یوکرین جنگ پر خفیہ ڈیل؟ امریکہ، روس اور سعودی عرب کے مذاکرات، یورپ پریشان
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
ریاض: سعودی عرب میں امریکی اور روسی حکام کے درمیان یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں، تاہم یوکرین کو ان مذاکرات میں شامل نہیں کیا گیا۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جرمنی میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کے بعد بیان دیا کہ یوکرین کو مذاکرات میں مدعو نہیں کیا گیا اور وہ روس سے کسی بھی بات چیت سے پہلے اپنے اسٹریٹیجک اتحادیوں سے مشورہ کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف سعودی عرب جائیں گے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ روسی وفد میں کون شامل ہوگا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے 20 جنوری کو عہدہ سنبھالا، بارہا یوکرین جنگ کو جلد ختم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ لیکن یورپی ممالک اس خدشے میں مبتلا ہیں کہ انہیں کسی بھی امن معاہدے سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ روبینو نے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے بات چیت کی، اور دونوں نے ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان ملاقات کی تیاری کے لیے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
دوسری جانب، امریکہ اور یوکرین قدرتی وسائل کے معاہدے پر بھی بات چیت کر رہے ہیں، جس کے تحت امریکہ یوکرین کے 50 فیصد قیمتی معدنی ذخائر پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ زیلنسکی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں یوکرین کے لیے مطلوبہ سیکیورٹی تحفظات شامل نہیں۔
روس کا مطالبہ ہے کہ یوکرین نیوٹرل ہو جائے اور کچھ علاقے روس کے حوالے کر دے جبکہ یوکرین کا مؤقف ہے کہ روس مکمل انخلا کرے اور نیٹو کی سیکیورٹی گارنٹی فراہم کی جائے۔
ماہرین کے مطابق، اگر یوکرین کو شامل کیے بغیر مذاکرات کیے گئے تو یہ مستقبل میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں اور یورپی ممالک کی ناراضی کا سبب بن سکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی محکمہ دفاع نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ اس فیصلے پر آخری دستخط صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرنے ہیں۔
امریکی میڈیا اور حکام کے مطابق پینٹاگون نے وائٹ ہاؤس کو رپورٹ کی ہے کہ یوکرین کو یہ میزائل دینے سے امریکا کے اپنے دفاعی ذخائر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے حال ہی میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ وہ یہ میزائل یوکرین کو دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس ملاقات سے ایک روز قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ٹیلیفونک گفتگو کی تھی جس میں پیوٹن نے خبردار کیا کہ ٹوماہاک میزائل ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ جیسے بڑے شہروں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ان کی فراہمی امریکا روس تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ٹوماہاک کروز میزائل 1983 سے امریکی اسلحے کا حصہ ہیں۔ اپنی طویل رینج اور درستگی کے باعث یہ میزائل کئی بڑی عسکری کارروائیوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔