سمونا چکروتی نے کپل شرما شو کی حقیقت بتا دی؛ حیران کن انکشاف کردیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
بھارتی ٹی وی انڈسٹری کے سب سے مقبول ترین ’’کپل شرما شو‘‘ کے ساتھ برسوں سے منسلک سمونا چکرورتی نے ایک انٹرویو میں اپنی زندگی، اہداف اور شو کے بارے میں کھل کر باتیں کیں۔
سمونا چکرورتی نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایک موقع پر میں نے اپنے والدین سے کہہ دیا تھا کہ اب میں اکیلی رہنا چاہتی ہوں اور ہمیں ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا چاہیے۔
اداکارہ نے کہا کہ یہ بات عجیب لگے گی لیکن میں زندگی کچھ کرنا چاہتی تھی جس سے کے لیے ایسے تلخ فیصلے لینا پڑتے ہیں۔
سمونا چکرورتی نے ممبئی میں اپنا گھر خریدنے سے متعلق بتایا کہ میرے والدین کے لیے بھی یقین کرنا مشکل تھا لیکن میں نے یہ کر دکھایا۔
کپل شرما شو میں اپنے کردار اور اسکرپٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سمونا چکرورتی نے کہا کہ مجھے کچھ سمجھنے میں وقت لگا۔
اداکارہ نے بتایا کہ میرا اداکاری کا اپنا انداز ہے لیکن شو کے لیے مجھے اس میں تبدیلی کرنا پڑی تھی۔
سمونا نے کہا کہ جب ہمیں اسکرپٹ ملتا تھا، میں پڑھتی اور لفظ بہ لفظ یاد کرتی کیونکہ اس میں پنچ لائنز بھی ہوتی ہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ میں اس سے بھی بڑھ کر کپل شرما کی لائن بھی یاد کرتی تھی کیونکہ ڈائیلاگ ڈلیوری کے لیے برجستگی بہت اہم ہوتی تھی۔
اسکرپٹ کے حوالے سے سمونا چکرورتی نے انکشاف کیا کہ ہمیں اس میں بہت زیادہ تبدیلی کی اجازت نہیں تھی اور سب کو لائنز اور ایپیسوڈ کے بہاؤ کے مطابق کام کرنا پڑتا تھا۔
سمونا نے بتایا کہ شو میں تقریباً ہر بات اسکرپٹ کے مطابق ہوتی تھی اور جب کہ دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ شاید پنج لائن برجستہ کہی گئی ہے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: سمونا چکرورتی نے نے کہا کہ بتایا کہ کپل شرما کے لیے
پڑھیں:
غزہ: یو این امدادی اہلکار بھی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے لگے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) غزہ میں خوراک کے حصول کی کوشش بمباری جیسی جان لیوا ہو گئی ہے جہاں اقوام متحدہ کے عملے کی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے کی اطلاعات نے شہریوں کی بقا کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کی ڈائریکٹر اطلاعات جولیٹ ٹوما نے بتایا ہے کہ غزہ میں طبی عملے، صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت سبھی بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال ہیں۔
خوراک کی تقسیم کے لیے غزہ امدادی فاؤںڈیشن کے قائم کردہ مراکز گویا موت کا پھندا بن گئے ہیں جہاں نشانہ باز لوگوں پر اس طرح اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں جیسے انہیں ہلاک کرنے کا لائسنس ملا ہو۔ Tweet URLان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل کا قائم کردہ یہ متبادل امدادی نظام دراصل بڑے پیمانے پر لوگوں کو شکار کرنے کا مںصوبہ ہے جس پر کسی سے بازپرس نہیں ہوتی۔
(جاری ہے)
اس صورتحال کو نیا معمول بننے نہیں دیا جا سکتا۔ امداد کی تقسیم کرائے کے فوجیوں کا کام نہیں۔حصول خوراک میں 1,054 ہلاکاقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ 27 مئی کو غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر امداد کی تقسیم شروع ہونے کے بعد وہاں اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں 1,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
ادارے کے ترجمان ثمین الخیطان کے مطابق، 21 جولائی تک خوراک کے حصول کی کوشش میں 1,054 لوگوں کی ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ ان میں 766 غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر ہلاک ہوئے جبکہ 288 شہری اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں سے خوراک اتارنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے اور دیگر واقعات میں مارے گئے۔
غزہ میں رہن سہن کے حالات بدترین صورت اختیار کر چکے ہیں جہاں بنیادی ضرورت کی اشیا 4,000 فیصد تک مہنگی ہو گئی ہیں۔
گھربار کھونے اور کئی مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ علاقے کی تقریباً تمام آبادی کا انحصار امدادی خوراک پر ہے جس کا حصول زندگی کا خطرہ مول لیے بغیر ممکن نہیں۔اونچے درجے کی غذائی قلتگزشتہ روز عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے اطلاع دی تھی کہ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی کو قحط جیسے حالات کا سامنا ہے جہاں تقریباً ایک لاکھ خواتین اور بچے انتہائی شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں جنہیں فوری علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
جولیٹ ٹوما نے بتایا ہے کہ علاقے میں بچوں کے ڈائپر کی قیمت بھی تین ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ ان حالات میں بیشتر مائیں پولیتھین کے بیگ استعمال کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ایک شخص نے بتایا کہ اس نے اپنی آخری قمیض بھی پھاڑ کر بیٹی کو سینیٹری پیڈ کے طور پر استعمال کے لیے دے دی ہے۔
'انروا' نے بچوں اور بڑوں کے لیے بڑی تعداد میں ڈائپر سمیت صحت و صفائی کے سامان کی بڑی مقدار غزہ کے سرحدی راستوں پر تیار کر رکھی ہے۔
علاوہ ازیں ادارے کے 6,000 ٹرک خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان لے کر مصر اور اردن میں کھڑے ہیں جنہیں غزہ میں داخلے کی اجازت درکار ہے۔جولیٹ ٹوما نے جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور اقوام متحدہ بشمول 'انروا' کے زیرانتظام بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان طارق جاساروک نے کہا ہے کہ غزہ میں امدادی کارروائیاں مزید سکڑ گئی ہیں۔ سوموار کو دیرالبلح میں ادارے کی عمارتوں پر تین حملے کیے گئے جبکہ وہاں پناہ لیے لوگوں سے بدسلوکی کی گئی اور ایک بڑے گودام کو تباہ کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کی فوج 'ڈبلیو ایچ او' کی عمارت میں بھی داخل ہو گئی جس سے عملے اور بچوں سمیت ان کے خاندانوں کو سنگین خطرے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ساحلی شہر المواصی کی جانب پیدل نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ عملے کے ارکان کو برہنہ کر کے اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان کی تلاشی لی گئی اور ایک رکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر تاحال زیر حراست ہے۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ 21 ماہ سے جاری جنگ میں تقریباً ڈیڑھ ہزار طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں اور 94 فیصد طبی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ نصف ہسپتال غیرفعال ہو گئے ہیں۔
طبی عملے کو ویزے سے انکار
18 مارچ کے بعد اسرائیلی حکام کی جانب سے ہنگامی طبی مدد پہنچانے والی بیشتر ٹیموں کو غزہ میں آنے کے لیے ویزے جاری نہیں کیے جا رہے۔ جن لوگوں کے ویزے مسترد کیے گئے ان میں 58 غیرملکی معالجین شامل ہیں۔
جولیٹ ٹوما نے بتایا ہے کہ 'انروا' کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی کو مارچ 2024 میں غزہ آنے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں نہ تو دوبارہ علاقے میں آنے کی اجازت دی گئی ہے اور نہ ہی انہیں مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے لیے ویزا جاری کیا گیا ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقائق سے آگاہی کے لیے صحافیوں کو غزہ میں رسائی ملنی چاہیے تاکہ علاقے کی ہولناک صورتحال دنیا کے سامنے آ سکے۔