سوڈان خانہ جنگی: نقل مکانی پر مجبور افراد کی مدد کے لیے 6 ارب ڈالر کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 فروری 2025ء) اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں نے سوڈان میں جاری خانہ جنگی کے باعث اندرون و بیرون ملک نقل مکانی کرنے والے 2 کروڑ 60 لاکھ لوگوں کے لیے 6 ارب ڈالر کے امدادی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر اور پناہ گزینوں کے لیے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی نے مشترکہ طور پر یہ اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوڈان کی ایک تہائی آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔
ملک میں جاری ہولناک اور نامعقول لڑائی کے اثرات سرحدوں سے باہر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ہمسایہ ممالک نے سوڈان کے پناہ گزینوں کو جگہ دے کر ان سے یکجہتی کی بہت بڑی مثال پیش کی ہے لیکن ان کے وسائل محدود ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہے۔(جاری ہے)
اپیل میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کے میزبان ممالک کو انہیں پانی، پناہ اور صحت جیسی بنیادی سہولیات مہیا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
عالمی برادری کو ناصرف پناہ گزینوں کو ضروری امداد اور تحفظ کی فراہمی جاری رکھنے بلکہ سوڈان میں امن کی بحالی میں مدد دینے کے لیے بھی آگے آنا ہو گا۔قحط، جنسی تشدد اور ہلاکتیںاپیل میں کہا گیا ہے کہ سوڈان کو بہت بڑے پیمانے پر ہنگامی حالات کا سامنا ہے۔ ملک میں قحط پھیل رہا ہے۔ جنسی تشدد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کو ہلاک و زخمی کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو ہولناک مصائب درپیش ہیں۔
دونوں حکام کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا مقصد لاکھوں لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینا ہے۔ اس مقصد کے لیے لڑائی کا خاتمہ، سوڈان کے لوگوں کی مدد کے لیے مالی وسائل کا انتظام اور زمینی، سمندری اور فضائی راستوں سے لوگوں کے لیے انسانی امداد پہنچانا بہت ضروری ہے۔
سنگین انسانی بحرانسوڈان میں کم از کم پانچ مقامات پر قحط پھیل چکا ہے جن میں ڈارفر اور کوہ نوبا کے علاقوں میں بے گھر لوگوں کے کیمپ بھی شامل ہیں۔
نئی فصل کی کٹائی سے پہلے مئی تک اس میں شدت آنے کا خدشہ طاہر کیا گیا ہے۔ لڑائی میں کمی نہ آنے اور ملک کے بیشتر حصوں میں بنیادی خدمات کی فراہمی کا نظام درہم برہم ہونے کے باعث مستقبل قریب میں انسانی حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔سوڈان کو انسانی امداد کی فراہمی کے منصوبے میں دو کروڑ 10 لاکھ لوگوں کو مدد اور تحفظ مہیا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے 4.
سوڈان سے روزانہ ہزاروں لوگ بیرون ملک نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اب تک 35 لاکھ افراد نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لی ہے جہاں خدمات اور وسائل کی پہلے ہی قلت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ علاقائی سطح پر پناہ گزینوں کی مدد کے منصوبے میں لوگوں کو ضروری امداد اور تحفظ مہیا کرنے کو ترجیح دی جائے گی جس میں انہیں پناہ کا سامان فراہم کرنا، ان کی سرحدی علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقلی، انہیں نفسیاتی مدد، صاف پانی، طبی سہولیات اور تعلیم کی فراہمی شامل ہیں۔
اس مقصد کے لیے امدادی شراکت داروں کو وسطی جمہوریہ افریقہ، چاڈ، مصر، ایتھوپیا، لیبیا، جنوبی سوڈان اور یوگنڈا کے لیے 1.8 ارب ڈالر کے امدادی وسائل درکار ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ مالی وسائل کی فوری فراہمی کے بغیر دو تہائی پناہ گزین بچے بنیادی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔ ان حالات میں پناہ گزینوں اور ان کے میزبان ممالک کی 48 لاکھ آبادی کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہو گا جبکہ طبی خدمات کی فراہمی کے نظام کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پناہ گزینوں اقوام متحدہ مہیا کرنے کی فراہمی ارب ڈالر کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
طالبان، لوٹنے والے افغان شہریوں کے ’حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) ایران اور پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کی ملک بدری کی مہم شروع کی گئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افغانوں کو افغانستان واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ رواں برس یعنی 2025ء میں اب تک 1.9 ملین سے زائد افراد افغان باشندے اپنے ملک لوٹے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ایران سے لوٹنے والے افغان باشندے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے رپورٹ کا اجراءرپورٹ کے اجراء کے ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک واپس آنے والے افراد میں خواتین اور لڑکیاں، سابق حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز سے وابستہ افراد، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
(جاری ہے)
پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں
پاکستان، افغان مہاجرین کے انخلا کے معاشی اثرات
ان خلاف ورزیوں میں تشدد اور بدسلوکی، من مانی گرفتاری اور حراست اور ذاتی سلامتی کو خطرات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے حال ہی میں اندازہ لگایا تھا کہ 2025 ء میں 30 لاکھ افراد افغانستان واپس جا سکتے ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی یہ رپورٹ واپس آنے والے 49 افغانوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانوں کے خلاف ان کی مخصوص پروفائل کی بنیاد پر خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جن میں خواتین، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ ساتھ اگست 2021ء میں ختم ہونے والی سابق حکومت سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔
طالبان حکومت نے اس سے قبل واپس لوٹنے والے ایسے افغان باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی تھی اور طالبان کی شورش کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران نیٹو افواج اور سابق حکومت کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف عام معافی کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا، '' کسی کو بھی ایسے ملک میں واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ذاتی تاریخ کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا ہو۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''افغانستان میں، یہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے اور بھی زیادہ واضح ہے، جنہیں ایسے متعدد اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف ان کی جنس کی بنیاد پر ظلم و ستم کے مترادف ہیں۔‘‘
طالبان کی طرف سے خواتین کے خلاف 'امتیازی‘ سلوکگزشتہ چار برسوں کے دوران طالبان حکامکی جانب سے خواتین کو عوامی زندگی سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔
طالبان نے خواتین کے لیے یونیورسٹیوں، عوامی پارکوں، جم اور بیوٹی سیلونوں میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جسے اقوام متحدہ نے 'صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون کی ان کی تشریح ہر ایک کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے اور امتیازی سلوک کے الزامات 'بے بنیاد‘ ہیں۔
روس وہ واحد ملک ہے جس نے 2021ء میں ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہے۔
دیگر ممالک کی طرف سے بھی افغان شہریوں کی ملک بدریہمسایہ ملک تاجکستان نے اسلام آباد اور تہران کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے افغانوں کو ملک بدر کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے۔
یو این ایچ سی آر نے اے ایف پی کو بتایا کہ آٹھ جولائی سے اب تک کم از کم 377 افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
جرمنی نے گزشتہ ہفتے جرائم کا ارتکاب کرنے والے 81 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا تھا اور امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہزاروں افغانوں کی عارضی حفاظت کا درجہ ختم کر دے گا۔
اقوام متحدہ کے مطابق وطن واپس لوٹنے والوں کی تعداد میں حالیہ اضافے نے 'کثیر سطحی انسانی حقوق کا بحران‘ پیدا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے جبری واپسی کو 'فوری طور پر روکنے‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ادارت: کشور مصطفیٰ