Daily Mumtaz:
2025-06-09@16:44:28 GMT

افغان طالبان کی حمایت سے پاکستان میں حملوں میں اضافہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

افغان طالبان کی حمایت سے پاکستان میں حملوں میں اضافہ

اسلام آباد(طارق محمودسمیر)اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے بار بار مطالبے کے باوجود افغان طالبان کی مسلسل حمایت سے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں نے پاکستان پر دہشتگرد حملے کئے اور افغان طالبان کی حمایت کے باعث حملوں میں اضافہ ہوا ، اس رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ 600سے زائد حملے کئے گئے جن میں سے زیادہ تر افغان علاقوں سے ہوئے ، ٹی ٹی پی کو لاجسٹک آپریشنل اور مالی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ میں ٹی ٹی پی کے ایک رہنما نور ولی محسود کے اہلخانہ کو افغان طالبان کی طرف سے ہر ماہ 43ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں، اسی طرح کنڑ،ننگرہار،خوست اور پکتیکا صوبوں میں نئے تربیتی مراکز بھی قائم ہوئے ہیں ، اس رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 6ہزار سے ساڑھے 6ہزار جنگجو موجود ہیں ، ان کی پناہ گاہیں موجود ہیں ، پاکستان سفارتی سطح پر کئی مرتبہ افغان حکومت سے رابطے کرچکا ہے مگر وہاں سے تعاون نہیںکیا جارہا ،اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے آنے والی یہ رپورٹ خاصی اہمیت کی حامل ہے اور اس رپورٹ میں جو انکشافات کئے گئے ہیں اس میںکچھ نئے ہیں۔ جب سے افغانستان کے اندر طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے پاکستان کے اندر دہشتگرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے ، پاکستان کے وزیر دفاع سمیت اعلیٰ سطح پر افغان حکومت سے رابطے کئے گئے۔ وزیردفاع کابل کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے بھی گزشتہ سال افغانستان کا دورہ کیا تھا تاہم ابھی تک افغان طالبان نے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردگروپوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیںکی، اقوام متحدہ کی رپورٹ آنا کافی نہیں ہے ، دوحہ معاہدے پر عملدرآمدکرانا امریکا، اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی ذمہ داری ہے ۔ دوسری جانب عمران خان نے ایک مرتبہ پھر عیدالفطرکے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ہدایات دے دی ہیں ۔ اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل رہنما فیصل چودھری نے یہ اعلان کیا کہ عمران خان نے رمضان المبارک کے بعد تحریک چلانے کی ہدایات دی ہیں، جب سے پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی ہے عمران خان مسلسل احتجاج اور احتجاجی تحریکوںکی سیاست کر رہے ہیں اور اسی سیاست کے نتیجے میں 9مئی جیسا واقعہ ہوچکا ہے اور اس واقعے کی وجہ سے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں ابھی تک دوریاں ہیں ، 26نومبرکو جوکچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے ، تحریک انصاف کے اندر اختلافات کی کہانیاں زبان زدعام ہیں ، شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالے جانے کے بعد اب سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وکیل رہنما شعیب شاہین کے درمیان جو جھگڑا ہوا ہے اور بات منہ ماری کے بعد ہاتھا پائی اور تھپڑ مارنے ، ایک دوسرے کو زخمی کرنے تک پہنچی ہے، شعیب شاہین اسلام آباد سے تحریک انصاف کے اہم رہنما مانے جاتے ہیں، الیکشن بھی لڑ چکے ہیں اور ہائیکورٹ بار کے صدر کے طور پر تحریک انصاف کو بہت سپورٹ کیا ہے اور ان کے ساتھ فواد چودھری کا رویہ کسی طور پر بھی درست نہیں ہے ، ویسے دیکھا جائے تو فواد چودھری ابھی تک باضابطہ طور پر دوبارہ تحریک انصاف میں واپس نہیں آئے اور نہ ہی ایسا کوئی اعلان پارٹی قیادت کی طرف سے کیا گیا ہے ، وہ پارٹی میں واپسی کیلئے ہاتھ پائوں مارتے رہتے ہیں اور پی ٹی آئی کے رہنما رئوف حسن ، بیرسٹر گوہر ، شبلی فراز ، علی امین گنڈا پور اور دیگر رہنما فواد چودھری کیخلاف بہت سے بیانات دے چکے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ مشکل وقت میں فواد چودھری نے پارٹی چھوڑی تھی لہذا انہیں پارٹی میں واپس نہیں لیا جاسکتا۔ویسے فواد چودھری کا کردار خاصا مشکوک رہا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے ان کے فرار کی ویڈیو بھی بہت وائرل ہوئی تھی ، اگر حکومت کے خلاف تحریک چلانی ہے تو تحریک انصاف کو پہلے اپنے اندر اختلافات کا خاتمہ کرنا ہوگا ، علی امین گنڈا پور کی جنید اکبر کیساتھ نہیں بنتی، پنجاب کے اندر پارٹی قیادت غائب ہے اور حال ہی میں 8فروری کو پنجاب میںکوئی خاص احتجاج نہیںکیا جاسکا لہٰذا ان حالات میں تحریک چلانے کی بجائے حکومت کیساتھ سیاسی مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنا اور آئینی اور قانونی جنگ کو اولین ترجیح رکھنا درست سیاسی حکمت عملی ہوسکتا ہے ۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: افغان طالبان کی اقوام متحدہ تحریک انصاف فواد چودھری پی ٹی ا ئی رپورٹ میں اور دیگر اس رپورٹ ٹی ٹی پی ہیں اور کے اندر کے بعد گیا ہے اور اس ہے اور

پڑھیں:

نئے بجٹ میں دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ متوقع:تعلیم نظرانداز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام  آباد:نئے مالی سال  میں حکومت کی جانب سے دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی توقع ہے جب کہ تعلیم کے معاملے میں حکومت نے خاطر خواہ بجٹ مختص نہیں کیا۔

میڈیا ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے ایک ایسے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے جس میں ملک کی موجودہ مالی ضروریات اور معاشی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی اہم شعبوں میں اخراجات بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17 ہزار 600 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، جسے منگل کے روز قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جب کہ آج پیر کے روز اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں گزشتہ مالی سال کی معاشی کارکردگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

وزارت خزانہ نے اس بجٹ کے بنیادی خدوخال کو حتمی شکل دے دی ہے۔ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 400 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ  ایف بی آر کو ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے دیا گیا ہے، جو ملکی معیشت کی تاریخ میں ایک بلند ترین ہدف تصور کیا جا رہا ہے۔

بجٹ میں دفاعی اخراجات میں 18 فیصد اضافے کی تجویز سامنے آئی ہے، جو کہ موجودہ سیکورٹی حالات، خطے میں کشیدگی اور اندرونی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔

قرضوں کی ادائیگی ایک اور بڑا چیلنج ہے، جس پر تقریباً 6 ہزار 200 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ حیرت انگیز طور پر یہی رقم بجٹ خسارے کے برابر ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرضوں کا بوجھ حکومت کی مالی منصوبہ بندی پر کتنا اثرانداز ہو رہا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف بھی اتنا ہی یعنی 6200 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آمدن اور اخراجات کے درمیان خلیج کو کم کرنا اب بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

سرکاری ملازمین کے لیے خوش آئند خبر ہے کہ ان کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جب کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 5 سے ساڑھے 7 فیصد تک اضافے پر غور ہو رہا ہے۔ اگر یہ تجاویز منظور ہو جاتی ہیں تو مہنگائی کے موجودہ ماحول میں یہ اقدام ملازمین کے لیے کسی ریلیف سے کم نہ ہوگا، تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اضافہ افراطِ زر کی شرح کے مقابلے میں ناکافی ہے۔

دوسری جانب تعلیم اور صحت جیسے عوامی فلاح کے شعبے ایک مرتبہ پھر حکومتی ترجیحات میں پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔ تعلیم کے لیے صرف 13 ارب 58 کروڑ روپے اور صحت کے لیے 14 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے، جو ایک ایسے وقت میں افسوسناک ہے جب ملک کو انسانی ترقی کے ان شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر بہتری کی ضرورت ہے۔ اس کمزور فنڈنگ پر ماہرین تعلیم اور صحت کی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے۔

حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کے لیے 16 ارب 22 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ اس اقدام کو ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کو ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے، لیکن آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رقم میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو روزگار، تعلیم اور عالمی مارکیٹ میں مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

دوسری جانب قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے بجٹ اجلاس کا مکمل شیڈول جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق 10 جون کو بجٹ پیش کیا جائے گا۔ 11 اور 12 جون کو اسمبلی اجلاس منعقد نہیں ہوگا، جب کہ بجٹ پر باقاعدہ بحث 13 جون سے شروع ہو کر 21 جون تک جاری رہے گی۔ 22 جون کو بھی اجلاس نہیں ہوگا۔ بجٹ منظوری کا فیصلہ کن دن 26 جون ہوگا، جب فنانس بل 2025-26 کی منظوری متوقع ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان: ملک چھوڑنے والے واپس آجائیں انہیں کچھ نہیں کہا جائیگا، طالبان کا اعلان
  • نئے بجٹ میں دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ متوقع:تعلیم نظرانداز
  • افغان طالبان نے مغرب نواز شہریوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا
  • پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
  • ایاز صادق کی سعودی ولی عہد سے ملاقات، پاکستان کی حمایت پر شکریہ ادا کیا
  • طالبان حکومت کا عیدالاضحیٰ پر ملک چھوڑنے والے مغرب نواز افغانوں کیلئے عام معافی کا اعلان
  • طالبان کا مغرب نواز شہریوں کیلیے عام معافی کا اعلان؛ افغانستان واپس آنے کی دعوت
  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک غیر مؤثر ہے، ان کے پاس تیاری ہے نہ عوامی حمایت،رانا ثنا
  • سیاست میں اتار چڑھا آتا رہتا، پی ٹی آئی کی مقبولیت کم نہیں ہوئی، فواد چودھری
  • اسرائیلی حملوں کی مذمت، مشکل گھڑی میں لبنان کے ساتھ ہیں، دفتر خارجہ پاکستان