ان لوگوں سے تعلق قائم کریں جو “باوقار” ہوں…
آپ کا مطلب ہے وہ لوگ جو اچھے کپڑے پہنتے ہیں؟
نہیں، “باوقار” لوگوں کا کیا مطلب ہے۔
باوقار کا مطلب ہے بہترین اور خوبصورت رویے رکھنے والے لوگ
وہ لوگ جو بات چیت میں مہذب ہوں،
جو اپنے غصے میں بھی شائستگی دکھائیں،
یہاں تک کہ جھگڑے میں بھی وقار برقرار رکھیں،
جو آپ سے محبت کے تعلق میں بھی نفاست دکھائیں،
اور یہاں تک کہ آپ سے جدا ہونے میں بھی وقار کا مظاہرہ کریں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ناراضگی ایک چیز ہے اور ذمہ داری دوسری، اور دونوں کو ایک ساتھ ملانا مناسب نہیں۔
باوقارلوگ اپنے پیار، خیال، اور احترام میں نفیس ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو جانتے ہوں کہ کب بات کرنی ہے اور کب سننی ہے،
ایسے لوگ جو آپ کو نظر کے ذریعے سمجھائیں اور ایک مسکراہٹ سے معاف کر دیں،
اور ہر ناراضگی کے بعد بغیر کسی چھوٹے سے بھی زخم کے نکل آئیں۔
وہ لوگ جو آپ کو ہر حال میں پیار کرتے ہیں،
آپ کی ہر حالت اور ہر مشکل میں آپ کا ساتھ دیتے ہیں،
آپ کی نرم آواز سے محبت کرتے ہیں، اور آپ کے جذباتی ہو کر بلند آواز میں بات کرنے پر بھی ہنستے ہیں،
اور پھر آپ کے دل پر ہاتھ رکھ کر آپ کو کہتے ہیں: “اپنا خیال رکھنا”۔
یہی ہیں اصل “باوقار” لوگ۔
ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو واقعی نفیس ہوں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حکومت زرعی پالیسیوں میں کسان کو ریلیف فراہم کرے، علامہ مقصود ڈومکی
صحبت پور میں قبائلی رہنماء سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ قبائلی جھگڑوں کے باعث لوگوں کو جانی و مالی نقصان پہنچتا ہے، اسلیے ضروری ہے کہ علماء کرام، قبائلی عمائدین اور سیاسی زعما معاشرے میں صبر و برداشت کو فروغ دیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ علماء کرام، قبائلی عمائدین اور سیاسی زعما معاشرے میں صبر و برداشت کو فروغ دیں۔ قبائلی جھگڑوں کے باعث لوگوں کو جانی و مالی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ بات انہوں نے ضلع کونسل صحبت پور کے ضلعی وائس چیئرمین میر فہد خان پنہور سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر مجلس علمائے مکتب اہل بیت کے ضلعی صدر علامہ سیف علی ڈومکی، ایم ڈبلیو ایم عزاداری ونگ کے ضلعی صدر نور دین گولاٹو، زوار دلدار حسین گولاٹو اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔ ملاقات میں قبائلی اختلافات کے حل اور باہمی دلچسپی کے امور پر مشاورت کی گئی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ قبائلی جھگڑوں کے باعث لوگوں کو جانی و مالی نقصان پہنچتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ علماء کرام، قبائلی عمائدین اور سیاسی زعما معاشرے میں صبر و برداشت کو فروغ دیں۔ انہوں نے کہا کہ دین اسلام عفو و درگزر کی تعلیم دیتا ہے، قرآن و سنت میں اس کی بارہا تاکید کی گئی ہے۔
علامہ مقصود علی ڈومکی نے مزید کہا کہ کسان کو اس کی محنت کا پورا صلہ ملنا چاہیے۔ جب ادویات، کھاد اور زرعی مشینری مہنگی ہو اور گندم و چاول کی قیمت کم ہو تو کسان کی گزر بسر مشکل ہو جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ زرعی پالیسیوں میں کسان کو ریلیف فراہم کرے تاکہ زراعت کو نقصان نہ پہنچے۔ اس موقع پر میر فہد خان پنہور نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے قیام پاکستان سے قبل بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ مسلم لیگ میں جدوجہد کی اور یہ ہمارے لیے اعزاز ہے کہ قائداعظم نے جیکب آباد کے دورے کے دوران ہمارے گھر میں قیام فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی تنازعات کا خاتمہ ہی عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ لوگوں کو یہ شعور دینا ہوگا کہ جھگڑے ان کے لیے نقصان دہ ہیں جبکہ امن و اتحاد ہی ترقی و خوشحالی کی کنجی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باہمی افہام و تفہیم، رواداری اور تعاون کے ذریعے ہی ایک پرامن معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے، جو ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ ملاقات میں پنہور اور ڈومکی قبائل کے درمیان پیش آئے واقعے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔