‘ بھارت کا ردعملبھارت نے کہا کہ پاکستان،سعودی دفاعی معاہدے کے اثرات کا جائزہ قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ خطے اور عالمی استحکام کے تناظر میں بھی لیا جائے گا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کے روز کہا کہ بھارتی حکومت کو معلوم تھا کہ یہ پیش رفت زیرِ غور تھی۔
میڈیا کے سوالات کے جواب میں جاری بیان میں جیسوال نے کہا، ''ہم نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کی اطلاعات دیکھی ہیں۔
حکومت کو معلوم تھا کہ یہ پیش رفت زیرِ غور تھی، جو دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل المدتی انتظام کو باضابطہ شکل دیتی ہے۔‘‘بیان میں مزید کہا گیا، ''ہم اس پیش رفت کے اثرات کا مطالعہ اپنی قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ خطے اور عالمی استحکام کے تناظر میں بھی کریں گے۔‘‘
جیسوال نے کہا کہ حکومت اس بات پر قائم ہے کہ بھارت کے قومی مفادات کا تحفظ کیا جائے اور قومی سلامتی کو ہر شعبے میں یقینی بنایا جائے۔
معاہدے کی اہمیتیہ معاہدہ مئی میں ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں میزائل، ڈرون اور توپ خانے کی فائرنگ کے نتیجے میں 70 فوجی اور شہری ہلاک ہوئے۔
یہ فوجی جھڑپ 1999 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سب سے شدید لڑائی تھی، جسے کم کرنے میں مبینہ طور پر سعودی عرب نے بھی کردار ادا کیا۔
سعودی عرب بھارت کا تیسرا سب سے بڑا تیل فراہم کنندہ ہے اور جنوبی ایشیائی ملک اپنی پیٹرولیم درآمدات کے لیے سعودی عرب پر انحصار کرتا ہے۔
دوسری جانب، اسلام آباد نے بھی سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں، جہاں اس وقت اندازاً 25 لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں اور کام کر رہے ہیں۔
پاکستان، سعودی عرب تعلقاتسعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، بھائی چارہ اور اسلامی یکجہتی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ اسٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون جاری ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان نئے دفاعی معاہدے نے اس تعاون کو باہمی دفاعی عزم کی شکل دے دی ہے۔
خیال رہے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی دعوت پر پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بدھ کو سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا تھا، جہاں دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور سعودی عرب کے وفود کی موجودگی میں مذاکرات کیے۔
ادارت: صلاح الدین زین