Islam Times:
2025-09-18@12:53:23 GMT

امریکہ نے یورپ کی سلامتی بیچ ڈالی

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

امریکہ نے یورپ کی سلامتی بیچ ڈالی

اسلام ٹائمز: اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کے بیان کی حمایت کی ہے اور اسے سراہا بھی ہے لیکن اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان تعلقا کا نیا باب شروع ہو چکا ہے۔ میونخ کانفرنس میں تقریر کرنے والے سیاسی ماہر فرینک والٹر اشتاین نے کہا: "واضح ہے کہ نئی امریکی حکومت ایک خاص سوچ رکھتی ہے جو ہم سے بہت زیادہ مختلف ہے۔" یورپی کالم نویس اور تجزیہ کار ایرنو برٹرن نے امریکی نائب صدر کی تقریر کا 2007ء میں روسی صدر پیوٹن کی تقریر سے موازنہ کرتے ہوئے کہا: "یہ دونوں فیصلہ کن مواقع تھے جب موجودہ اتحاد مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔" انہوں نے کہا: "وینس بھرپور انداز میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے آرڈر کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جی ڈی وینس کی تقریر شاید ایسی تقریر کے طور پر یاد رکھی جائے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ کے درمیان اتحاد ختم کر ڈالا۔" تحریر: حامد خبیری
 
یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ اور یورپ کے تعلقات اس سے کہیں زیادہ چیلنجز کا شکار ہوں گے جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ امریکی نائب صدر جیمز ڈیوڈ وینس نے میونخ سیکورٹی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے: "امریکہ دنیا کے کسی اور حصے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے کہ یورپ اپنے دفاع کا بندوبست خود ہی کریں۔" ان کے اس بیان نے یورپ کے بیمار بدن پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "یورپ کو جس چیز سے اصل خطرہ ہے وہ روس اور چین نہیں بلکہ خود یورپ کے اندر موجود قوتیں ہیں۔" امریکی نائب صدر کے اس بیان کے بعد بعض حلقوں نے اسے یورپ اور امریکہ کے درمیان اتحاد کے اختتام کا آغاز قرار دے دیا ہے۔ یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ کایا کالاس نے اس بارے میں کہا: "ٹرمپ کے نائب وینس کی آج کی تقریر سن کر یوں لگتا ہے جیسے امریکہ ہم سے جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔"
 
امریکی نائب صدر جی ڈی وینس نے ماضی کی تمام تر روایات سے پشت کرتے ہوئے جرمنی کی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے سربراہ ایلس وائیڈل سے ملاقات کی۔ اگرچہ خود جرمن حکام نے اس ملاقات پر سب سے زیادہ اعتراض کیا ہے لیکن یہ ملاقات درحقیقت تمام یورپی حکومتوں کے لیے ایک اہم پیغام سمجھی جاتی ہے۔ یہ وہی پیغام ہے جسے کچھ گھنٹے پہلے امریکی نائب صدر نے میونخ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے بیان کیا اور کہا کہ یورپ کو اپنے دفاع کا بندوبست خود کرنا ہو گا۔ جیمز ڈیوڈ وینس کی تقریر نے ان یورپی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کئی عشروں سے خود کو امریکہ کا قریبی اتحادی تصور کرتے آئے ہیں۔ وینس نے 2855 الفاظ پر مشتمل اپنی تقریر میں بارہا یورپی حکمرانوں کو جمہوریت کا سبق پڑھایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عوام کی مرضی سے خوفزدہ نہ ہوں۔
 
امریکی نائب صدر نے کہا: "ہمیں اپنے عوام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، حتی اس وقت بھی جب وہ اپنے لیڈروں کے خلاف اظہار خیال کر رہے ہوں۔" جیمز ڈیوڈ وینس نے یورپی حکمرانوں کے اس بیانیے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ روس ان کے لیے خطرہ ہے اور کہا: "وہ خطرہ جس کے بارے میں مجھے یورپ کے بارے میں زیادہ پریشانی لاحق ہے روس نہیں ہے اور نہ ہی چین ہے اور نہ ہی کوئی اور بیرونی طاقت ہے بلکہ میں جس خطرے سے پریشان ہوں وہ اندرونی خطرہ ہے۔" انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطرہ دراصل یورپ کی جانب سے کچھ بنیادی ترین اقدار جو امریکہ اور یورپ کی مشترکہ اقدار ہیں، سے ہاتھ کھینچ لینا ہے۔ امریکی نائب صدر نے رومانیہ کی جانب اشارہ کیا جہاں نیٹو اور یورپی یونین کے منتقد ایک دائیں بازو کے رہنما کی کامیابی کے بعد الیکشن کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔
 
انہوں نے کہا: "رومانیہ حکومت نے حال ہی میں پورے الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔" انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا: "اگر ہر چیز شیڈول کے مطابق آگے نہ بڑھے تو ممکن ہے یہی واقعہ جرمنی میں بھی پیش آ جائے۔" یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ کھلم کھلا دائیں بازو کی یورپی سیاسی جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے یورپی حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ووٹرز کے ووٹ نظرانداز نہ کریں اور کہا: "اگر آپ اپنے ووٹرز سے خوفزدہ ہیں تو امریکہ آپ کی مدد نہیں کرے گا۔" جیمز ڈیوڈ وینس نے سویڈن، بلجیئم اور برطانیہ میں بھی آزادی اظہار کی صورتحال پر شدید تنقید کی اور کہا: "میں اس بارے میں پریشان ہوں کہ یورپی حکمران آزادی اظہار کی قدر سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔" اس بارے میں وینس نے حتی اپنے ملک پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "بعض اوقات سینسرشپ کی سب سے اونچی آواز یورپ سے نہیں بلکہ میرے ملک سے سنائی دیتی ہے۔"
 
یورپی حکمرانوں کو جیمز ڈیوڈ وینس کی یہ چبھتی ہوئی تقریر اچھی نہیں لگی جس کا ہر لفظ انہیں جمہوریت کا سبق پڑھاتا دکھائی دیتا تھا۔ جرمنی کے دائیں بازو کے سیاسی رہنما ایلس وائیڈل نے امریکی نائب صدر کی تقریر کو سراہا جبکہ جرمنی کے صدر اولاف شولتز نے شدت پسند دائیں بازو کے رہنما کی حمایت کو اجنبی کی مداخلت قرار دے کر اس کی مذمت کر ڈالی۔ انہوں نے کہا: "اگر غیر ہماری جمہوریت میں، ہمارے الیکشن میں اور قوم پرست جماعت اے ایف ڈی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں مداخلت کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔" انہوں نے مزید کہا کہ شدت پسند دائیں بازو کی جماعت کی حمایت ان تجربات سے تضاد رکھتا ہے جو ہم ماضی میں نازی سے سیکھ چکے ہیں۔ جرمنی کے صدر نے کہا: "ہم خود فیصلہ کریں گے کہ ہماری جمہوریت میں کیا ہونا چاہیے۔"
 
اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کے بیان کی حمایت کی ہے اور اسے سراہا بھی ہے لیکن اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان تعلقا کا نیا باب شروع ہو چکا ہے۔ میونخ کانفرنس میں تقریر کرنے والے سیاسی ماہر فرینک والٹر اشتاین نے کہا: "واضح ہے کہ نئی امریکی حکومت ایک خاص سوچ رکھتی ہے جو ہم سے بہت زیادہ مختلف ہے۔" یورپی کالم نویس اور تجزیہ کار ایرنو برٹرن نے امریکی نائب صدر کی تقریر کا 2007ء میں روسی صدر پیوٹن کی تقریر سے موازنہ کرتے ہوئے کہا: "یہ دونوں فیصلہ کن مواقع تھے جب موجودہ اتحاد مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔" انہوں نے کہا: "وینس بھرپور انداز میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے آرڈر کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جی ڈی وینس کی تقریر شاید ایسی تقریر کے طور پر یاد رکھی جائے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ کے درمیان اتحاد ختم کر ڈالا۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دوسری عالمی جنگ کے بعد کانفرنس میں تقریر امریکہ اور یورپ امریکی نائب صدر یورپی حکمرانوں کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہا کے درمیان کی حمایت کی تقریر نے یورپ یورپ کے کہ یورپ وینس کی اور کہا وینس نے ہے اور

پڑھیں:

روس میں خاتون نے 3 لاکھ 41 ہزار روپے کے بدلے اپنی ’روح بیچ‘ ڈالی

حال ہی میں ایک روسی خاتون نے 100,000 روبلز (3 لاکھ 41 ہزار روپے) کے عوض ایک شہری کو اپنی روح بیچنے کا دعویٰ کیا ہے۔ 

یہ واقعہ سوشل میڈیا اور کچھ غیر روایتی خبروں میں کافی گردش کر رہا ہے۔ دراصل یہ معاہدہ ایک شخص نے ٹیلی گرام پر اشتہار کے طور پر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جو کوئی اپنی روح مجھے بیچے گا وہ اتنی رقم پائے گا۔ 

اس پر خاتون نے معاہدے کا پرنٹ آؤٹ نکال کر اس پر اپنے خون سے دستخط کیے اور معاہدہ پکا کیا جس کی تصویر بھی خاتون نے سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ رقم ملنے پر اس کا استعمال خاتون نے کھلونے والی لببو گُڑیائیں خریدنے اور ایک کنسرٹ ٹکٹ حاصل کرنے میں کیا۔ 

کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ سب “سوشل ایکسپیرمنٹ” یا مذاق کے طور پر شروع ہوا تھا نہ کہ حقیقی روحوں کی نقل و حمل کا قانونی/روحانی معاملہ۔ 

دوسری جانب یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ واقعہ کس حد تک تصدیق شدہ ہے۔ کیا معاہدہ قانونی حیثیت رکھتا ہے اور کیا یہ واقعہ صرف انٹرنیٹ پر وائرل کہانی ہے یا حقیقی کیس؟

“روح بیچنا” جیسے معاملات اکثر تشبیہی معنی رکھتے ہیں اور بعض لوگ اسے ایک توجہ حاصل کرنے کے طور پر لیتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • روس میں خاتون نے 3 لاکھ 41 ہزار روپے کے بدلے اپنی ’روح بیچ‘ ڈالی
  • پابندیوں لگانے کی صورت میں یورپ کو سخت جواب دینگے، تل ابیب
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • اثاثے ہتھیانے والوں کا پیچھا کریں گے، روس کی یورپ کو دھمکی
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • روس پر پابندیاں لگانے کیلیے تیار ہیں، امریکا کے قطر کیساتھ خاص تعلقات ‘ اسرائیل کو محتاط رہنا ہوگا‘ ٹرمپ