Islam Times:
2025-06-09@19:56:39 GMT

امریکہ نے یورپ کی سلامتی بیچ ڈالی

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

امریکہ نے یورپ کی سلامتی بیچ ڈالی

اسلام ٹائمز: اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کے بیان کی حمایت کی ہے اور اسے سراہا بھی ہے لیکن اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان تعلقا کا نیا باب شروع ہو چکا ہے۔ میونخ کانفرنس میں تقریر کرنے والے سیاسی ماہر فرینک والٹر اشتاین نے کہا: "واضح ہے کہ نئی امریکی حکومت ایک خاص سوچ رکھتی ہے جو ہم سے بہت زیادہ مختلف ہے۔" یورپی کالم نویس اور تجزیہ کار ایرنو برٹرن نے امریکی نائب صدر کی تقریر کا 2007ء میں روسی صدر پیوٹن کی تقریر سے موازنہ کرتے ہوئے کہا: "یہ دونوں فیصلہ کن مواقع تھے جب موجودہ اتحاد مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔" انہوں نے کہا: "وینس بھرپور انداز میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے آرڈر کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جی ڈی وینس کی تقریر شاید ایسی تقریر کے طور پر یاد رکھی جائے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ کے درمیان اتحاد ختم کر ڈالا۔" تحریر: حامد خبیری
 
یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ اور یورپ کے تعلقات اس سے کہیں زیادہ چیلنجز کا شکار ہوں گے جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ امریکی نائب صدر جیمز ڈیوڈ وینس نے میونخ سیکورٹی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے: "امریکہ دنیا کے کسی اور حصے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے کہ یورپ اپنے دفاع کا بندوبست خود ہی کریں۔" ان کے اس بیان نے یورپ کے بیمار بدن پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "یورپ کو جس چیز سے اصل خطرہ ہے وہ روس اور چین نہیں بلکہ خود یورپ کے اندر موجود قوتیں ہیں۔" امریکی نائب صدر کے اس بیان کے بعد بعض حلقوں نے اسے یورپ اور امریکہ کے درمیان اتحاد کے اختتام کا آغاز قرار دے دیا ہے۔ یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ کایا کالاس نے اس بارے میں کہا: "ٹرمپ کے نائب وینس کی آج کی تقریر سن کر یوں لگتا ہے جیسے امریکہ ہم سے جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔"
 
امریکی نائب صدر جی ڈی وینس نے ماضی کی تمام تر روایات سے پشت کرتے ہوئے جرمنی کی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے سربراہ ایلس وائیڈل سے ملاقات کی۔ اگرچہ خود جرمن حکام نے اس ملاقات پر سب سے زیادہ اعتراض کیا ہے لیکن یہ ملاقات درحقیقت تمام یورپی حکومتوں کے لیے ایک اہم پیغام سمجھی جاتی ہے۔ یہ وہی پیغام ہے جسے کچھ گھنٹے پہلے امریکی نائب صدر نے میونخ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے بیان کیا اور کہا کہ یورپ کو اپنے دفاع کا بندوبست خود کرنا ہو گا۔ جیمز ڈیوڈ وینس کی تقریر نے ان یورپی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کئی عشروں سے خود کو امریکہ کا قریبی اتحادی تصور کرتے آئے ہیں۔ وینس نے 2855 الفاظ پر مشتمل اپنی تقریر میں بارہا یورپی حکمرانوں کو جمہوریت کا سبق پڑھایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عوام کی مرضی سے خوفزدہ نہ ہوں۔
 
امریکی نائب صدر نے کہا: "ہمیں اپنے عوام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، حتی اس وقت بھی جب وہ اپنے لیڈروں کے خلاف اظہار خیال کر رہے ہوں۔" جیمز ڈیوڈ وینس نے یورپی حکمرانوں کے اس بیانیے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ روس ان کے لیے خطرہ ہے اور کہا: "وہ خطرہ جس کے بارے میں مجھے یورپ کے بارے میں زیادہ پریشانی لاحق ہے روس نہیں ہے اور نہ ہی چین ہے اور نہ ہی کوئی اور بیرونی طاقت ہے بلکہ میں جس خطرے سے پریشان ہوں وہ اندرونی خطرہ ہے۔" انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطرہ دراصل یورپ کی جانب سے کچھ بنیادی ترین اقدار جو امریکہ اور یورپ کی مشترکہ اقدار ہیں، سے ہاتھ کھینچ لینا ہے۔ امریکی نائب صدر نے رومانیہ کی جانب اشارہ کیا جہاں نیٹو اور یورپی یونین کے منتقد ایک دائیں بازو کے رہنما کی کامیابی کے بعد الیکشن کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔
 
انہوں نے کہا: "رومانیہ حکومت نے حال ہی میں پورے الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔" انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا: "اگر ہر چیز شیڈول کے مطابق آگے نہ بڑھے تو ممکن ہے یہی واقعہ جرمنی میں بھی پیش آ جائے۔" یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ کھلم کھلا دائیں بازو کی یورپی سیاسی جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے یورپی حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ووٹرز کے ووٹ نظرانداز نہ کریں اور کہا: "اگر آپ اپنے ووٹرز سے خوفزدہ ہیں تو امریکہ آپ کی مدد نہیں کرے گا۔" جیمز ڈیوڈ وینس نے سویڈن، بلجیئم اور برطانیہ میں بھی آزادی اظہار کی صورتحال پر شدید تنقید کی اور کہا: "میں اس بارے میں پریشان ہوں کہ یورپی حکمران آزادی اظہار کی قدر سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔" اس بارے میں وینس نے حتی اپنے ملک پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "بعض اوقات سینسرشپ کی سب سے اونچی آواز یورپ سے نہیں بلکہ میرے ملک سے سنائی دیتی ہے۔"
 
یورپی حکمرانوں کو جیمز ڈیوڈ وینس کی یہ چبھتی ہوئی تقریر اچھی نہیں لگی جس کا ہر لفظ انہیں جمہوریت کا سبق پڑھاتا دکھائی دیتا تھا۔ جرمنی کے دائیں بازو کے سیاسی رہنما ایلس وائیڈل نے امریکی نائب صدر کی تقریر کو سراہا جبکہ جرمنی کے صدر اولاف شولتز نے شدت پسند دائیں بازو کے رہنما کی حمایت کو اجنبی کی مداخلت قرار دے کر اس کی مذمت کر ڈالی۔ انہوں نے کہا: "اگر غیر ہماری جمہوریت میں، ہمارے الیکشن میں اور قوم پرست جماعت اے ایف ڈی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں مداخلت کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔" انہوں نے مزید کہا کہ شدت پسند دائیں بازو کی جماعت کی حمایت ان تجربات سے تضاد رکھتا ہے جو ہم ماضی میں نازی سے سیکھ چکے ہیں۔ جرمنی کے صدر نے کہا: "ہم خود فیصلہ کریں گے کہ ہماری جمہوریت میں کیا ہونا چاہیے۔"
 
اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کے بیان کی حمایت کی ہے اور اسے سراہا بھی ہے لیکن اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان تعلقا کا نیا باب شروع ہو چکا ہے۔ میونخ کانفرنس میں تقریر کرنے والے سیاسی ماہر فرینک والٹر اشتاین نے کہا: "واضح ہے کہ نئی امریکی حکومت ایک خاص سوچ رکھتی ہے جو ہم سے بہت زیادہ مختلف ہے۔" یورپی کالم نویس اور تجزیہ کار ایرنو برٹرن نے امریکی نائب صدر کی تقریر کا 2007ء میں روسی صدر پیوٹن کی تقریر سے موازنہ کرتے ہوئے کہا: "یہ دونوں فیصلہ کن مواقع تھے جب موجودہ اتحاد مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔" انہوں نے کہا: "وینس بھرپور انداز میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے آرڈر کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جی ڈی وینس کی تقریر شاید ایسی تقریر کے طور پر یاد رکھی جائے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ کے درمیان اتحاد ختم کر ڈالا۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دوسری عالمی جنگ کے بعد کانفرنس میں تقریر امریکہ اور یورپ امریکی نائب صدر یورپی حکمرانوں کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہا کے درمیان کی حمایت کی تقریر نے یورپ یورپ کے کہ یورپ وینس کی اور کہا وینس نے ہے اور

پڑھیں:

ایک کلیدی   موڑ پر سربراہان مملکت کے درمیان  گفتگو  چین امریکہ تعلقات کی سمت کا تعین کرتی ہے۔سی ایم جی کا تبصرہ

ایک کلیدی   موڑ پر سربراہان مملکت کے درمیان  گفتگو  چین امریکہ تعلقات کی سمت کا تعین کرتی ہے۔سی ایم جی کا تبصرہ WhatsAppFacebookTwitter 0 7 June, 2025 سب نیوز

بیجنگ : چینی اور امریکی سربراہان مملکت نے   فون پر بات چیت کی جو  چار ماہ سے زائد عرصے میں چینی اور امریکی سربراہان مملکت کے درمیان ہونے والی  پہلی ٹیلیفونک  بات چیت  اور   امریکی  صدر ٹرمپ   کی دعوت پر چین کے صدر شی جن پھنگ کو  پہلی کال بھی تھی۔ گزشتہ ماہ جنیوا میں ہوانے والے  چین-امریکہ  اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔

چین نے  ذمہ دارانہ انداز میں متعلقہ ٹیرف اور نان ٹیرف اقدامات کو منسوخ یا معطل  کیا  جو امریکی ” ریسیپروکل  ٹیرف” کے  تحت ہونے والے اقدامات کےخلاف اٹھائے گئے تھے ،لیکن  امریکی فریق نے چین کے خلاف متواتر امتیازی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں۔اے آئی چپ ایکسپورٹ کنٹرول گائیڈ لائنز جاری کرنے سے لے کر چین کو چپ ڈیزائن سافٹ ویئر (EDA) کی فروخت روکنے اور چینی طلباء کے ویزوں کی منسوخی کا اعلان کرنے تک کے تمام اقدامات کا  سلسلہ جنیوا میں ہونے والے  اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے اتفاق رائے کی خلاف ورزی  ہیں  اور  چین امریکہ تعلقات کی راہ میں   مداخلت اوراس کے  نقصان  دہ ہیں ۔ 

اس  کلیدی موڑ پر، دونوں سربراہان مملکت کے درمیان کال نے چین-امریکہ تعلقات کو درست راہ  پر واپس لانے میں  حالات پیدا  کئے ہیں ۔ امریکی فریق نے کال کی درخواست میں پہل کی ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیرف   اور تجارتی جنگ  خود امریکہ کے  لیے ایک  تیزی سے  “ناقابل برداشت بوجھ” بنتی جا رہی ہے۔ چین کی طرف سے کال میں جو خلوص  دکھایا گیا اور جو اصول اپنائے گئے  ،وہ چینی اور امریکی عوام اور یہاں تک کہ دنیا کے لوگوں کے لئے   ذمہ داری کے  اعلیٰ احساس کی عکاسی کرتے ہیں۔ چین نے واضح طور پر اختلافات کو دور کرنے کے لیے امریکا سے مشاورت پر آمادگی ظاہر کی، لیکن یہ بھی بتایا کہ  چین  نام نہاد معاہدے کے لیے اپنے اصولی موقف کو کبھی قربان نہیں کرے گا۔  امریکہ کے لیے اولین ترجیح خلوص کا اظہار ، جنیوا مذاکرات کے اتفاق رائے پر عمل درآمد  اور چین کے خلاف تمام امتیازی سلوک اور منفی اقدامات کو منسوخ کرنا ہے ۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے ٹیلیفونک بات چیت میں اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ کو تائیوان کے امور  کو احتیاط سے سنبھالنا  چاہئے تاکہ “تائیوان کی علیحدگی ” کا ایجنڈا رکھنے والے مٹھی بھر  علیحدگی پسندوں کو چین اور امریکہ   کے مابین تنازعات اور تصادم کی خطرناک صورتحال میں گھسیٹنے سے روکا جا سکے۔ یہ امریکہ میں ان چند افراد کے لئے بھی  ایک سخت انتباہ ہے جنہوں نے حال ہی میں اس حوالے سے  خطرناک ریمارکس دئے ہیں۔

 امید ہے کہ امریکہ قول و فعل میں مطابقت رکھے گا، دونوں سربراہان مملکت کے اہم اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنائے گا اور چین امریکہ تعلقات کو مشترکہ طور پر مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے  عمل کو  فروغ دے گا، جس سے دنیا میں مزید استحکام اور یقین پیدا ہو۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنوے فیصد  افراد کا ماننا ہے کہ  چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست  انتخاب ہے، سی جی ٹی این سروے نوے فیصد  افراد کا ماننا ہے کہ  چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست  انتخاب... چین اور یورپی یونین کے درمیان  تین ” اہم معاملات ” میں پیش رفت چین-کینیڈا تعلقات غیر ضروری مداخلت کا شکار ہوئے، چینی وزیر اعظم چین کا جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر عالمی صنعتی چین کی حفاظت کو یقینی بنانے کا اعلان چینی صدر کی پانچن لاما ارتنی چوکی گیابو سے ملاقات چین امریکہ تعلقات ایک اہم تاریخی موڑ پر ہیں، چینی نائب صدر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی
  • شو چھی لیانگ کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں
  • چین کے نائب وزیر اعظم برطانیہ کا دورہ اور چین امریکہ اقتصادی و تجارتی مشاورتی میکانزم کے پہلے اجلاس کا انعقاد کریں گے
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • ایک کلیدی   موڑ پر سربراہان مملکت کے درمیان  گفتگو  چین امریکہ تعلقات کی سمت کا تعین کرتی ہے۔سی ایم جی کا تبصرہ
  • جوہری معاہدے پر بڑھتی کشیدگی، ایران کی یورپ اور امریکہ کو وارننگ
  • امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ کردیئے
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول