افریقہ امکانات اور امید سے لبریز ہے، یو این چیف
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے افریقہ کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ براعظم اور اس کی نوجوان آبادی کی صلاحیتوں سے بہت سی امیدیں اور امکانات وابستہ ہیں۔
ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں افریقن یونین (اے یو) کی اعلیٰ سطحی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور افریقی ممالک کی اس تنظیم کے مابین شراکت اب جتنی مضبوط ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔
نوجوان آبادی اور قابل تجدید توانائی کے حصول میں استعمال ہونے والے وسائل ناصرف براعظم بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم اثاثہ ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ افریقی ممالک کے مابین درآمدات و برآمدات پر رکاوٹوں میں کمی لانے کے لیے قائم کردہ آزاد تجارتی علاقے کی بدولت مستقبل میں ترقی و خوشحالی کے مواقع پیدا ہوں گے۔
(جاری ہے)
ازالے اور اصلاحات کا وقتسیکرٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ نے اپنے ابتدائی ایام میں نوآبادیات کے خاتمے اور آزادی کے لیے بہت سا کام کیا تاہم اس سے افریقیوں کو درپیش بنیادی مسائل حل نہ ہو سکے جن میں بہت سے استعماریت اور اوقیانوس کے آر پار غلاموں کی تجارت کی میراث تھے اور یہ دونوں بہت بڑی اور شدید ناانصافیاں تھیں۔
20ویں صدی کے وسط میں جب کثیرفریقی نظام بنائے گئے تو اس وقت اقوام متحدہ کے بہت سے موجودہ رکن ممالک بڑی طاقتوں کی نوآبادیات تھے۔ آج دیگر عالمی کثیرفریقی اداروں کی طرح اقوام متحدہ میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے اور سلامتی کونسل میں افریقہ کی نمائندگی نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ افریقن یونین اور تمام رکن ممالک کے ساتھ کام کرتے ہوئے افریقہ کو ادارے میں درکار نمائندگی اور انصاف یقینی بنانے اور سلامتی کونسل میں اسے دو مستقل نشستیں دلانے کے لیے بھی کوشش کرتے رہیں گے۔
سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ موجودہ شکل میں یہ نظام افریقہ کے بہت سے ممالک کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور اس کے باعث وہ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پر حسب ضرورت اخراجات نہیں کر سکتے۔
نقل مکانی اور بھوک کا سب سے بڑا بحرانانتونیو گوتیرش نے امن و سلامتی کو کثیرفریقی اقدامات کے حوالے سے ترجیح قرار دیتے ہوئے سوڈان کے حالات کی جانب توجہ دلائی جہاں نقل مکانی اور بھوک کا سب سے بڑا عالمی بحران جنم لے چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افریقن یونین اور اقوام متحدہ مل کر اس جنگ کو ختم کرا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) کے مشرقی علاقے میں ایم 23 باغیوں کے حملے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ملک میں جاری تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں اور اس پر صرف بات چیت کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملک میں اقوام متحدہ کا امن مشن (مونوسکو) لوگوں کی مدد جاری رکھے گا۔
ترقی اور قابل تجدید توانائی کا انقلابسیکرٹری جنرل نے کہا کہ افریقہ میں صنفی مساوات، ماحول دوست توانائی، نظام ہائے خوراک میں بنیادی تبدیلی اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ترقی کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ رکن ممالک کی جانب سے گزشتہ سال منظور کیے جانے والے مستقبل کے معاہدے میں بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات لانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
موجودہ نظام میں انہیں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں قرضوں کے حصول پر آٹھ گنا زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت امیر ممالک ترقی پذیر معیشتوں کو ہر سال 500 ارب ڈالر مہیا کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی بحران کے باعث افریقہ کو جہاں بہت سی قدرتی آفات کا سامنا ہے وہیں یہ ایسے مواقع بھی لایا ہے جن کی بدولت براعظم عالمی معیشت کو ماحول دوست بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس وقت قابل تجدید توانائی کے حوالے سے صرف دو فیصد بین الاقوامی سرمایہ کاری افریقہ میں ہوتی ہے۔ تاہم مالیاتی اصلاحات کے ذریعے براعظم کو ماحول دوست توانائی کے میدان میں بہت آگے لے جایا جا سکتا ہے۔سیکرٹری جنرل نے کہا کہ افریقہ کی تقریباً دو تہائی آبادی کو قابل بھروسہ انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ اور 2035 تک روزگار کی منڈی میں داخل ہونے والے افریقیوں کی سالانہ تعداد دنیا بھر کی مجموعی تعداد سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس طرح انہیں ترقی پانے کے لیے ہنر کی ضرورت ہے جس کا حصول بڑی حد تک انٹرنیٹ سے وابستہ ہو گا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ نے کہا کہ انہوں نے سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
پاک افغان تعلقات میں بہتری کی بنیادی کنجی باہمی اعتماد کا ماحول،دو طرفہ بات چیت،باہمی ہم آہنگی،ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی موثرحکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں موجود بداعتمادی کا ماحول، جنگ و جدل اور تنازعات کو آگے بڑھا کر پورے خطے کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مکمل طور پر ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لیکن اب حالات بدلتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور دونوں طرف سے سیاسی جمود ٹوٹا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے باہمی امور پر تفصیلی ملاقاتیں اور بات چیت کا عمل برف پگھلنے کا واضح اشارے دے رہا ہے۔اگرچہ فوری طور پر پاک افغان تعلقات میں بہت بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔لیکن اب اگردو طرفہ بات چیت کا عمل آگے بڑھتا ہے اور دونوں ممالک باہمی اعتماد کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر خطے میں بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔لیکن اس بات کا انحصار دونوں ملکوں کی باہمی سفارت کاری اور ڈپلومیسی پر ہے کہ وہ کس طریقے سے دو طرفہ معاملات میں موجود مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کے بعد آگے لے کر چلتے ہیں۔
اس وقت پاک افغان تعلقات میں خسارے یا بداعتمادی کا بنیادی نقطہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی ہے۔پاکستان طالبان حکومت کو ثبوت بھی پیش کر چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کو افغان افغان حکومت کی جانب سے بھی مختلف نوعیت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کو اس امریکی اسلحہ تک بھی رسائی حاصل ہے جو 2021 میں امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔
پاکستان کا یہ موقف ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس امریکی اسلحے تک ٹی ٹی پی کی رسائی کو ناممکن بنایا جائے جب کہ امریکا افغان طالبان سے افغانستان میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس لے۔ پاکستان بار بار اس موقف کا اعادہ افغانستان سمیت عالمی دنیا میں کر رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گئی ہے ۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل میں بھی سرحد پار دہشت گردی گفتگو کا سرفہرست نقطہ تھا۔ اسحاق ڈار نے افغانستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی مختلف سرگرمیوں اور مطلوب افراد کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی جو لہر ہے یا بلوچستان اور خیبر پختون کے سیکیورٹی سے جڑے حالات ہیں ان کا تعلق عملی طورپرافغانستان سے جڑا ہوا ہے۔کیونکہ جب تک افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں ختم نہیں کرتی اور مطلوبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کرتی، اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دورے کے بعد طالبان حکومت، پاکستان کے جو بھی تحفظات ہیںاس پر کس طرز کے سنجیدہ اقدامات اٹھاتی ہے اور کیسے باہمی معاملات کو بہتر بنانے میں اپنی کوششیں دکھاتی ہے۔کیونکہ پاک افغان تعلقات کا حل محض باتوں سے ممکن نہیں ہے جب تک افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے بہتری کا حل آسانی سے سامنے نہیں آئے گا۔
پاکستان کی یہ سوچ تھی کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور خطے میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہو گی۔لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم کو پاکستان افغانستان تعلقات میں مختلف نوعیت کے بگاڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں ایک بڑا چیلنج دہشت گردی ہی ہے۔ افغانستان کے داخلی مسائل کا جائزہ لیں تو وہاں جمہوریت نہیں ہے، جب کہ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔
افغان حکومت ب مختلف گروپ بندیوں کا شکار ہے، اور پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی واضح نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں افغانستان کی اپنی پالیسی میں تضادات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ افغان میڈیا نے یہ بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ افغان حالات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو بھی افغان میڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہے۔خود بھارت بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں بہتری کے پہلو سامنے آئیں۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی موجود رہے تاکہ پاکستان افغانستان کے دباؤ میں رہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ہو۔
پاکستان کو یہ بھی سمجھناہوگا کہ امریکا بھی افغان پالیسی میں تبدیلی لارہا ہے اور پاکستان پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی بجائے وہ عملا متبادل آپشن دیکھ رہا ہے۔اس لیے پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے وقت کے تقاضے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے ۔پاکستان کو افغان قیادت یا حکومت میں اس تاثر کو مضبوط بنانا ہوگا کہ ہم بطور ریاست افغانستان کو مضبوط بنیادوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی طرح افغان حکومت ضرور بھارت سے تعلقات کو بہتر بنائے مگر یہ پاکستان کی قیمت یا پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے سے نہیں جڑا ہونا چاہیے۔
جہاں ہمیں علاقائی ممالک کا تعاون درکار ہے وہیں عالمی قوتوں کے بغیر بھی یہ جنگ نہیں جیتی جا سکے گی۔اب اگر دونوں ممالک نے بات چیت کا دروازہ کھولا ہے تواسی راستے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہوگا۔اس لیے مذاکرات کے دروازے کو دونوں اطراف سے بند نہیں ہونا چاہیے اور جو بھی قوتیں پاکستان افغانستان تعلقات میں خرابی یا رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتی ہیں ان کا مقابلہ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔اچھی بات یہ ہے حالیہ دو طرفہ گفتگومیں افغانستان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی جو یقینی طورپر امید کا پہلو ہے کہ افغانستان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میںبگاڑ بڑھ رہا ہے۔